مولانا الیاس گھمن سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا مضمون یکطرفہ الزامات اور بہتان تراشی کی طویل داستان معلوم ہوتا ہے۔ لکھنے والا وہ جو ان میں سے کسی واقعے کا بھی عینی شاہد نہ تھا۔ ایک خاتون کے حوالے سے ایسے ایسے الزامات اور واقعات بے دھڑک لکھے اور شائع ہوئے کہ کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہوتا تھا۔ کسی عام آدمی کے بارے میں بھی ایسا سوچنا محال ہے کجا یہ کہ منبر و محراب کے وارث کے بارے میں ایسے ہوش ربا انکشاف کیے جائیں۔ مولانا الیاس گھمن سے ہزار اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر یوں کردار شکنی اور کیچڑ اچھالنے کا کلچر ہرگز قابل قبول نہیں۔
ایک سے زیادہ ویب سائٹس نے یہ مضمون شائع کیا، کئی صحافیوں نے ایسے واقعات پہلے سے معلوم ہونے کا دعوی کیا، کچھ اہل مذہب و مسلک نے بھی اس لے میں لے ملائی، ہمیں تو اس دعوے پر ہی حیرت ہوئی کہ لکھنے والے کو تو نہیں جانتے مگر واقعات سب کے علم میں ہیں۔گویا الزامات کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ اگر آپ یہ سب معلومات دستیاب تھیں تو ان میں سے خود کسی نے کیوں نہ لکھا اور ایک نامعلوم مفتی کی تحریر کا انتظار کیوں کیا جاتا رہا۔ اگر خود لکھنا نامناسب تھا تو نامعلوم فرد کے نام سے شائع ہونا اور پھر اسے پھیلانا کیونکر مناسب ہو سکتا ہے۔ محض علم میں ہونے اور واقعات کے حقیقت ہونے میں بھی فرق ہے۔ ایک لمحے کو یہی تصور کر لیا جاتا کہ اگر ایسے نامعلوم ذریعے سے موصول ہونے والے واقعات بلاثبوت اگر کسی پیارے سے متعلق ہوتے تو کیا انھیں شائع کیا جاتا۔ حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے یہ بھی فرما دیا جاتا ہے کہ اگر آپ کچھ کہنا چاہیں تو ہمارا فورم حاضر ہے۔ کیا وہ جس پر الزام لگائے گئے ایسا ہی گیا گزرا ہے کہ اگر آپ میں سے کوئی اپنا فورم نہیں دے گا تو وہ بےچارہ کہیں اپنی صفائی ہی پیش نہیں کر پائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کا اپنا حلقہ احباب آپ سب سے بڑا ہی ہو۔ کیا ایسا ہی رویہ اپنے لیے بھی پسند فرمائیں گے کہ گھر بیٹھے کوئی آپ پر بےشمار الزامات بلاتحقیق لگا ڈالے اور کہہ دے کہ آپ بھی جو کہنا چاہیں، کہہ سکتے ہیں۔ لگائی بجھائی اور کسے کہتے ہیں۔ ایسا علمی اور نظریاتی بحث مباحثے میں ہوتا ہے کہ آپ اگر اختلاف رکھتے ہوں تو ہمارے صفحات حاضر ہیں، ذاتی کردار پر حملوں اور اوچھے الزامات کے ضمن میں ایسا ہونا کوئی صحتمند رویہ نہیں۔ علمی و ادبی مکالمہ کرواتے کرواتے یہ ہمارے دوست کہاں جا پہنچے ہیں۔ کیا ایسے سینئر صحافیوں کو بھی سمجھانا پڑے گا کہ ان کا کام ایسا ہے کہ ایسے ہزاروں واقعات اور الزامات آپ کے علم میں آئیں گے، بےشمار خطوط و مراسلات موصول ہوں گے لیکن ایسا ہر خط قابل اشاعت نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ بادشاہوں کے سینے رازوں کے دفینے ہوتے ہیں۔ یہ بات آج کل کے دور میں صحافیوں کے لیے بھی بجا طور پر کہی جا سکتی ہے۔
مولانا الیاس گھمن کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا مگر طلسم ہوش ربا کی داستان پڑھ کر مجھے حیرت سی ہونے لگی کہ اتنی بہت ساری برائیاں ایک ہی فرد میں آخر جمع کیسے ہو سکتی ہیں؟ وہ بھی یوں کہ ان کے قریب رہنے والوں تک کو بھی پتا نہ چل سکا اور وہ اتنا کچھ کرتا رہا۔ اگر یہ سب واقعات حقیقت بھی ہوں تو کیا یہ مناسب رویہ ہے کہ اس طرح سے برسرعام ان کا تذکرہ کیا جائے۔ افسوس یہ ہے کہ ایسا کرنے والے وہ ہیں جو خود ساری دنیا کو شائستگی اور شرافت کا سبق دیتے ہیں۔ لگتا ہے اخباروں اور چینلز کی طرح اب ویب سائٹس میں بھی ریٹنگ کا بخار چڑھنے لگا ہے کہ جیسے تیسے اپنی ویب سائٹ کو اوپر لانا ہے۔ اس کے لیے جیسا بھی چٹ پٹا مواد ملے چھاپ دو۔ جناب عامر خاکوانی صاحب، آپ تو الگ ہو گئے مگر دلیل ٹیم سے کہہ دیجیے کہ وہ اس دوڑ میں کبھی نہ لگے خدا کے واسطے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ کسی بات کو بلا تحقیق آگے بیان کر دے۔ کمنٹس اور تبصرے میں بھی ہماری قوم کا مزاج صاف نظر آتا ہے۔ بلاثبوت لگائے جانے والے الزامات پر ہماری قوم کتنے آرام سے ایمان لے آتی ہے۔ منفی باتوں پر فورا مہر تصدیق ثبت کرنے کو ہم تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور دین بیزار طبقہ جو پہلے ہی تاک میں ہوتا ہے،ں اس کے ہاتھ تو ایسے معاملات میں ترپ کا پتا آ جاتا ہے۔ پھر سب اصول ضابطے، اخلاقیات، اور تحقیق کے درس پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
خدارا علمی اور نظریاتی مکالمے کے کلچر کو اس طرح کی ذاتیات سے دور رکھو، ایسا نہ ہو کہ کتاب بینی کی عادت سے دور جو نوجوان علم اور تحقیق کی لالچ میں دلیل اور مکالموں کی اس فضا میں آیا تھا، وہ پھر سے بدظن ہو جائے۔ بڑی مشکل سے بے علمی اور سطحیت کے اس دور میں مثبت گفت و شنید کا ماحول پیدا ہوا ہے، اسے مکدر کرنے سے بچاؤ۔ اس وار کو سمجھو اور اس کا نشانہ بننے سے خود کو بھی بچاؤ اور دوسروں کو بھی۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
تبصرہ لکھیے