(اوریا مقبول جان کے شائع نہ ہونےو الے کالم کے جواب میں خورشید احمد ندیم کا شائع نہ ہونے والا کالم، دلیل کے پلیٹ فارم سے پیش کیا جا رہا ہے۔)
مشکل یہ ہے کہ دنیا کا ہر کام محض خلوصِ نیت سے نہیں ہو سکتا۔ کچھ کام ایسے بھی ہوتے ہیں جو دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میں پورے خلوصِ نیت سے چاہوں، تو بھی علامہ اقبال کے پورے کلام میں یہ شعر تلاش نہیں کر سکتا :
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اب جو شعر مولانا ظفر علی خان نے لکھا ہو، کلیاتِ اقبال میں کیسے مل سکتا ہے؟ میرا تمام تر اخلاص اور میری بےکنار خواہش مل کر بھی، یہ کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے۔ میں لوگوں کو اسی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر کام خلوص نیت ہی سے ہو جائے۔ انسان محض جذبات کا نام نہیں، اﷲ نے اسے عقل بھی عطا کی ہے۔ اﷲ کی یہی نعمت اسے شرفِ انسانیت سے نوازتی ہے۔ اسی کی وجہ سے وہ ایک اور بڑی اور غیر معمولی نعمت، وحی الٰہی کا مخاطب بنتا ہے۔ اسی کی مدد سے وہ اﷲ کے رسول کو پہچان سکتا ہے، جن کی بعثت کو اﷲ نے اپنا احسان قرار دیا ہے۔ قرآن مجید نے آپﷺ سے کہلوایا ’’میں تمہارے درمیان ایک عمر بسر کر چکا، کیا تمہیں عقل نہیں۔‘‘ عقل والوں کے لیے آپﷺ کی عمرِ مبارک کو دلیلِ نبوت بنا دیا گیا۔ عقل اگر خلوص نیت کے ہم رکاب نہ ہو تو فرد ہی نہیں قومیں بھی برباد ہو جاتی ہیں۔ یوں بھی خلوص ایک دلی کیفیت ہے۔ کوئی میرے اخلاص کو جاننے پر قادر ہے نہ میں کسی کے اخلاص کو جان سکتا ہوں۔ دلیل ہی واحد راستہ ہے جو مکالمے کو ممکن بناتا ہے۔
گزشتہ کالم میں اپنے پڑھنے والوں کو اسی جانب متوجہ کرنے کی کوشش میں دو باتیں لکھی گئیں: ایک یہ کہ پاکستان کا قیام کوئی الٰہی منصوبہ نہیں۔ اس کی بنیادیں اسباب و علل میں ہیں۔ اس کے لیے دینی بنیادیں تلاش کرنا ایک غیر ضروری مشقت ہے۔ پھر یہ بھی عرض کیا کہ اسلام اﷲ کی نعمت ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے۔ اسے اہل پاکستان تک محدود کرنا درست نہیں۔ دوسری بات یہ کہی گئی کہ اس طرح کے تاریخی واقعات کو دینی استدلال فراہم کرنے کی کوشش میں، جب حدیث کی کتب میں موجود روایات کو عصری واقعات پر منطبق کیا جاتا ہے تو اس سے خود دین کی صحت کے بارے میں سوال اٹھتے ہیں۔ اس لیے، یہ ایک جسارت ہے جس سے گریز کیا جاناچاہیے۔ بطور مثال، دو روایات کا ذکر بھی کیا گیا کہ کیسے ماضی کے واقعات پر ان کا انطباق کیا گیا اور کیسے آج پھر ان کی بنیاد پر لوگوں کو قتل و غارت گری کے لیے ابھارا جا رہا ہے۔ یہ بات کہنے کی پاداش میں، ایک محترم ناقدکا خیال ہے کہ مجھ جیسے لوگوں سے’’ملحدین ہزار درجہ بہتر ہیں‘‘۔ میراحسنِ ظن یہ ہے کہ یہ فتویٰ بھی خلوص نیت سے دیا گیا ہوگا۔ اس لیے اس اخلاص پر، میں ان کے لیے اجر کی دعا کرتے ہوئے، ان کے اعتراضات اور ان کے موقف کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اسے دلیل کی بنیاد پر پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یوں بھی بابِ الفتن اور ملاحم کی روایات اور ان کا اطلاق ہمارے عہد کی اہم ترین دینی بحث ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلم معاشرے میں اس حوالے سے ابہام کا خاتمہ ہو۔
میں نے ان روایات کے باب میں امام احمد بن حنبل کا یہ قول نقل کیا کہ ان کی کوئی اصل نہیں تو کہا گیا۔ ’’نہیں معلوم کہ امام احمد بن حنبل کا قول انہوں نے کہاں سے لیا۔‘‘عرض ہے کہ اسے امام جلال الدین سیوطی نے اصولِ تفسیر پر اپنی مشہور کتاب ’’ الاتقاق فی علوم القرآن‘‘ کی دوسری جلد میں نقل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
[pullquote]’’قال احمد :ثلاث کتب لااصل لھا: المغازی والملاحم والتفسیر‘‘[/pullquote]
تین قسم کی کتابیں ایسی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں: مغازی، ملاحم، اور تفسیر۔ آج مسلمانوں کو یہی ملاحم کی روایات سنا کر، انہیں جنگ پر ابھارا جاتا ہے۔
میں نے مسند احمد کی روایت کا حوالہ دیا تھا جس میں ’خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ کے قیام کا ذکر ہے اور اس ضمن میں حسن بصری کا ایک قول نقل کیا تھا۔ میں نے بتایا کہ اس کا مصداق بھی ماضی میں متعین ہو چکا۔ ناقد نے اسے بھی مشکوک بنانے کی کوشش کی کہ ’’حسن بصری کی عمر بن عبدالعزیز کے دور میں موجودگی کی مستند تاریخی شہادت نہیں ملتی‘‘۔ مکرر عرض ہے کہ یہاں بھی صرف خلوص نیت سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔ حسن بصری کا سالِ وفات۱۱۰ھجری ہے۔ ان کا انتقال عمر بن عبدالعزیز کی وفات کے نو سال بعد ہوا۔ اس وقت مولانا علی میاں کی ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ اور عبدالرحمٰن رافت پاشا کی’’سیرتِ تابعین‘‘ میرے سامنے ہیں۔ دونوں نے حسن بصری کا سال وفات ۱۱۰ ھجری بتایا ہے۔ اب رجال الغیب نے ان کی تاریخِ وفات کچھ اور بتائی ہو تو اس کا جواب دینے سے یہ لکھنے والا عاجز ہے۔’’حضور‘‘ کی بات کرنے والوں کو امور غیب کی کیا خبر۔ میرے ناقد کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ دراصل حسن بصری نے عمر بن عبدالعزیز کو مہدی قرار دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کا بھی انکار کریں، عرض ہے کہ حوالے کے لیے پہلے سیوطی ہی کی ’’ تاریخ الخلفاء‘‘ سے رجوع فرمائیں۔ اس باب میں مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی روایت کے ایک راوی حبیب بن سالم یہ کہتے ہیں کہ جب عمر بن عبد العزیز کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے یہ حدیث انہیں لکھ بھیجی اور ساتھ ہی اپنے اس احساس کا ذکر بھی کیا کہ آپ ہی وہ خلیفہ ہیں، جن کا اس روایت میں ذکر ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس تعبیر کو سن کر عمر بن عبد العزیز بہت خوش ہوئے۔ ( مشکوۃ، چہارم، حدیث 1309)
مجھے اس پر اصرار نہیں کہ ماضی میں لوگوں نے ان روایات کاجو مصداق طے کیا، وہ درست تھا۔ کل بھی یہ قیاس تھا، آج بھی قیاس ہے۔ دین قیاس پر نہیں محکم بات اور یقین پر کھڑا ہے۔ جب لوگ غیر مصدقہ باتوں کو ’’رسول اللہ نے فرمایا‘‘ کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو دراصل انہیں دینی سند دے دیتے ہیں۔ جب یہ باتیں غلط ثابت ہوتی ہیں تو ہماری یہ غلطی دین کی غلطی سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے دین کے مسائل صرف خلوصِ نیت سے بیان نہیں ہو سکتے، اس کے لیے محکم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔
میں نے یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ جب لوگ یقین کے ساتھ ان روایات کا مصداق طے کرتے ہیں تو کیسے لاکھوں لوگوں کے جان و مال اور ایمان کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں بارہا یہ ہوا کہ چند واقعات پر ان روایات کو منطبق کیا گیا۔ لوگوں نے جان و مال کی قربانی دی مگر روایات میں کہی گئی کسی بات اور واقعے کا مصداق نہ بن سکے۔ مثال کے طور پر جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف معرکہ آرائی جاری تھی یا جب طالبان آئے تو پھر ان رویات کا مصداق طے کیا گیا۔ میرے سامنے اس وقت ایک کتابچہ ’’جہادِ پاکستان سے ظہورِ مہدی تک‘‘ رکھا ہے۔ یہ کتابچہ ۲۰۰۲ء میں لکھاگیا۔ اس میں باب الفتن کی روایات کا اطلاق افغانستان پر کیسے کیا گیا ہے اور اس کے بعد کے ماہ و سال نے کیسے انہیں غلط ثابت کیا، اس بات کو میں اگلے کالم کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔
اس کے ساتھ مجھے یہ بھی بتانا ہے کہ الہی منصوبہ کیا ہوتا ہے اور کیا پاکستان الہی منصوبہ تھا؟ پھر یہ کہ غزوہ ہند کی روایات کی حقیقت، روایت اور درایت کے پہلو سے کیا ہے۔ماضی میں کس طرح اس روایات کا اطلاق کیا گیا؟ اﷲ نے چاہا تو یہ سب آنے والے کالموں کے موضوعات ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ غلطی ہائے مضامین کا ایک نیا سلسلہ میرا منتظر ہے:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اوریا مقبول جان کا کالم یہاں ملاحظہ کریں
تبصرہ لکھیے