وہ بہت عرصے سے جرمنی میں مقیم تھا۔ اس دن اسے صبح کام پر جانے کی جلدی تھی ۔ اس لیے اس نے شاہر اہ پر گاڑی کی رفتار سو کلومیٹر کر دی ۔ جب کہ اس شاہراہ پر نوے کلومیٹر کی اجازت تھی۔ابھی تھوڑی ہی دور گیاتھا کہ سائڈ کی چھوٹی گلی سے ایک لڑکی اپنی کار کو یکدم سے شاہر اہ پر لے آئی۔ بریک لگا نے کی ہر کوشش ناکام ہو گئی اور گاڑی براہ راست اس لڑکی کی کار سے جا ٹکرائی۔زور دار دھماکہ ہوا اور اس کے بعد اسے کچھ یاد نہ رہا۔ ہوش میں آیا، تو وہ ہسپتا ل میں پڑا تھا۔ اس کے پورے جسم پر بری طرح چوٹیں آئی تھیں لیکن جان بچ گئی تھی۔چند دن بعد جب وہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے قریب تھا تو ایک بوڑھی خاتون اور مر د پھولوں کا گلدستہ لیے اس کے پاس حاضر ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں اور ساتھ ہی معذرت بھی کرتے ہیں کہ ہماری بیٹی کی غلطی کی وجہ سے آپ کو اتنی تکلیف اٹھانی پڑی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لڑکی جس کی کار سے آپ کی گاڑی ٹکرائی تھی ، وہ ان کی بیٹی تھی ۔اور انہوں نے بتایا کہ اس حادثے میں اس کا انتقال ہو گیا ہے۔ و ہ بڑی بے بسی کے ساتھ ماں باپ کو دیکھ رہا تھا۔اور حیرا ن ہورہاتھا کہ یہ کیسی اخلاقی جرأت ہے کہ بیٹی کی موت کے باوجود وہ اپنی غلطی کی معافی مانگنے اور اعتراف کرنے آئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جائے حادثہ سے پولیس نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے تم دونوں کو ہسپتال منتقل کیاتھا مگر ہماری بیٹی نہ بچ سکی ۔انہوں نے کہا کہ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ غلطی ان کی بیٹی کی تھی ،وہ چھوٹی گلی سے مین روڈ پر داخل ہو رہی تھی، اس لیے اس کا فرض تھا کہ وہ ،رک کر، دیکھتے ہوئے داخل ہوتی، اس نے چونکہ یہ ذمہ داری پوری نہ کی اس لیے حادثے کا باعث ،اصل میں وہ ہے، آپ نہیں ، اور آپ کوجو تکلیف اٹھانی پڑی ہے ،اُس کی وجہ سے ہے ۔ صحت یابی کے بعد جب وہ گھر منتقل ہوا تو اس کو عدالت سے نوٹس موصول ہوا کہ اس حادثے کی وجہ وہ لڑکی تھی اس لیے آپ بری الذمہ ہیں تا ہم چونکہ آپ کی سپیڈ مقررہ رفتار سے زیاد ہ تھی یعنی نوے کے بجائے سو تھی اس لیے آپ کو اتنا جرمانہ ادا کرنا ہے۔ اس نے جرمانہ ادا کیا اور آج تک اس پر حیران ہے کہ یہ کیسا سسٹم ہے اور کیسے لوگ ہیں جو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں اس حدتک دیانتدار ہیں۔
وہ جاپان کی ایک سڑک پر جا رہاتھا ، اس نے دیکھا کہ دو گاڑیا ں معمولی سی ٹکرا گئیں۔ وہ کھڑا ہو کر اس منظر کو دیکھنے لگا ۔اسے امید تھی کہ اب دونوں گاڑیوں والے جلدی سے نیچے اتریں گے اور ایک دوسرے سے الجھ جائیں گے ۔ لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب دونوں گاڑیوں والے نیچے تو اترے لیکن وہ ایک دوسرے سے الجھ نہیں رہے تھے بلکہ ایک دوسرے سے معافی مانگ رہے تھے ۔ وہ دونوں اپنی اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے تھے ۔ اوردونوں میں سے ہر ایک اس بات پر اصرار کر رہا تھا کہ اس کی غلطی زیادہ ہے۔ اسی طرح چند منٹ ایک دوسرے سے معافی مانگنے کے بعد وہ ہنسی خوشی اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔
زوال آشنا او ر زوال پذیر قوموں میں بہت سے امراض پید ا ہوجاتے ہیں ان میں سے ایک بہت بڑا مرض یہ بھی ہے کہ وہ قومیں اپنی غلطی کااعتراف کرنا معیوب سمجھتی ہیں ۔وہ یا تو اس کی تاویل کرتی ہیں اور یا پھر اسے دوسروں کے سر ڈال کر خوش ہوتی رہتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایسی سب قومیں دائرے میں گھومتی رہتی ہیں اور اسی گھومنے کو ترقی سمجھنے لگتی ہیں۔دوسری بہت سی قوموں کی طرح مسلمان بھی بحثیت قوم اس مرض کا شکار ہیں۔ ان کے افراد سے لے کر ان کے خاندانوں تک ، ان کے اداروں سے لے کر ان کی حکومتوں تک سب اسی چکر میں پڑے ہوئے ہیں کہ کس طرح ان کی غلطی پر پردہ پڑ جائے اور کس طرح کوئی خوبصورت تاویل کر کے جان چھڑالی جائے اور یا پھر کس طرح اسے کسی اور کے سر پر ڈال کر فارغ ہو لیا جائے۔یہ رویہ ہمارے اندر بری طرح سرایت کر گیا ہے ۔ اور آج یہ حال ہے کہ بظاہر بڑے بڑے سمجھ دار ، دانا ، اہل علم، اہل مناصب ، اور اونچی اونچی ڈگریوں والے بھی اس سے مبرا نظر نہیں آتے ۔ الا ماشا ء اللہ۔
غلطی کو تسلیم کرنااور اس کااعترا ف کرناترقی کے زینے کاپہلا قدم ہے ۔ جب کوئی یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہ ہو کہ وہ غلطی پر ہے تو ٹھیک کیسے ہو گا۔ مسلمان چاہے افراد ہوں یاجماعتیں اور یا پھر ممالک، یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ ان سے پچھلی دو صدیوں میں بالعموم اور رواں صدی میںبالخصوص بہت سی مہلک غلطیا ں سرزد ہوئی ہیں اور وہ راستہ بھول گئے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اسلا م کا پہلا سبق ہی غلطی کا اعتراف ہے ۔ ان کے بابا آدم علیہ السلام نے فوراً غلطی کا اعتراف کیا (ربنا ظلمنا انفسنا ۔۔۔۔۔) جبکہ شیطان اس پر اڑ گیا۔نتیجتا ً آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت ترقی کے باغوں میں پھلنے پھولنے لگے اور شیطان اور اس کی ذریت تنزل اور ذلت کی گڑھوں میں گرنے لگے۔
مسلمانوں کی معلوم او رروشن تاریخ بھی اس طرح کے بے شمار واقعا ت سے بھر ی پڑی ہے ۔ عمر فاروق ؓ نے جب چاہا کہ مہر کی مقدار مقرر کر دیں تو ایک عام سی خاتون نے بر سر محفل اعتراض کر دیا کہ عمر یہ بات قرآن کے خلاف ہے ۔قرآن تو مہر کے لیے قنطارکالفظ استعمال کرتا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بیوی کو قنطار (ڈھیروں خزانہ ) بھی دیا جاسکتا ہے تو تم مقدار مقرر کرنے والے کون ہو۔ عمر ؓنے فوراً تسلیم کیا کہ ان سے غلطی ہو گئی اور بر سر منبر انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور مہر کی مقدار مقرر کرنے کا ارادہ واپس لے لیا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس مرض کو سمجھنے کی کوشش کریں او رہر ہر فرد اس کوشش میں لگ جائے کہ کوئی اور چلتا ہے یا نہیں ،کم ازکم وہ خود تو اس راہ پر گامزن ہو جائے کہ جب کہیں ، جب کبھی کوئی غلطی سر زد ہو یا کوئی اور اس کی نشان دہی کر دے تو فوراً اس کو تسلیم کر لے اور نشان دہی کرنے والے کو اپنامحسن سمجھے ۔ جو کوئی بھی ایسا کرے گا، وہ آدم علیہ السلام کی راہ پر چلنے والا ہوگا اور جو بھی اس سے احتراز کرے گا وہ شیطان کاپیروکار بنے گا۔ اللہ کی طرف سے مغفرت اور کامیابی کا وعدہ بھی ان کے لیے ہے، جو اپنی غلطی پر اڑتے نہیں(ولم یصروا علی ما فعلوا وھم یعلمون) اور ضد نہیں کرتے بلکہ اعتراف کر لیتے ہیں۔انہی کے لیے مغفرت اور جنت ہے ۔اگر ہم انفرادی طور پر یہ روش اختیار کریں گے تو انفرادی کامیابیاں ملیں گی اور اگر اجتماعی طور پر تواجتماعی کامیابیاں ۔ فیصلہ کسی اور نے نہیں ہم نے خود کرنا ہے ۔ مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ بھولا ہوا خود ہی گھر واپس نہ آنا چاہے تو اسے کون لا سکتا ہے !
تبصرہ لکھیے