حرف آخر وہی کہ سیاسی استحکام کے بغیر معیشت کا فروغ ممکن نہیں... اور مضبوط معیشت کے بغیر دفاع محض ایک تمّنا اور جذبہ تو ہے‘ بندوبست ہرگز نہیں۔
نعرے ہم نے بہت لگائے‘ دعوے بہت کر دیئے۔ عزم صمیم کا اظہار کر دیا۔ نریندر مودی کو ہم نے بتا دیا کہ اگر وہ جنگ پر تلا ہے تو ہم تیار ہیں۔ ایک فرض پورا ہوا‘ دوسرا باقی ہے۔ پیہم اور مسلسل بھارت ہمیں تاراج کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں‘ وہ یلغار کر سکتا ہے‘ جس طرح کہ 1948ء میں کشمیر اور 1971ء کے مشرقی پاکستان پر کی۔ کیا ہمیں احساس اور ادراک ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو کو احساس تھا‘ یہ کہا: ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنا کر رہیں گے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کو احساس تھا۔ بدترین دبائو کے باوجود 1983ء میں بھٹو کی المناک موت کے پانچ برس بعد‘ جنرل نے ایٹمی پروگرام کی تکمیل کر دی‘ دراں حالیکہ سخت دبائو تھا۔
اب انہیں کیا کہیے‘ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکی حکومت جنرل ضیاء الحق سے شاد تھی۔ افغانستان میں تعاون کے باوجود جنرل کے بارے میں واشنگٹن کے بے پناہ تحفظات تھے۔ امریکہ نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔ جولائی 1979ء میں اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے کو پیغام دیا گیا کہ جنرل ضیاء الحق کے مخالفین کی مدد کی جائے۔ ایٹمی پروگرام کا تسلسل ناراضی کا سبب تھا۔ آئی ایس آئی تب زیادہ کارگر تھی۔ اس پیغام کا سراغ لگا لیا گیا۔ امریکی صدر جمی کارٹر کو بارہ صفحے کا ایک خط جنرل نے لکھا۔ اسے بتایا کہ خطے میں روسی عزائم کیا ہیں۔ 1974ء سے افغانستان میں اس کی مداخلت ہے‘ اور بھرپور مداخلت۔ ایسے میں پاکستان کی امداد امریکہ نے بند کر رکھی ہے۔
27 دسمبر 1979ء کی شب روسی افواج‘ افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ اپنے کارندے حفیظ اللہ امین کو انہوں نے قتل کر ڈالا۔ روسیوں نے دعویٰ کیا کہ امین ہی نے انہیں فوجی مداخلت کی دعوت دی تھی۔ دوشنبہ ریڈیو سٹیشن سے ببرک کارمل نے افغان عوام سے خطاب کیا اور ''انقلاب‘‘ کی خوشخبری دی۔
جنوری 1980ء میں امریکی صدر رونالڈ ریگن کے سلامتی کے مشیر‘ پولش نژاد زبگینو برزنسکی اسلام آباد پہنچے‘ جو سرما کی بارش میں بھیگے پرندے کی طرح تھا۔ برزنسکی کے پاس کوئی منصوبہ نہ تھا۔ وہ حالات کا جائزہ لینے آیا تھا۔ یہ معلوم کرنے کا آرزومند کہ کیا پاکستان مزاحمت کرے گا۔ چند روز قبل صدر کارٹر نے دو سو ملین ڈالر کی پیشکش کی تھی۔ برزنسکی کو جنرل نے یہ بتایا کہ امریکی تجویز کے برعکس‘ جو روسیوں کو افغانستان میں الجھائے رکھنے کی خواہش مند ہے‘ پاکستان انہیں دریائے آمو کے پار پہنچا کر رہے گا۔ رہی دو سو ملین ڈالر کی امداد تو پاکستان کو مونگ پھلی کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ یاد رہے کہ صدر کارٹر اپنی زرعی زمین پر مونگ پھلی اگایا کرتے۔ ضیاء الحق کی طرف سے اپنے خلاف سازشوں پر یہ ایک جوابی طنز بھی تھا۔ بنگلہ دیش کے صدر ارشاد نے جنرل کو فون کیا‘ اور سفارتی و سیاسی تعاون کی پیشکش کی۔
روزنامہ مشرق کے چیف ایڈیٹر ضیاء الاسلام انصاری مرحوم انہی دنوں جنرل سے ملے تو پوچھا: دنیا کیا ہماری مدد کرے گی؟ جنرل کی بہت مذمت کی جاتی رہی مگر وہ غیر معمولی حربی صلاحیت اور توّکل کا آدمی تھا۔ اس نے کہا: اگر ہم کچھ کر گزریں تو دوسرے بھی آ پہنچیں گے۔ پھر اضافہ کیا‘ کیا اللہ نے ہجرت اور جہاد کرنے والوں سے مدد کا وعدہ نہیں کیا؟
1979ء میں نیوز ویک میں شائع ہونے والے ایک سروے نے بتایا تھا کہ 70 فیصد امریکی شہریوں کے خیال میں سوشلزم فروغ پذیر رہے گا۔ امریکی امداد برائے نام تھی لیکن جنرل ڈٹ گئے۔ روسیوں کی واپسی کا انکل سام کو یقین نہ تھا۔ جنرل کو تھا‘ قاضی حسین احمد کو بھی تھا۔ ان سے کہا گیا کہ ساڑھے تین سو سال سے روسی آگے بڑھتے چلے آئے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا: اتنی ہی بڑی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان‘ پر کبھی کوئی حکومت نہیں کر سکا۔ اقبالؔ بہت پہلے کہہ چکے تھے کہ افغانیوں کی سادگی انہیں بچا لے گی؛ اگرچہ ان کی ''ہزار پارہ مسلمانی‘‘ سے وہ پریشان تھے۔ مورخ ٹائن بی نے کہا تھا: عراق اور افغانستان میں فاتحین کے ستارے ڈوب جاتے ہیں۔ صاحبقراں امیر تیمور گورگانی اور ظہیرالدین بابر نے کابل پر حکومت کی تھی۔ اس سے پہلے عربوں‘ ایرانیوں اور محمود غزنوی سمیت شمال کے ترکوں نے بھی۔ واقعہ مگر یہی تھا کہ مکمل طور پر وہ کبھی مطیع نہ ہوئے۔ مامون الرشید کی والدہ اس نواح کی تھیں‘ آخری دنوں میں ہارون الرشید کو اس خطے سے چیلنج درپیش تھا۔ بابر نے کہا تھا: کابل سے آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔ امریکی تجربہ بھی مختلف نہیں‘ فائدہ کم نقصان زیادہ۔
کہا جاتا ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق نے افغان عوام کی مدد کا جو فیصلہ کیا‘ وہ تباہ کن ثابت ہوا۔ فرض کیجئے ایسا نہ کیا جاتا؟ کیا روسی گرم پانیوں کی آرزو نہ کرتے؟ پاکستان کو اگر وہ تسخیر نہ بھی کر سکتے تو کیا بلوچستان کو الگ کرنے کی کوشش نہ کرتے؟ خیر بخش مری اور محمود اچکزئی کابل میں تھے‘ اجمل خٹک بھی اور غفار خان بھی۔ عبدالولی خان فرمایا کرتے: ٹینکوں میں سوار ہو کر نہیں‘ روسی مرسڈیز کاروں میں بیٹھ کر کراچی پہنچ سکتے ہیں۔ کابل میں بھارتیوں سے اجمل خٹک کا رابطہ تھا اور غفّار خان کا بھی۔ اسی زمانے میں ولی خان نے لندن کے کتب خانے چھان کر ایک کتاب لکھی Facts are Facts۔ ثابت کرنے کی کوشش فرمائی کہ پاکستان انگریزوں کی سازش سے وجود میں آیا۔ پاکستان کے حق میں ڈالے گئے‘ 75.6 فیصد ووٹ ان کے نزدیک بے معنی تھے۔
1971ء میں چند لاکھ بنگالی‘ بھارت چلے گئے تو حملہ کرنے کا جواز اسے مل گیا۔ کارگل کی جنگ کے بعد اور آج وہ کیوں ایسا نہ کر سکا؟ اس لیے کہ وہ چھوٹے جوہری بموں سے خوفزدہ ہے اور جنگ سے گزر کر سخت جان ہونے والی فوج سے۔ پاک فوج کے افسروں کی اکثریت اپنے جوانوں کو اولاد کی طرح عزیز رکھتی ہے۔ اس میں افسروں کی شہادت کا تناسب ایک اور سات ہے۔ عام طور پر یہ ایک گیارہ ہوتا ہے۔ اس فوج میں کوئی خودکشی نہیں کرتا اور بھگوڑا نہیں ہوتا۔ کشمیر میں الجھنے کے بعد 521 بھارتی فوجی خود کشی کر چکے۔ افغانستان میں امریکیوں کا تناسب بھی کم و پیش یہی ہے۔
باہر نہیں اندر سے خطرہ ہے‘ کل صوابی میں اسفند یار ولی خان نے حیلے بہانے سے چیخ و پکار کی۔ الطاف حسین نے بھارتیوں سے پیمان کیا تھا کہ جنگ کی صورت میں پاکستانی افواج کو وہ ساحل تک پہنچنے نہ دیں گے۔ محمود اچکزئی کہہ چکے کہ پختونخوا افغانستان کا حصہ تھا۔ مولانا فضل الرحمن ارشاد فرما چکے کہ قبائلی پٹی میں کشمیر کی طرح ظلم برپا ہے۔ یہ صاحب کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور وزیر اعظم نواز شریف انہیں اس منصب پر برقرار رکھنے پر تلے ہیں۔ براہمداغ بگٹی بھارت میں پناہ کے آرزومند ہیں۔ عسکری قیادت پریشان ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قومی منصوبے پر عمل نہیں ہو رہا۔ پنجاب میں نام بدل کر سرگرم دہشت گرد تنظیمں آزاد ہیں۔
امریکہ بھارت کا تزویراتی حلیف ہے۔ چھ گنا بڑی بھارتی معیشت‘ سات فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی پذیر ہے۔ اسحاق ڈار دعوے بہت کرتے ہیں مگر ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی شرح نمو 3.4 فیصد سے زیادہ نہیں۔ سرمایہ ملک سے فرار ہو رہا ہے۔ اس عمل میں شریف اور زرداری خاندان بھی شامل ہیں۔ فرانس سے بھارت نے ایسے طیارے حاصل کرنے کا معاہدہ کیا ہے‘ جو ایف سولہ سے چھ گنا زیادہ خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔
سیاسی محاذ پر اختلاف رائے سے خطرہ نہیں ہوتا۔ یہاں تو مگر بغض و عناد کارفرما ہے۔ نواز شریف‘ عمران خان اور عمران خان‘ نواز شریف کو گوارا نہیں کر سکتے۔ پروپیگنڈے میں ہر طرح کے حربے اختیار کئے جا رہے ہیں۔
بھرپور جنگی تیاریاں اور ایک قوم کی طرف سے مقابلے کا عزم ہی دشمن کو خوفزدہ کرتا ہے۔ خوف کا توازن ہی امن کی ضمانت ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک کمزور معیشت عصر جدید کی ہولناک جنگ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔
حرف آخر وہی کہ سیاسی استحکام کے بغیر معیشت کا فروغ ممکن نہیں... اور مضبوط معیشت کے بغیر دفاع محض ایک تمّنا اور جذبہ تو ہے‘ بندوبست ہرگز نہیں۔
تبصرہ لکھیے