جناب مجاہد حسین صاحب نے مقدمے کے بعد پہلی اور دوسری قسط میں تاریخ انسانی کے دورانیے کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں سیکولر تفکرات کے مطابق انسان کی ابتداء اور تمدنی زندگی تک ارتقاء کے جو مفروضے پیش کیے جاتے ہیں وہ سب پیش کیے ہیں۔ مثلا انسان کی موجودہ شکل بہت بعد میں بنی، خوراک کے لیے جانوروں کا شکار کرتا رہا، جنگلی لباس پہنتا رہا، زرعی زندگی بہت بعد میں اختیار کی، پھر مغرب کی نشاۃ ثانیہ، کارخانے، مارکیٹ، تجارت، باس، مزدور وغیرہ۔ بلاشبہ ان سب میں جگہ جگہ بات کرنے کے مواقع ہیں، جہاں بحث کی جاسکتی ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ بلکہ دوسری قسط کے آخر میں انہوں نے یہ توقعات ظاہر کیں کہ مذاہب میں خدا کے حاضر وناظر ہونے کا جو عقیدہ ہے وہ غیر ضروری ہوجائےگا اور اس کی جگہ جرم کی ویڈیو بنا کر پھیلانے کی انسانی سائنسی کوشش جگہ لے لے گی۔ انہوں نے لکھا ہے:
”مذہبی پیشوا کا ادارہ بھی ایک طویل عرصے تک اپنا کردار ادا کر کے غیر ضروری ہو چکا ہے۔ اب اسے ترک کر کے انسان کا اپنے خالق کے ساتھ براہ راست رشتہ قائم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اسی طرح انفرادی اخلاقیات کی بہتری کا وظیفہ بھی مذہبی طبقے کی جگہ جدید سائنسی ایجادات سنبھالتی جا رہی ہیں۔“
اوراس کی وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے جناب نے لکھا ہے:
”جدید دور میں دو کام ایسے ہوئے جنہوں نے جبلتوں کی سرکشی پر ایک اور کاٹھی ڈال دی ہے اور فرد کی زندگی میں قانون اور سماج کا عمل دخل غیر معمولی طور پر بڑھا دیا ہے جس کی وجہ سے اس کی جرم یا گناہ کرنے کی صلاحیت بہت محدود ہوتی جا رہی ہے۔ ایک تو انسان نے تصویر اور ویڈیو بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے، دوسرے انٹرنیٹ کے ذریعے ان ویڈیوز کو پورے کرہ ارض پر پھیلانے پر قادر ہو چکا ہے۔ یہ دونوں ایجادات خاموشی سے انسانی زندگی میں اپنا عمل دخل پھیلاتی جارہی ہیں اور ان کی وجہ سے فرد کی وہ پرائیویسی ختم ہوتی جا رہی ہے جو گناہ، جرم اور غلطی کے لامحدود مواقع پیدا کرتی تھی۔ جتنا زیادہ ان ایجادات کا دائرہ اثر بڑھے گا اتنا ہی انسان کا اخلاقی وجود پختہ ہوتا جائےگا۔ یوں لگتا ہے کہ اگلی چند دہائیوں میں ہماری زندگی میں اس سے ملتی جلتی ریکارڈنگ ہو رہی ہو گی جس کا ایک تصور مذاہب میں موجود ہے۔ ماضی میں یہ فریضہ مذہبی رہنما ادا کیا کرتا تھا لیکن اب ریاست جدید سائنسی ایجادات کے ذریعے اس کی جگہ سنبھال رہی ہے۔“
اس حوالے سے تو الگ سی تحریر کی ضرور ت ہے فی الحال اتنا عرض کیے دیتے ہیں کہ کیمرے کا زیادہ سے زیادہ عام ہونا گناہ کو مزید گلیمر اور شہرت فراہم کر رہا ہے جو اصلاح کے بجائے خود ایک بڑا عذاب بن کر انسانیت پر مسلط ہونے والا ہے۔ علماء اور صوفیاء نے ہمیشہ لوگوں کے دل میں گناہ کی نفرت بٹھانے کی کوشش کی ہے۔ گناہ کی برائی کا احساس دلایا ہے اور ہر فرد کے اندر موجود ضمیر کو زندہ کرکے اسے اپنے آپ کے تحفظ پر مامور کیا ہے اور جرم سے انسان کو بچانے کا یہ طریقہ ایسا ہے کہ اس کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ جیسا کہ جناب نے خود لکھا ہے کہ انسانی جبلت ایسی ہے کہ ہر طرح کی سخت سے سخت نگرانی کے باجود بھی اپنے لیے جرم کا راستہ نکال لیتی ہے۔ کہیں نہ کہیں سے ضرور کوئی راستہ نکل آتا ہے برائی کرنے کا۔ باس جتنا بھی سخت ہو مگر ملازم اور مزدور اپنی ڈیوٹی میں ڈنڈی مارنا چاہے تو اپنے لیے مواقع ہزار تلاش کرسکتا ہے۔ باپ جتنا بھی سخت نگرانی کرے، بیٹا اگر برائی کے راستے پر چل پڑے تو اسے دن میں کئی کئی مواقع میسر آجاتے ہیں۔ اس کے بجائے اگر بیٹے کو خود برائی بھلائی سمجھائی جائے اور وہ خود یہ احساس کرنے لگے کہ میرے لیے اچھا اور برا کیا ہے تو وہ خود ہی بچنے کی کوشش کرتا ہے ،اس طرح برائی کے مواقع ہونے کے باوجود وہ دامن بچاکے چلتا ہے۔ ملازم کا ضمیر اگر اسے خود ملامت کرے کہ کام میں ڈنڈی مار کر وہ اچھا نہیں کر رہا تو اسے باس کی نگرانی کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ میرے خیال اس سے بڑھ کر بےفائدہ بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی کہ آپ ضمیر کو جگانے والی صوفیا اور علماء کی وعظ کو غیر ضروری قرار دے کر فوٹیج کے ذریعے انسان کو انسانیت سکھانے کا سوچیں۔
سردست ہمارا موضوع اس پورے دورانیے میں ان کا ذکر کردہ مذہبی طبقے بلکہ مسلم مذہبی طبقے کا کردار ہے۔ انہوں نے مذہبی طبقے کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
• علماء اور صوفیاء کا دعوی کہ وہ آسمانی قوتوں سے رابطہ اور تعلق رکھتے ہیں بلکہ صوفیا انہیں رام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
• انسان کا خوراک کا مسئلہ حل ہونے سے مذہبی طبقے پر سے انحصار اٹھ گیا ۔
• الہامی کتب کے علم کا ذخیرہ علماء کے دسترس میں تھا جو ترجمہ ہوکر پریس اور انٹر نیٹ کی ایجاد سے عام ہوگیا ۔ علماء نے اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور علم کی اشاعت کو روکنے کی بھرپور کوشش کی مگر اس سائنسی ایجاد نے علم کو عام کرکے چھوڑا۔
• علم کی اشاعت سے تحریر ی علم پر علماء کا اجارہ ختم ہوا جس سے انسان اور خالق کے درمیان رابطے کے لیے ان کا وجود غیر ضرور ی ہوگیا۔
• کلیسا سے عام لوگوں کی بغاوت کی وجہ ان کی بے اعتدالیاں نہیں عوام کا علم تک رسائی حاصل کرنا تھا۔اور یہی صورتحال اب مسلم علما ء کو درپیش ہے ۔
• مذہبی طبقہ اس تبدیلی سے آگاہ ہے اور اپنی بقا کی جنگ مختلف شکلوں میں لڑ رہا ہے۔ سیاسی اسلام کے جمہوری تصور سے لے کر داعش اور القائدہ کی جنگجویانہ حکمت عملی تک، سبھی معاشرے پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی جدوجہد کی مختلف صورتیں ہیں۔
یہاں تک ہم نے مجاہدحسین صاحب کی فکر کا خلاصہ لکھا ہے جو ان کے مضمون سے ہمیں سمجھ آیا۔ پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ ان کے دوقسطوں کے مضمون میں انہوں نے جگہ جگہ علماء ، پنڈت ، پادری ، پروہت ، صوفیاء ، جوگی ، راہب سب ساتھ ملاکرلکھے ہیں ۔ بندہ نے دوسرے مذاہب کے رہنماوں کو نظر انداز کرکے صرف مسلم مذہبی طبقے سے متعلق ان کے دیے گئے مغالطوں کو موضوع بحث بنایا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر مذاہب کے متعلق ہمارا کوئی بھی ،کسی قسم کا دعوی نہیں اور نہ ان کے دلائل دینے کی ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ہمارے تمام سیکولر اور لبرل قلم کاروں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ جب وہ تاریخ کے طویل دورانیے میں مذہبی طبقے کے کردارپر بات کریں تو چونکہ ان کے اکثر پڑھنے والے مسلمان ہیں اس لیے مسلم علماء کی تاریخ پر الگ سے بحث کریں ، پنڈتوں اور راہبوں کے ساتھ ان کے عقائد اور کرتوتوں میں مسلم امہ کی پوری تاریخ کو لپیٹ کر مغالطہ آرائی نہ کی جائے۔ اسلامی تعلیمات کی طرح مسلمان علماء اور صوفیاء کا کرداربھی ہمیشہ ممتاز رہا ہے اور علمی لحاظ سے اس امت کو ایسے امتیازات حاصل ہیں جو دوسرے مذاہب کے پاس نہیں ہیں ۔ اس لیے ایک ہی سطر میں سب کوایک ساتھ ناکارہ قرار دینا قرین انصاف نہیں ہوگا۔
جناب مجاہد صاحب نے جو مغالطے اٹھائے ہیں ان کی وضاحت ان دوسوالوں کے جواب میں ہوجاتی ہے کہ :
o اسلام اور مسلمان علماء و صوفیاء دیگر مذاہب اور مذہبی رہنماوں سے ممتاز کیوں ہیں ؟
o علمی ، سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے تاریخ میں علماء کا کردار کیا ہے؟
جناب نے دوسری قسط میں مذہبی طبقے کی کچھ خدمات کا اعتراف کیا ہے مگر پہلی قسط میں جس انداز سے انہیں پیش کیا ہے تو اس کے بعد اس طرح کے اعترافات اپنی حیثیت کھوکر محض جملہ معترضہ سے رہ جاتے ہیں ۔
پہلے سوال کا جواب:
اسلام کو اللہ تعالی نےجو امتیاز دیا ہے وہ اس کی دو خصوصیات کی وجہ سے ہے :اسناد اور اجتہاد۔ کسی بھی دین ومذہب کے پاس اپنے اولین رہنما کی تعلیمات اورحالات زندگی تک رسائی کے لیے اتنا مستند راستہ نہیں جتنا اسلام کے پاس ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کا علم ہم تک جن لوگوں نے پہنچایا ان سب کا بائیو ڈیٹا محدثین نے محفوظ کیا اور ایک لاکھ افراد کے حالات زندگی جمع ہوکر ہم تک پہنچے ، جسے آج ہم فن رجال کے نام سے جانتے ہیں ۔ اس قدر بڑے پیمانے پر سند کی حفاظت کا اہتمام مسلم علماء کا کمال ہے ۔ کسی بھی مذہب کے رہنماوں کے پاس اپنے پیشوا کے حالات زندگی اس قدر شفاف حالت میں دستیاب نہیں جس قدر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اس امت کے پاس محفوظ ہیں ۔اور ان حالات کو ہم تک پہنچانے کے لیے جن راویوں نے محنت کی ان کی بھی محدثین نے اس قدر باریکی سے جانچ پڑتال کی کہ ایک ایک راوی کو الگ کرکے تحقیق وتنقید کے پیمانے پر پرکھا۔ فن رجال کے ایک لاکھ افراد کے حالات زندگی آج اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ اسلام اور مسلم علماء کو سند میں تمام ادیان سے ممتاز مقام حاصل ہے جسے کوئی بھی شخص مغالطہ آرائی سے نہیں چھین سکتا۔
دوسری خاصیت اجتہاد ہے ۔ مسلم علماء نے اجتہاد کے ذریعے ہمیشہ نئے سے نئے حالات اور مسائل میں دنیا کی رہنمائی کی ۔ کبھی کوئی مسئلہ ایسا نہیں اٹھا جس کا قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں امت کے علماء نے حل پیش نہیں کیا۔ یہی اجتہادی ذخیرہ عظیم ترین فقہ اسلامی کی صورت میں ہمارے سامنے آیا ہے ۔ فقہ کا ایک مطلب اسلامک لاء بیان کیا جاتا ہے مگر فقہ اسلامی ایک قانون سے بہت زیادہ مفصل اور جامع ہے ۔ انسانی زندگی کے پاکی ناپاکی سے لے کر کاروبار ،سیاست اور عائلی زندگی تک سب میں فقہ کی رہنمائی موجود ہے۔
فقہ کے علاوہ امت کی اس اجتہادی صلاحیت کی وجہ سے امت میں وقتا فوقتا ایسے عبقری افراد پیدا ہوئے جنہوں نے دین پراجتہادی نظر ڈالی ۔ دین میں گھس آنے والی خرابیوں
کو قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی روشنی میں نئے سرے سے صاف کیا ۔ اس گلشن میں اگنے والی بدعات و خرافات اور علاقائی رسومات کے کانٹوں اور جھاڑ یوں کو صاف کیا ۔ اس کے لیے کبھی علمی محنت اور دعوت کی ضرورت پڑی تو کبھی مزاحمت اور عزیمت کی راہ اختیار کرنا پڑی ۔ دونوں قربانیوں سے کبھی دریغ نہیں کیا ۔ اسلام اور مسلم علماء کی اسی اجتہادی صلاحیت کی برکت سے یہ دین گئے سے گئے گذرے دور میں بھی اپنی خالص صورت میں موجود ہے ۔ کوئی شخص کبھی بھی چاہے تو دین کا کوئی بھی حکم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تھا اسی صورت میں آج بھی سیکھ سکتا ہے ۔
دوسرے سوال کا جواب:
امت محمدیہ کی مذہبی شخصیات اور رہنماوں کی تاریخ بہت شاندار ہے ۔ مسلمانوں کی سیاسی تاریخ بادشاہت اور ملوکیت کے جبر کا شکار نظر آتی ہے مگر ہر دور میں اٹھنے والی عبقری شخصیات نے اس امت کو ہمیشہ سیدھا راستہ دکھایا ۔ علم اور دلیل ہر دور میں ان کی پہچان رہی ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تو بات ہی کیا کریں کہ وہ جماعت ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فیض یافتہ تھی۔ علم ،عمل ، اخلاص اور تقوی ان کی خمیر میں جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گوندھ کے رکھ دیا تھا۔ خلافت راشدہ کے بعد سیاسی نظام سے لے کر عوامی معاشرے تک ہر جگہ ان علماء اور صوفیاء کا فیض کام کرتا رہا ۔ مگر ان کی پوری تاریخ کوئی پڑھ کر دیکھ لے کبھی دین پر انہوں نے اجارہ داری نہیں جتلائی ، علم کے ذخیرے پر اژدھا بن کر نہیں بیٹھے ، اللہ کی مخلوق کو اللہ سے ملانے کے لیے انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کردیں ۔ عمر بن العزیز رحمہ اللہ جنہیں کچھ لوگوں نےپانچواں خلیفہ راشد قرار دیا ہے ان کے عہد سے لے کر ہندوستان کے شاہ ولی اللہ ، شاہ عبدالعزیز ، سید احمد شہید شاہ اسماعیل شہید اور پھر ہندوستان بھر کے بڑے علماء و صوفیاء اور مدارس کے اکابر علماء کے حالات زندگی پڑھیں ، سیاسی حالات ، عالمی چیلنجز ، معاشرتی اور معاشی مسائل سب کے مختلف رہے ہیں مگر سب میں یہ چیز قدر مشترک نظرآئی ہے کہ علم کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کے لیے انہوں نے زندگی وقف کی ، اللہ کی مخلوق کو اللہ سے جوڑنےکے لیے انہوں نے تبلیغی سفر ، وعظ ونصیحت ، تصنیف و تالیف ہر طرح کے ذرائع اختیار کیے ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ،حضرت حسن بصری ، امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک ، امام احمد بن حنبل ، ابوالحسن اشعری ، امام ابو منصور ماتریدی،امام غزالی ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ، علامہ ابن الجوزی ، نورالدین زنگی ، صلاح الدین ایوبی ، شیخ الاسلام عزالدین عبدالسلام ، مولانا جلال الدین رومی ، شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ اور انکے شاگردحافظ ابن قیم ، ابن عبدالہادی ، ابن کثیر ، حافظ ابن رجب وغیرہ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ، حضرت خواجہ فرید گنج شکر ، حضرت نظام الدین اولیاء ، مخدوم الملک شیخ شرف الدین یحیی منیری ، ہندوستان میں صوفیاء فردوسیہ کے بزرگ خواجہ نجم الدین کبری ، خواجہ بدرالدین سمر قندی ، خواجہ رکن الدین فردوسی ، خواجہ نجیب الدین فردوسی ،
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ اور حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ ان ناموں پر ایک نظر ڈالیں اور ان کے عظیم تجدیدی کارناموں پر نظر ڈالیں پھر فیصلہ کریں کہ اس امت کے علماء اور صوفیاء کے کردار پر انگلی اٹھانے والوں کی بات کہاں تک درست ہے ۔ یہ ان چند ناموں کی فہرست ہے جنہوں نے امت کو سیاسی ، علمی اور اصلاحی کارناموں کے ذریعے نئی زندگی بخشی ۔ ان عالمگیر شہرت یافتہ شخصیات کے علاوہ ہر دور میں ہزاروں علماء اور صوفیا ہر خطے ، ہر ملک، ہر علاقے اور گاوں میں رہے جنہوں نے بلاکسی لالچ اور مفاد کے دین لوگوں کو سکھایا ، خود علم کے حصول میں اپنی زندگیا ں کپائیں اوراس امت میں علم کی جڑیں مزید گہری کیں ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خلیفہ بننے کے بعد جس طرح خلافت راشدہ کی جھلک دنیا کو دکھائی وہ اموی دور ملوکیت میں جب شاہوں کے مزاج میں پوری طرح عیاشیاں اور دور جہالت کے اثرات لوٹ کر آئے تھے اس دور میں ان کا بہت بڑا تجدیدی کارنامہ تھا ۔ دنیا کو صحابہ کرام کے بعد پہلی مرتبہ ایک سچے اور خالص اسلامی حکمران کا نمونہ نظر آیا تھا۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ امت کے ایسے واعظ تھے کہ ان کی وعظ کے اثر سے ہزاروں لاکھوں افراد کی زندگیاں بدلیاں ، انہوں نے صحابہ کرام کا زمانہ پورے شان سے دیکھا تھا اس لیے ان کے حالات زندگی بیان کرتے اور لوگوں کو دین کی جانب ترغیب دلاتے ۔ ان کے اسی وعظ کے اثرسے ان کی مقبولیت اس قدر بڑھی کہ جس دن ان کا انتقال ہوا پورا شہر جنازے میں سمٹ آیا ، شہر اس قدر خالی ہوگیا کہ بصرہ کی جامع مسجد میں اس دن عصر کی نماز نہیں ہوسکی۔
امام غزالی رحمہ اللہ کے عظیم علمی شاہکار تہافۃ الفلاسفۃ سے کون ناواقف ہے ، جس کے ذریعے انہوں الحادی فلسفہ کا رد کرکے امت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیاتھا۔ اس عظیم فلسفی نے تمام مذاہب کا مطالعہ کرنے کے بعد راہ ہدایت پائی تو تصوف میں پائی ۔ انہوں نے بغداد کا رخ کیا اور تصوف کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ تصوف کے بعد انہوں نے معاشرے کی اصلاح پر توجہ دی اور سب سے زیادہ جن طبقات کو ذمہ دار قرار دیا وہ علماء اور حکام تھے ۔
علامہ ابن تیمیہ نے دو بڑے اصلاحی کام کیے ایک تو بدعات اور خرافات پر بہت کھل کر تنقید اور اس کی اصلاح کی اور دوسرا امام غزالی کے بعد انہوں نے یونانی فلسفہ پر بھرپور تنقیدی نظر ڈالی ۔
صوفیاء کے گل سر سبد حضرت عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی تعلیمات اور اصلاحی کوششوں سے کون ناواقف ہے کہ ہزاروں افراد کی زندگیاں آپ کے مواعظ کے اثر سے بدلیں ۔ آپ نے اپنے پورے عہد کو اپنے مواعظ سے متاثر کیا، ان کے مواعظ فتوح الغیب اور الفتح الربانی آج بھی پڑھنے والوں کو متاثر کرتی ہیں ۔ خدا کی وحدت اور دین کی صحیح تفہیم کے لیے آپ نے بیعت کو ضروری سمجھا تو بیعت کا سلسلہ بھی شروع فرمایا ۔ آپ 73برس بغداد میں رہے ۔ آپ کا تجدیدی میدان عوام کی اصلاح اور انہیں خدا تعالی کی ذات کی معرفت دلانا تھا۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فقہ کے بانی ہیں ۔ دنیا کی ذرہ بھر لالچ ہوتی تو خلیفہ منصور کی پیش کش قبول کرکےاسلامی ریاست کے چیف جسٹس بن جاتے مگر ایک ظالم حکمران کا چیف جسٹس بن کر ان کی مرضی کے مطابق فیصلے کرنا ان کے ایمان اور ضمیر نے گوارہ نہ کیا ۔ منصور اپنی موجودگی میں انہیں کوڑے لگواتا ، ان کے کمر کا خون بہہ کر ایڑیوں تک پہنچ جاتا ۔ وفات سے پہلے انہیں زہر کا پیالا پیش کیا گیا ۔ انہوں نے خودکشی کو حرام سمجھتے ہوئے اسے واپس کردیا جومنصور کی موجودگی میں آپ کے منہ پر پھینکا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اسی زہر کے اثر سے آپ کا انتقال ہوا اور پھر آپ کا جنازہ جیل سے نکالا گیا۔
ایک محدث یزید بن ہارون رحمہ اللہ نے جب بغداد میں درس حدیث دیا تو اس میں ستر ہزار حاضرین کا اندازہ لگایا گیا، امام عاصم بن علی جب حدیث کا املاء کرانے کے لیے بغداد سے باہر ایک باغ میں چبوترے پر بیٹھے تو شائقین علم کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار شمار کی گئی ۔ شیخ ابومسلم کے در س میں حدیث لکھنے والوں کی دواتوں کو شمار کیا گیا تو وہ چالیس ہزار تھے ۔ سماع کرکے حدیث یاد کرنے والے اس کے علاوہ تھے۔
قارئین کرام !تحریر کی طوالت بڑھتی چلی جارہی ہے اس لیے علماء و صوفیاء امت کے خدمات کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کرنے پر ہی اکتفا ضروری سمجھوں گا۔ مجاہد حسین صاحب سمیت تمام احباب میں سے اگر کوئی علماء اور صوفیاء کے کردار سے واقف ہونا چاہے یا واقعتا کسی کو اس حوالے سے کچھ معلومات حاصل کرنے کا شوق ہو تو مولانا ابوالحسن علی ندوی رح کی تاریخ دعوت وعزیمت کا مطالعہ ضرور کرے. بندہ نے درجہ بالا علماء و صوفیاء کے نام اور ان کی خدمات کا مختصر تعارف بھی اسی سے لیا ہے۔ اور مطالعہ کے بعد اس بات کا فیصلہ کرے کہ کیا واقعی مسلم علماء نے علم لوگوں سے چھپایاتھا جن کےحلقہء درس میں بیک وقت ہزاروں لاکھوں شاگردوں کا ہجوم ہوتا تھا ۔جنہوں نے اس دور میں کہ جب کاغذ اور قلم آج کے روٹی کپڑے سے زیادہ مہنگا تھا تب ہزاروں صفحات لکھ کر رہتی دنیا کے لیے علمی ذخیرے چھوڑے ان پر یہ الزام لگانا کہ وہ علم پر قابض لوگ تھے ، اور انہوں نے علم کی اشاعت کو روکا تھاکیاتاریخ کے ساتھ انتہا درجے کی خیانت نہ ہوگی؟ کیا واقعی ان صوفیاء نے لوگوں کو خدا کی معرفت سے دور رکھا جن کے مواعظ سے ہزاروں کا مجمع فیض یاب ہوتا تھا۔ جنہوں نے ذکر اور مجاہدہ کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو اللہ کی ذات کی معرفت کرائی ۔ علم اور اللہ کی معرفت کا عوام میں پھیلاویہ ان علماء اور صوفیاء کا منتہائے مقصد اور مشن تھا۔ ان کی تو زندگیاں اسی میں خاک ہوگئیں کہ کس طرح مخلوق اللہ سے جڑ جائے اور دین کا ضروری علم سیکھ سکے ۔
یہ عجیب بات ہے کہ آج کے دور میں جب علم کے وسائل بڑھ رہے ہیں اور لوگوں میں علم اور شعور بڑھ رہا ہے تو مذہبی طبقے کو خطرہ ہے ۔ میرا بلکہ ہم سب کا عام مشاہدہ یہ ہے کہ جس علاقے ، ٹاون اور محلے میں تعلیم یافتہ لوگ زیادہ ہوں وہاں پر امام مسجد جس عالم کو رکھا جاتا ہے یا وہاں اگر دینی لحاظ سے مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے تو وہ علم اور تقوی کے لحاظ سے ایک ممتاز عالم دین ہوتے ہیں ، یا ایسے مستند دینی مدارس ہوتے ہیں ۔ جن کے آس پاس کے دور دراز علاقے تک ان کے پائے کا عالم نہیں ملتا یا بہت کم ملتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں علم سے دین کا صحیح شعور بیدار ہوتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم ہر ایرے غیرے کے پاس جانے کی بجائے مستند اور سمجھدار عالم دین سے رجوع کریں ۔ مجھے ذاتی طورپر خوشی ہے اس بات سے کہ معاشرے میں تعلیم عام ہو اور شعور بڑھے تاکہ لوگوں میں صحیح اور مستند علماء سے رابطے کی ضرورت کا احساس پیدا ہو ۔ اس طرح معاشرے میں نیم ملا وں اور جاہل پیروں کا اثر ورسوخ کم ہوتے ہوتے ختم ہوجائے گا اور اس کی جگہ ہوشیار ، باصلاحیت اور مستند علماء معاشرے کی قیادت کرنے لگیں گے ۔ جتنا علم عام ہوگا اتنا ہی معاشرے کو صحیح علماء میسر آئیں گے ۔ لہذا یہ کہنا کہ علم سے دینی طبقہ کو خطرہ ہے یہ سراسر مغالطہ ہے ۔
اسلام کی دیگر مذاہب میں امتیازی شان کے اسباب کیا ہیں اس حوالے سے سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی کتاب"خطبات مدراس" کا مطالعہ لازمی ہے ۔ ہمارے جو دوست فقہ اور حدیث کی تدوین اور ان علوم کے بارے میں آسان زبان میں پڑھنا چاہیں وہ ڈاکٹر محمود احمد غازی رح کی محاضرات حدیث اور محاضرات فقہ کا مطالعہ کریں ۔
تبصرہ لکھیے