ہوم << قدیم اور معاصر تناظر میں شائقین علوم کا حال : عمر خالد

قدیم اور معاصر تناظر میں شائقین علوم کا حال : عمر خالد


اسلام کے چار سو پھیلتے ہی علم و فن سے پھوٹنے والی کرنوں نے اپنے شائقین کو ایسا گھائل کرلیا تھا کہ طلب علم ہی ان کی زندگی کا اوڑھنا پچھونا بن گیا۔ صفحات تاریخ پر بےشمار ایسے قصے نقش ہیں جن کے معمولی تتبع سے قرون ثلاثہ کی علمی فضا کا ادراک کیا جاسکتا ہے، پھر قرآن مجید کی اثرانگیزی اجتماعی رو کا مخصوص سمت میں بہاؤ، اور سیاسی معاونت وغیرہ جیسے عوامل نے حصول علم کی راہ میں حائل جس مضبوط ترین چٹان کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا وہ دراصل "ذہنی انتشار" تھا، صدر اول میں علماء کی زندگی کے محوری گردش کا جائزہ لیا جائے تو حصول علم میں ان کی یکسوئی قابل دید و شنید ہے، یکسوئی کی ایسی ایسی داستانیں مرقوم ہیں جنہیں معاصر تناظر میں دیکھنے سے دل و دماغ شذدر رہ جاتے ہیں، حٰیرانگی و تعجب کی بات ہے کہ بعض اصحاب کے معاشی حالات کم و بیش ناگفتہ بہ ہوگئے ، جنہیں وسائل مہیا تھے ان کی علمی سرگرمیوں میں دریا دلی کے باعث روز بروز تنگی نے جنم لیا ، لیکن حصول علم کے اشتیاق میں سب داؤ پر لگادیا، جہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی فضا میں جن خارجی عوامل نے تعلیمی یکسوئی میں اضافہ اور معاشی تنگی کےغیر اہم ہونے پر معاونت کی ہے ان میں بنیادی کردار "احساس بلندی" کا ہے، احساس بلندی سے مراد وہ خاص ذہنی بالیدگی، اور شعور برتری ہے جو کسی قوم کو نظریاتی و جغرافیائی فتح کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے، جس کا لازمی تقاضا اپنے نتائج کے اعتبار سے سیاسی قائدین میں غرور و تکبر اور رعایا میں حلم و تواضع کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، مزید یہ کہ معاشی حالات اور معیار زندگی میں ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے جو دھیرے دھیرے بہتر سے بہتر ہونے کی جانب کھینچتا ہے پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرون ثلاثہ میں میں علمی سرگرمیوں کا دائرہ قرآن و سنت کی تشریح و تبیین و تحیقیق و تدوین میں بنیادی حیثیت کا حامل تھا جسے امت کے عمومی مزاج نے تقدس و احترام کے ایسے والہانہ جذبہ کے ساتھ اپنایا جس کی نظیر دیگر تاریخوں میں ملنا محال ہے۔
اسی مجمل سے خاکے کا معاصر علمی تناظر کا جائزہ لیا جائے تو ہر لحاظ سے اس کے برعکس نتیجہ درآمد ہوگا، (استثنائی حالات الگ ہیں) جدید دور میں جبکہ پیمانے تبدیل ہوچکے ہیں (علم جستجوئے حقائق کے بجائے معاشی دوڑ کا حصہ بن چکا ہے) حصول علم کا محرک جذبہ "جاہ پروری" ہے، ذہن کی جدید تشکیل "مال و جاہ" کے سانچوں میں ڈھلنے کے بعد علم "اقدار" سے لاتعلق ہوکر "عالمی معاشی" پٹھری پر رواں دواں ہے۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں اس کے بھاینک اثرات دھیرے دھیرے واضح ہوتے جارہے ہیں، پہلے پہل "اخلاص" کا جنازہ نکلا، کیونکہ علم نامی گاڑی کا انجن اقدار کے بجائے سسٹم سے تبدیل ہوچکا ہے، اور بدقسمتی سے جب روایتی طریقہ سے یہ گاڑی نہیں چلی تو دھکے دے کر کام چلایا گیا۔ یوں پیہم کوشش کے باوجود عموما مطلوبہ نتائج حسرت و مایوسی میں بدلتے گئے، لہذا قرن اول میں جس "یکسوئی" کا حصول آسان ترین کام تھا، معاصر زمانہ میں اس کے تمام عوامل تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں،اسی طرح اقدار کی کسوٹی پر طلب علم فقط ماضی کی خوشگوار یاد بن چکی ہے ۔
آج سسٹم سے بغاوت چار و ناچار بھی ناممکن ہے، جس کے نتیجہ میں علمی فضا کا لالچ و حرص، جاہ و مال جیسی آلودگیوں سے بھرجانا بین الاقوامی تناظر میں اب آنکھوں دیکھا حال ہے۔ ہمدردان ملت اس موذی مرض کی کسک کا مکمل ادراک کررہے ہیں۔ وسائل سے تہی دستی اس پر مستزاد، بہرکیف علماء مدرکین اور واقفین ملت ہی اس مرض کی دوا و تدبیر کرسکتے ہیں، جن کے ساتھ اللہ تعالی کی خاص غیبی تائید و نصرت شامل حال ہوتی ہے۔