مولانا الیاس گھمن صاحب کا قضیہ پورے زور و شور کے ساتھ زیر بحث ہے۔ سوشل میڈیا کی روایات کے عین مطابق تقریبا ہر فرد اس کو اپنے نظریات اور فکری وابستگی کی عینک سے دیکھ رہا ہے۔ اس قضیہ میں چند باتیں قابل غور ہیں۔
پہلی بات: اس سارے قضیے کی ابتداء ایک خط سے ہوئی۔ یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ خط لکھنے والا ریحان نام کا کوئی شخص موجود نہیں ہے بلکہ یہ ایک فرضی نام ہے. اصل شخص کو اگرچہ مولانا عزیز الرحمن صاحب کے صاحبزادے مفتی اویس صاحب نے بے نقاب نہیں کیا مگر اتنا ضرور بتا دیا کہ کوئی دوسرا جراتمند پردے کے پیچھے جرات کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ نیز مفتی اویس صاحب نے اس سارے قصہ کو من گھڑت کہا ہے۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر اس سارے قضیہ کی ابتدا کرنے والے معروف صحافی فیض اللہ خان صاحب نے بھی وضاحت کی ہے کہ میں نے محض الزامات کو شائع کرکے غلطی کی ہے اور اس غلطی کی گھمن صاحب سے باضابطہ معافی بھی مانگی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اس طرح کی باتیں اگرچہ زیر گردش ہیں مگر ان کی حیثیت محض الزامات کی ہے جن کو خدا جانے کن محرکات کی بنا پر مرچ مصالحہ لگا کر شائع کیا گیا۔
دوسری بات: اس پورے قضیہ میں وفاق المدارس کا کردار بھی زیر بحث آیا اور آنا بھی چاہیے مگر میری دانست میں وفاق المدارس اور علمائے کرام نے اپنی ذمہ داری اس حد تک پوری کی ہے کہ انہوں نے گھمن صاحب سے باضابطہ لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ وفاق کا اظہار لاتعلقی کا اعلان ناکافی ہے۔ اگر وفاق کا اتنا اقدام ناکافی ہے تو وفاق کو کیا کرنا چاہیے؟ وفاق المدارس نہ تو گھمن صاحب کا فریق مخالف ہے کہ عدالت تک جائے اور نہ قانون نافذ کرنے والا ادارہ کہ گھمن صاحب کو ہتھکڑیاں پہنائے۔ وفاق المدارس اپنی ذمہ داری پوری کرچکا ہے۔ اس سے زیادہ اس کے لیے مناسب بھی نہیں کیونکہ کل کو کوئی بھی اپنے ذاتی مسائل کے لیے وفاق کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا اور یوں ایک مشترکہ پلیٹ فارم ذاتی مسائل کی بھینٹ چڑھ جائے گا ۔ البتہ چونکہ مسئلہ پورے دینی حلقہ کا ہے اس لیے علمائے کرام کو اس کا پائیدار حل نکالنا چاہیے مگر یہ بھی ان کی اخلاقی ذمہ داری ہوگی، قانونی یا شرعی ذمہ داری نہیں۔ اس صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مجموعی طور پر دینی طبقہ نے مسلکی وابستگی کو بالائے طاق رکھ کر اس کہانی کو آشکارا بھی کیا ہے اور انصاف کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ فطری طور پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ یہ باتیں کافی عرصہ سے دینی طبقہ میں گردش کر رہی تھیں تو اس کو اتنے عرصہ تک کیوں پوشیدہ رکھا گیا؟ اس سوال کا جواب پانچویں اور آخری بات کے ضمن میں آئے گا۔
تیسری بات: اگر یہ علمائے کرام کی ذمہ داری نہیں ہے تو پھر کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے معاملات کی جانچ پڑتال کرے مگر یہ بھی اس صورت میں ممکن ہے جب متاثرہ فریق عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور پولیس میں شکایت کرے۔ اس کے بغیر ریاستی ادارے بھی معاملات کے سلجھاؤ میں ناکام رہیں گے کیونکہ ان کو متاثرہ فریق کا تعاون حاصل نہیں ہوگا جس کے بغیر کسی قسم کی پیش رفت ناممکن ہوگی۔ اگر متاثرہ فریق کے عدالت جانے کے بعد بھی دینی طبقہ اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا تو پھر اس پر مسلکی تعصب کا الزام درست ہوگا، اس سے پہلے ایسے الزامات قرین انصاف نہیں حالانکہ دینی طبقہ کا ردعمل نہایت مثبت دیکھا گیا ہے۔
چوتھی بات: جن لوگوں کو مذہب اور مذہبی طبقہ سے خدا واسطہ کا بیر ہے انہوں نے اس پر طرح طرح کی گل کاری کی، دل کے پھپھولے پھوڑے ۔ ان لوگوں کی طرف سے عجیب و غریب مطالبے سامنے آ رہے ہیں جو ان کی فکری تضاد کے شاہکار ہیں۔ یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ مذہبی طبقہ ایکشن کیوں نہیں لیتا بلکہ طنزیہ طور پر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حدود کے نفاذ کی باتیں کرنے والے حد کیوں نہیں لگاتے۔ عجیب بات ہے کل تک جو لوگ منبر و محراب تک کے اختیارات ریاست کے سپرد کرنے کی باتیں کر رہے تھے، آج وہ ریاست کے اختیارات اور قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ کل تک جن کو حدود و تعزیرات کے مسئلہ پر بدہضمی ہوتی تھی، آج ان کو حدود و تعزیرات یاد آگئے۔ ہم تو بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ حد چاہے گھمن صاحب پر لگے یا کسی دوسرے شخص پر، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو عدالت میں ثابت کیا جائے۔ لبرلز سے گذارش ہے کہ وہ پہلے پاکستان میں شرعی سزاؤں کے نفاذ کا مطالبہ تو کریں تاکہ ان کے ارمان پورے ہوں مگر نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے۔ یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔
پانچویں اور آخری بات: جن لوگوں نے اس معاملہ کو خاص لوگوں کی بیچ سے اٹھا کر عوامی سطح پر اچھالا ہے، انہوں نے نہایت خیانت کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ ان سےصرف مسئلہ پوچھا گیا تھا اور سائل کے معاملات کو پوشیدہ رکھنا ان کی شرعی ذمہ داری تھی مگر انہوں نے بد دیانتی کا مظاہرہ کیا۔ مذہبی طبقہ اگرچہ ان باتوں کے بارے میں جانتا تھا مگر انہوں نے پردہ پوشی کی۔ مسئلہ گھمن صاحب کا نہیں تھا بلکہ ایک خاتون اور اس کے نیک نام خاندان کا تھا خصوصا جب اس خاتون نے خود اس بات کی تشہیر پسند نہیں کی بلکہ علمائےکرام تک محدود رکھنا چاہا۔ محض الزامات کی اشاعت درست اقدام نہیں تھا۔ یہ محض الزامات تھے جن کو ابھی تک کسی فورم پر ثابت نہیں کیا گیا تھا۔
تبصرہ لکھیے