ہوم << ملت اسلامیہ اور اقوام متحدہ - محمد رضوان طاہر

ملت اسلامیہ اور اقوام متحدہ - محمد رضوان طاہر

رضوان طاہر پہلی اور دوسری جنگ عظیم پر ہلاک ہونے والے انسانوں کی تعداد کڑوڑوں تک پہنچتی ہے جبکہ معاشی و مالی اور دیگر نقصانات اس پر متزاد ہیں دوسری جنگ عظیم کے پیش نظریہ فیصلہ کیا گیا کہ عالمی سطح پرایک ایسا ادارہ ہو جو آنے والی نسلوں کوان جنگی تباہ کاریوں سے بچائے اور یہ فیصلہ کرنے والے افراد وہ ہی تھے جن کی وجہ سے دنیا دو عظیم جنگوں کے نتائج بھگت چکی تھی چناچہ با تفاق رائے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور ایک ادارے کے لیے ایک چارٹر پر دستخط کیے گئے یہ کانفرنس۲۵ اور۲۶،اکتوبر۱۹۴۵ء کو منعقد ہوئی جس کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور سان فرانسکو میں لیگ آف نیشنز کے کھنڈر پر باقاعدہ اقوام متحدہ کا ادارہ قائم کیا گیا۔
اس بین الاقوامی تنظیم کے ابتدائی ۵۰ارکان تھے جن کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی گئی۔اس کے بنیادی اصولوں میں بعض درج ذیل ہیں۔
۱۔بنی نوع انسان کی آئندہ نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا۔
۲۔قوموں کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے بین الاقوامی سطح پر موثر قانون سازی کرنا تاکہ امن کو لاحق خطرات اور جارحیت کو روکا جا سکے۔
۳۔انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے عالمی سطح پر بلا امتیاز رنگ و نسل مثبت اقدامات کرنا۔
۴۔انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا۔
۵۔ایک دوسرے کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے قوموں کے درمیان دوستی کو فروغ دینا اور ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی سے روکنا۔
حالات نے ثابت کیا ہے کہ اقوام متحدہ اپنے قیام مقاصد میں بری طرح ناکام ہے اس کے اصول اور حقوق انسانی کے لیے مرتب کروہ اعلامیہ صرف کاغذوں تک محدود ہے عمل سے اس کا کچھ تعلق نہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بعض سامراجی طاقتوں نے اس پلیٹ فارم کو اپنے ذاتی مفادات و مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے جن میں امریکہ سر فہرست ہے اس اُبھرتی ہوئی سامراجی طاقت و سیکو لر اسٹیٹ کو ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جہاں سے وہ دنیا بھر میں اپنی حکمرانی قائم کر سکے تو اس کے لیے بظاہر حقوق انسانی کے لیے جبکہ در پردہ امریکی مفادات کے لیے اقوام متحدہ وجود میں لایا گیا اس کا اعتراف ایک یہودی صحافی اسرائیل شہاک نے اپنی کتاب’’اسرائیل میں بنیاد پرستی‘‘ (مترجم)میں ان الفاظ میں کیا ہے کہ’’عالمی عدالت اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرح اقوام متحدہ وہ ہی کرتا ہے جو امریکہ چاہتا ہے ورنہ اقوام متحدہ کو بھی فارغ کیا جا سکتا ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں امریکہ،برطانیہ،فرانس،روس اور چین یہ پانچ ممالک نہ صرف مستقل نشست رکھتے ہیں بلکہ ویٹو پاور کا بھی انہیں حق حاصل ہے ویٹو پاور کا حامل ہر ملک اقوام متحدہ کے منمبران کی غالب اکثریت کے کسی بھی فیصلہ کو مسترد کرنے کا حق رکھتا ہے اور یہ پانچوں ممالک اپنے اپنے مفادات کے لیے متعدد بار ویٹو پاور کا حق استعمال کرچکے ہیں ان میں سے ایک ملک بھی اسلامی نہیں ہے جو امت مسلمہ کے دفاع کے لیے ویٹو پاور سے فائدہ اٹھا سکے۔ذولفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں یہ آوازاُٹھائی گئی تھی کہ سلامتی کو نسل کی ایک مستقل نشست مسلمانوں کے پاس بھی ہونی چاہیے مگر ان کی وفات کے ساتھ ہی یہ معاملہ دب گیا اور یوں۵۷اسلامی ممالک اور کم و بیش۲۰۰کڑوڑمسلمانوں کو اب تک اس سے محروم رکھا گیا ہے اگر آج امت مسلمہ کے پاس ویٹو پاور کا حق ہوتا تو بہت سے نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔
کہنے کو تو اقوام متحدہ انسانی حقوق دنیا بھرمیںبحال کروانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے اس ادارے کے نزدیک انسانوں کا اطلاق مسلمانوں پر نہیں ہوتا اپنے قیام ابتداء سے لے کراب تک مسلم امہ کے لیے اس نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا مسلمانوں کے لیے اس کی کارکردگی صفر ہے مسلمان جب بھی مصائب کا شکار ہوئے تو سوائے کاغذی خانہ پری اور لفظی مذمت کے اور کچھ نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ جب اسرائیل عرب جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی بھی چھین لی تو غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیلی یہودیوں کی جانب سے ہونے والے مظالم پر اقوام متحدہ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے محقق’’رینے فیلبر‘‘(Felber)نے ایک رپورٹ پیش کی یہ رپورٹ پیش کرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد فیلبر نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ ایسی رپورٹیں پیش کرنے کا کیا فائدہ جن کی آخری آرام گاہ ردی کی ٹوکری ہو۔
امریکہ نے اپنے نام نہاد عالمی اصولوں اور خود ساختہ شائستگی کی مروجہ اقدار کی پاسداری میں اقوام متحدہ کے ذریعے لیبیا،عراق،ایران اور افغانستان متعدد اسلامی ممالک پر اقتصادی پابندیاں لگائی ہیں جو کسی ایٹم بم سے کم نہیںعراق پر اقتصادی پابندیوں کے دوران موت کی آغوش میں جانے والے صرف بچوں کی تعداد۵لاکھ سے تجاوز ہے۔مسلم ممالک پر نہ صرف اقتصادی پابندیاں لگائی بلکہ افغانستان ،عراق،لیبیا،چچنیا،بوسنیا اور سوڈان وغیرہ پر جوجنگیں مسلط کی گئیں وہ سب کی سب اقوام متحدہ کی رضا مندی اور زیر نگرانی مسلط کی گئیں۔
امت مسلمہ کے حوالہ سے اقوام متحدہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے مشرقی تیمور،جنوبی سوڈان اور انڈونیشیا کے ایک اکثریتی عیسائی آبادی والے جزیرے کو اسلامی ریاستوں سے محض اس لیے جدا کرکے الگ ممالک بنایا ہے کہ ان علاقوں میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی اس کام کے لیے حق خود ارادیت کا راگ الاپہ جبکہ کشمیر،فلسطین اور برما کے مسلمانوں کو کئی دوائیوں سے ان کے جائز مطالبات اور حق خود ارادیت سے محروم رکھا ہوا ہے بلکہ حقیقت میں کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کو یہود و ہنود کے ظلم و ستم اور غلامی کی دلدل میں دھکیلنے والا اقوام متحدہ ہی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں یہ کہہ کر آباد کیا گیا کہ یہ ان کی عارضی سکونت ہوگئی بعد میں کہیں اور انتظام کر دیا جائے گا مگر دنیا نے دیکھا کہ اقوام متحدہ کے یہ جملے دھوکے پر مشتمل تھے اور آج عرب کے قلب فلسطین میں یہودی اسرائیل نامی نہ صرف اپنی الگ ریاست بنانے میں کامیاب ہیں بلکہ فلسطینی مسلمانوں کو انہی کی سر زمین سے مار کر نکالا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی بناء پر ہو ا ہے اور ستم بالائے ستم کہ اقوام متحدہ نے آج تک فلسطین کو رکنیت نہیں دی یعنی اقوام متحدہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرتا ہی نہیں ہے تو ان کا حق خود ارادیت کیسے دے؟
اسی سے ملتا جلتا معاملہ کشمیر کا ہے آزادی پا کستان کے بعد کشمیر کے محاذ پر جب جنگ چھڑی تو مجاہدین اسلام نے تائید خدا وندی سے دشمن کے دانت تو ڑتے ہوئے نصف کشمیر بھارتی افواج کے قبضہ سے آزاد کر وا لیا۔اقوام متحدہ نے جب کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکلتا ہوا دیکھا تو پا کستانی حکومت سے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر صلح وصفائی،افہام و تفہیم اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کا خواب دیکھایا جسے اقوام متحدہ نے اپنی ہی قرار دادوں اور قول و قرار کے مطابق کبھی سنجیدہ نہیں لیا اور کشمیری مسلمانوں کو ہندئوں کے رحم و کرم(ظلم و ستم) پر چھوڑا ہوا ہے۔
جب اقوام متحدہ کو وجود میں لانے کا مقصد لوگوں کو جنگی تباہ کاریوں سے بچانا اور بین الاقوامی بغض و عناد ختم کر کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور باہمی تنازعات کو ایک دوسرے کے افہام و تفہیم سے حل کرنا تھا تو پھر اقوام متحدہ نے اس کے لیے موثر اقدامات کیوں نہیں اٹھائے،عراق و شام میں یو میہ لاشیں گرنے والا سلسلہ کیوں جاری ہے برما میں مسلمانوں کی نسل کشی اور زندہ جلائے جانے والا معاملہ کیوں ہے،الجزائر،چچنیا اور بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام کیوں ہوا،کشمیر و فلسطین کے مسلمانوں پر پچھلی کئی دہائیوں سے ہنود و یہود کے ظلم و ستم کا سلسلہ پچھلی کئی دہائیوں سے کیوں جا ری ہے،فقط امت مسلمہ ہی بحثیت مجمو عی قتل و غارت گری کا شکار کیوں ہے امت مسلمہ ہی اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کرنے پر مجبور کیوں ہے،کہاں ہے اقوام متحدہ کا حقوق انسانی پر مشتمل چارٹر اور اس کی قانون سازی،کیا انسانوں کا اطلاق مسلمانوں پر نہیں ہوتا؟
مجھے کہنے دیجیے اور یہ بات صد فیصد درست ہے کہ امت مسلمہ کی تیزی سے بگڑتی ہوئی حالت اور مسلم ممالک میں خون مسلم سے بہتی ندیوں کا سلسلہ اگر یو نہی جاری رہا تو آئندہ تیس سالوں بعد اکثر ممالک اسلامیہ کشمیر،فلسطین،برما،عراق وشام کا نقشہ پیش کریں گئے جبکہ بعض میں تو ابھی یہ صورت حال نظر آنے لگی ہے مسلم امہ کو اس حالت تک پہنچانے میں اقوام متحدہ کے پُر کشش و پُر فریب وعدوں کابنیادی دخل ہے اپنے خود ساختہ اصولوں کے تحت اس نے پوری امت کو جکڑا ہوا ہے لہذا امت مسلمہ پر اس ادارہ کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف دنیا بھر میں ہر میسر محاذ پر جہد مسلسل کے ساتھ آواز بلند کی جائے یہاں تک کہ مستقبل قریب میں ملت اسلامیہ کو سیکورٹی کونسل کی مستقل رکنیت دی جائے یا پھر مسلم ممالک کے حکمران اس ادارے کا مکمل بائیکاٹ کر دیں۔
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو