گزشتہ روز کی بات ہے میری وہی روز کی مصروفیات تھی اکیڈمی میں تدریسی انجام دینے کے بعد جب گھر کی طرف جانے کے لیے باہر نکلی تو معلوم ہوا کے آج کراچی والوں پر بادل مہربان ہیں اور سرشاری سے برسنے کی ابتداء کر دی ہے پر گھٹاؤں کی یہ مہربانی میرے لیے مشکل کھڑی کرگئی کہ گھر کیسے جاؤں؟؟؟؟
یکا یک بجلی کو ندی آسمان اور دماغ میں بیک وقت کہ اکیڈمی کے پچھلی جانب میں ہی میری دوست کا گھر ہے یہ خیال آتے ہی میں اسکے گھر کی جانب چل پڑی
جب میں وہاں پہنچی تو دروازہ کھلا ہوا تھا میں نے عادت کے مطابق دروازہ کھٹکھٹایا اور آواز دی.... وہ بھی حسب عادت میری آواز سنتے ہی باہر آگئی لیکن.... ہر بار اسے مجھے اپنے گھر دیکھ کر حیرت ہوتی تھی... پر آج حیرت مجھے ہوئی اسے دیکھ کر.....
وہ جو ہر وقت نکھری نکھری تتلیوں کی طرح رنگ ... پھولوں کی طرح خوشبوئیں بکھیرتی تھی آج خود بکھری ہوئی اپنے حال سے بے خبر لگ رہی تھی.... پرشکن کپڑے.. الجھی زلفیں .. سوجی آنکھیں..
پریشانی و حیرت کے شدید جھٹکے سے میں اس وقت کچھ نہیں پوچھ پائی جب تک اس کے کمرے میں نہ آگئی.....کچھ دیر بعد میری زبان کچھ بولنے کے قابل ہوئی تو صرف اتناپوچھ پائی کہ
کیا ہوا ؟؟؟؟ خیریت ہے نہ سب؟
پر جواب میں صرف خاموشی.... گہری خاموشی....
:-اسکی خاموشی اسکے کمرے میں پھیلا سنگین سکوت مجھے وہی ہزار بار کی الگ الگ انداز، مختلف لفظوں میں سنی ہوئی وہی جانی پہنچانی ازلی داستان سنا رہی تھی... وہی آدم کے بیٹے کا حوّا کی بیٹی کو دینے والا دھوکہ سب کچھ سنارہا تھا...-.
پر اپنی دوست کی سمجھ داری.... ِ کردار کی پختگی اسکی ذات کا فخر.... مجھے اس ازلی داستان کی شدت سے نفی کرنے پر اکسارہا تھا....
اور اسی نفی کی تقویت کے لیے میں نے دوبارہ پوچھا....
اور اس بار اس کے لب خاموش نہ رہے اور اس کے لبوں سے آزاد ہونے والے لفظوں نے میری نفی ایک طرف کردی....
اور ازلی داستان پر ایک بار پھر مہر لگ گئی.... اس کے لب رو رو کر ایک ہی جملے کی گردان کرنے لگے
اس نے مجھے دھوکہ دے دیا.... اس نے مجھے دھوکہ دے دیا.....
اس ایک جملے کے بعد میرا کچھ سننے کو دل نہ چاہا.... نہ ہی اس پرانی کہانی کو نئے انداز میں سمجھنے کا....
پر شاید اسے اس وقت کسی سامع کی شدید ضرورت تھی جبھی اس کے الفاظ ایک جملے پر ختم نہیں ہوئے... اور جملے مضمون بنانے لگے.....
اس نے مجھ سے جھوٹ بولا... مجھے دھوکہ دیا مجھے دل کا ٹکرا کہتا تھا اور دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے... مجھے زندگی کہتا تھا آج میری زندگی دشوار کردی.... مجھے جان کہتا تھا پر میرا جینا مشکل کردیا....اس نے مجھے دھوکہ دے دیا... اس نے مجھے دھوکہ دے دیا....
وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھی اور میری زبان گنگ تھی آنکھیں ساکت اسے تک رہی تھی.... مگر میرا دماغ گنگ تھا نہ ساکت..... اگر چہ دل کو اس کی حالت پر رحم آرہا تھا.... پر دماغ ان گنت سوالات کر رہا تھا...
. چیخ چیخ کر پوچھنا چاہ رہا تھا کہ......
جب میسج پر میسج سینڈ ہوتے تھے ماں کو معلوم تھا؟؟
جب کال کا دورانیہ بڑھتے بڑھتے گھنٹوں تک جا پہنچتا تھا معلوم ہوتا تھا باپ کو
جب دلفریب انداز میں لی گئی تصاویر سینڈ کر کے تعریفیں سمیٹ کر خوش ہوا جاتا تھا کسے معلوم ہوتا تھا؟؟؟؟؟؟
اس وقت دھوکہ کون دے رہا ہوتا تھا....?؟؟؟؟؟
دھوکے کی ابتداء کس نے کی تھی؟؟؟
*ماں باپ بھائیوں کے مان کو پہلے کس نے توڑا... کس نے اعتبار کی کر چیاں کی.... کس نے دھوکہ دیا پہلے..... ماں باپ کے مان، بھروسے، اعتبار، دی ہوئی آزادی کو پہلے دھوکہ تم نے دیا تو آج اس دھوکے پر اتنا درد کیوں ..؟
*کیوں اتنی تکلیف محسوس ہورہی صرف ایک شخص کہ دھوکہ دینے پر؟
لیکن میرے یہ سوال صنف نازک سے ہی نہیں صنف مخالف سے بھی ہے کہ دوسروں کے گھر کی عزت سے کھیلتے ہوئے اپنے گھر کی عزت کو کیوں بھول جاتے ہو؟؟؟؟؟
دوسروں کی بہنوں، بیٹیوں سے اپنا وقت سنہرا کرتے ہوئے ایک بار بھی یہ سوچ کیوں نہیں آتی کہ تمہاری بہن بھی کسی کا وقت رنگین کرنے کا باعث ٹھیک اسی طرح بن سکتی ہے....
دوسروں کی بہن، بیٹی کوسنہرے خواب دکھا کر....
رنگوں کے محل تعمیر کرواکر..... پھر ان خوابوں کو کرچی کرچی... اور رنگوں کے محل کو مسمار کر کے.... ان سے ان کے خوش رنگ عکس تصویر کی صورت میں لے کر پھر ان پر نظریں جما کر ان کا جائزہ لیتے ہوئے یہ سوچ کیوں نہیں آتی کہ ہماری بہنوں پر، ہماری بیٹیوں پر اس سے زیادہ غلیظ نگاہیں اٹھ سکتی ہیں....
تو جو دوسروں کی عزت کا خیال نہیں رکھتے وہ اپنی عزت کے محفوظ ہونے کا یقین کس طرح رکھ سکتے ہیں؟
یہ کیوں یاد نہیں رہتا کہ جب وہ کسی لڑکی کے جذبات کو کھیل بنارہے ہوتے ہیں.... تو انھیں بھی اس کھیل کا حصہ بنی ہوئی ہی لڑکی ہی ملے گی.... اگر ان کی یہ سوچ کے ان کے اس گندے کھیل کے بعد بھی انہیں چھوئے جذبات کی اس کے کانوں نے کبھی کسی دھوکے باز کی سرگوشی نہیں سنی ہوگی تو وہ دنیا کا بےوقوف ترین انسان ہے....
کیونکہ بابا کی شہزادی گڑیا جب کسی کے دل کی ملکہ بننے کے خواب دیکھ کر کھلونا بننے کا دھوکہ کھا سکتی ہے....
تو دھوکہ باز کو جیسے سچی عورت مل سکتی ہے؟
کانٹوں کی آبیاری کر کے گلابوں کی توقع عجیب نہیں عجیب تر ہے...
اور جن کی بہنیں نہیں وہ سوچنا کہ کیا بیٹی بھی کبھی نہیں ہوگی ؟
اگر بیٹی بھی نہیں ہو ئی تو کیا ان کی آ خرت بھی کبھی نہیں ہوگی؟؟؟؟؟
صرف اتنا کہوں گی تمام نادان و سمجھ دار لڑکیوں کہ
سنبھل کر چلنا اس رنگ بدلتی دنیامیں
یہاں لوگ پلکوں پر اٹھا لیتے ہیں نظروں سے گرانے کے لیے
اللہ سب بہنوں، بیٹیوں کی عزت کی حفاظت فرمائے اور امت مسلمہ کے تمام مرد و عورت کو عثمان غنی رضی اللہ عنہ جیسی شرم و حیا سے نوازدے
آمیــــن ثم آمـٍــین
تبصرہ لکھیے