میں تنگ آچکا ہوں ان احمقانہ تصورات و نظریات اور ان کو زندہ رکھنے والے ان نام نہاد دانشوروں سے۔ ان کو ایک خاص راہ پر لگا دیا گیا ہے اور اب ان کی اوٹ پٹانگ باتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں! ان کو اس راہ پر لگانے والے ان کی حالت سے محظوظ ہو رہے ہیں !!!
ذرا کوئی مجھے بتائے کہ یہ جمہوریت کیا چیز ہوتی ہے؟ یہ شخصی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کس بلا کا نام ہے؟ لبرل ازم ، استحقاق اور عوام کی فلاح سے کیا مراد ہے ؟ یہ سارا کیا گورکھ دھندہ ہے؟
جمہوریت کے سارے فلسفے کی بنیاد میں یہ خوف رکھا جاتا ہے کہ اگر ریاست کا سارا اختیار ایک شخص کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو وہ ملک اور قوم کو بیچ کر کھا جائیگا ۔ پھر نام نہاد قسم کے دانشور اسی فلسفے پر آگے ہی آگے بڑھتے رہتے ہیں اور اسکی نت نئی تعریفیں کر کے عوام سے داد وصول کرتے ہیں ۔ ان ابو جہل نما دانشوروں کو کبھی اتنی فرصت نہیں ملتی کہ ان فلسفوں کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھ لیں ۔بادشاہی جس کے لیے قدرت کا قانون ہے کہ وہ ایک شخص کے ہاتھ میں رہنی چاہئے یہ جاہل اس کو کروڑوں لوگوں پر تقسیم کر دیتے ہیں ۔
کیا کبھی ان جمہوری پارلیمانی اداروں سے کوئی معقول فیصلہ سرزرد ہو سکتا ہے جبکہ یہاں فیصلہ گنتی کی بنیاد پر ہوتا ہے اور ان میں بیٹھے ہوئے لوگ آپس میں شدید اختلافات رکھنے کے علاوہ محدود عرصہ حکومت ہونے کی وجہ سے بے شمار مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں اور ہر معاملے کے بارے میں انتہائی متضاد رائے رکھتے ہیں؟
ان کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ وہ واحد شخص جس کو ملک کے لوٹ کسوٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی وہ اس ملک کا کوئی مطلق العنان حکمران ہی ہو سکتا ہے۔ انسانوں کی ہزاروں سالوں کی تاریخ میں مثالیں ڈھونڈنے کی کوشش کریں!
ذرا دور جدید کو ایک نظر دیکھیے۔ صدام حسین کے کردار پر ہزار اعتراض کریں لیکن اس سے انکار نہیں کہ اس نے عراق کو متحد رکھا اور اس کے دور میں عراق نے ترقی کی۔ معمر قضافی نے لیبیا جیسے میں ملک میں عوام کو وہ کچھ دیا جسکا تصور صرف یورپ اور امریکہ میں کیا جا سکتا ہے۔ چین میں کونسی جمہوریت ہے؟ وہاں جب مسلسل تیس سال ماوزے تنگ نے حکومت کی تب کہیں جا کر چین مستحکم ہوا ۔ عرب ممالک میں کونسی جمہوریت ہے ؟ ملائشیا کو اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی ترقی کا راز ایک شخص کی مسلسل چالیس سال تک حکمرانی ہے۔ حتی کہ مصر اور اردن تک کے بادشاہوں کو دیکھیے۔ عوام کی حالت وہاں بھی بری نہیں۔ پاکستان میں آج بھی لوگ جرنیلوں کو یاد کرتے ہیں۔
سنا ہے اب ان میں سے کچھ ممالک میں جمہوریت آچکی ہے ۔ اب ان کی حالت دیکھیے اور لطف اٹھائے ۔
..........................................................................
برطانیہ جس کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے اور جہاں سے ڈیڑھ سو سال پہلے یہ فتنہ پھوٹا تھا انہوں نے خود آج تک آمریت کی نشانی کو اپنے سینے سے لگا رکھا ہے جس کو ہم " برطانوی شاہی خاندان " کے نام سے جانتے ہیں ۔
ایک شہر پر تجربہ کیجیے ۔ انکو اختیار دیں کہ وہ اپنی حکومت خود بنائیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ کچھ ہی عرصے میں حکومت کرنے کے خواہشمند ایک یا ایک سے زیادہ غیر منظیم گروہ وجود میں آجائینگے اور فوری طور پر آپس میں برسرپیکار ہو جائینگے ۔ ہر طرف جھڑپیں ،اختلافات ، انتشار اور بد نظمی دکھائی دے گی بلکہ ایک خانہ جنگی کی سی کیفیت ہوگی ۔ بالاآخر سب کچھ مٹی کا ڈھیر ہو جائیگا ۔ یہی عوام کی فطرت ہے !!!
کیا پاکستان میں آپ بارہا اس کا مشاہدہ نہیں کر چکے ؟؟؟ اپنے بلدیاتی انتخابات کو ہی دیکھ لیجیے !!
اب آپ کو بظاہر جہاں جہاں جمہوریتیں کامیاب نظر آتی ہیں ( یورپ و امریکہ) وہاں ایک ذرا تحقیق کیجیے ۔ آپ جلد ہی ان ہاتھوں کو ڈھونڈ نکالیں گے جو وہاں کی چمکتی دمکتی جمہوریتوں کو کنٹرول کر رہے ہیں ۔ طاقت کی اصل لگام وہاں بھی عوام کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ ایک سخت آمرانہ گرفت نے وہاں ہر چیز کو اپنی جگہ پر رکھا ہوا ہے !!!
اس بات سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ دنیا میں اچھے لوگوں کی نسبت برے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اسلئے ان پر طاقت کے ذریعے ہی حکومت کی جا سکتی ہے نہ کہ جمہوری طریقوں سے ۔ وہ طاقت جسکا انحصار عوام پر نہ ہو !!!
آپ اپنے نہایت معقول اور دانشمندانہ اقدامات پر عوام کے ایک ہجوم کو محض اپنے دلائل سے کبھی قائل نہیں کر سکتے کیونکہ ان معقول اور دانشمندانہ اقدمات پر نہایت احمقانہ اور متضاد قسم کے اعتراضات پیش کیے جائنگے اور سطحی سوچ رکھنی والی " عوام " کی اکثریت ان اعتراضات کو قبول بھی کر لیتی ہے !!!
جمہوری طریقے سے کوئی ڈیم ہی بنا کر دکھا دیں ؟؟؟؟ کوئی خط ہی لکھ کر دکھا دیں !!!
..........................................................................
جمہوریت ( آزادی انتخاب ) سمیت ہم مختلف قسم کی " آزادیوں" کی زد میں ہیں۔ یہ آزادیاں نظم و ضبط اور اجتماعیت کی ہر شکل کو تباہ و برباد کر دینے کے لیے ہیں !!!!
شخصی آزادی، اظہار رائے کی آزادی اور آزادی نسواں وغیرہ۔ یہ خوفناک اور سمجھ میں نہ آنے والے تصورات ہیں جو عوام کو بدمست کر دیتے ہے ۔ ان تصورات کو قبول کر لینے کے بعد عوام کے ذہن اتنے پراگندہ ہو جاتے ہیں کہ اپنی اس آزادی کے زعم میں بالاآخر اللہ کی ذات اور اسکے احکامات پر بھی انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں !!
کچھ دن پہلے جاوید غامدی صاحب کا ایک پروگرم ملاحظہ کیا۔ موصوف اکثراللہ کی ذات و احکامات کو عقلی بنیادوں پر پرکھنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔ انکے پروگرام میں میزبان غامدی صاحب سے یہ سوال کر رہے تھے کہ ۔۔۔ " کیا مذہب انسان کو روبوٹ سمجھتا ہے جو انسان پر اتنی پابندیاں عائید کرتا ہے " ۔۔۔ ملاحظہ کیجیے یہ سمجھ میں نہ آنے والی آزادیاں کیا گل کھلا رہی ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آزادیوں کا راگ الاپنے والے یہ دانشور آج تک خود آزادی کی کوئی واضح تعریف ہی نہیں کر سکے ہیں ۔!!!
میرے خیال میں آزادی کی ایک سادہ سی تعریف یہ کی جا سکتی ہے کہ انسان کو ہر وہ کام کرنے کی آزادی ہو جسکی قانون اور اخلاق اجازت دیتے ہیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اخلاقی پیمانے بھی صرف کوئی مذہب ہی بنا سکتا ہے ۔ یہ ایک لطیف سا احساس ہے ۔ صرف اللہ کی ذات پر غیر متزلزل یقین ہی انسان میں وہ خوبیاں پیدا کر سکتا ہے جنکو ہم اخلاق کہتے ہیں ۔ یہ یقین نہ ہو تو صرف قانون رہ جاتا ہے جس کے ساتھ کھیلا جا سکتا ہے کیونکہ یہ انسانوں کے معین کردہ ضابطے ہیں !!
اظہار رائے کی آزادی کی بھی کوئی حدود متعین نہیں کی جا سکیں ہیں ۔ اس کے بارے میں اقبال نے فرمایا تھا کہ ۔۔۔
"فکر ہو اگر خام تو ازادی افکار
قوموں کی تباہی کا ہے ایک بہانہ" !!!
مطلب یہ کہ کسی قوم کو تباہ کرنا ہے تو انکو یہ اختیار دے دو کہ جسکی جو مرضی ہو کہتا رہے ۔ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائینگے کہ ایک نہایت مختصر سے عرصے میں پوری قوم ایک زبردست قسم کی بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہو جائیگی اور فوری طور پر ہر چیز پر سے انکا اعتبار اٹھ جائیگا ۔ !!!
ذرا اپنے ٹی وی کے پر ہونے والے ٹاک شوز اور ایوان کی مجالس کو دیکھیے اور انکا مزہ لیجیے ۔ یہ چیختے چلاتے لوگ اور انکی کبھی ختم نہ ہونے والی فضول گوئیوں کے مقابلے انہی عجیب و غریب آزادیوں کا پھل ہیں ۔!!!
جمہوریت اور آزادیوں کے ان پھندوں میں پھنس کر عام محنت کش عوام اپنی ایک یقینی کمائی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں لیکن یہ باز نہیں آتے کیونکہ ان تصورات کے پیچھے انکو سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں جن میں یہ ہر بار کھو جاتے ہیں ۔
تبصرہ لکھیے