مولانا الیاس گھمن انسان ہیں، ان سے ممکن ہے غلطیاں ہوئی ہوں، ان کے حوالے سے علماء تقسیم کا شکار نظر آ رہے ہیں، ایک طرف وہ طبقہ جن کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول کے بعد اگر روئے زمین پر کوئی بڑا عالم ہے تو وہ الیاس گھمن ہی ہیں، اطمینان رکھنا چاہیے کہ تازہ واقعہ ان کی علمیت سے انکار کے نتیجے میں رونما نہیں ہوا بلکہ ان کو عالم مانتے ہوئے نوحہ ہے، غیرعالم ہوتے تو ہیرا منڈی میں یہ سب کچھ جائز طریقے پر ہوتا ہے. جو لوگ ان کی قابلیت اور صلاحیت کی داستانوں کو طول دے رہے ہیں، ممکن ہے ان کے پاس علم ہو کیونکہ ذاتی طور سے میں مناظرین کے علم کا قائل نہیں. یہ کوئی خوامخواہ کا دعوی نہیں بلکہ ان کے قریب رہ کر یہ لکھ رہا ہوں. مولانا الیاس گھمن کو پہلی مرتبہ قریب سے دارالعلوم کراچی میں دیکھا تھا جب وہ کراچی آئے تھے اور جامعہ نے اپنے اسٹیج سے انہیں تقریر کی اجازت نہیں دی تھی. سو کچھ جیالوں کو لے کر ایک چمن میں ان کے سامنے کچھ وعظ فرمایا جو میں نہ سن سکا.
مولانا الیاس گھمن کی شخصیت شروع سے ہی متنازع آرہی ہے، آج کا نہیں بلکہ دو تین سال پہلے بھی ان کا ایک غیر اخلاقی اسیکنڈل علماء کے حلقے میں گونجتا رہا، سو پیران حرم کی پاسبانی سے وہ منظر سے غائب ہوا تو یہ نیا واقعہ منہ کھولے کھڑا ہے. ایک آدمی پر بار بار اس نوعیت کے الزامات کا لگنا کیا عجیب نہیں؟ مگر کب تک اپنوں کے کرتوت پردے میں رکھے جاتے سو یہ معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آیا تو وضاحتیں شروع ہوگئیں.
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو شاید بغض یا اخلاص کی وجہ سے گھمن صاحب کی ذات پر مولویوں کی تمام تر سیاہ کاریاں ڈالنے میں لگے ہیں اور انہیں کوڑے لگانے پر بضد ہیں. انہیں سوچنا چاہیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر واقعہ افک کے حوالے سے بے بنیاد باتیں گھڑنے والوں کو اللہ نے کتنی سخت جھاڑ پلائی.
[pullquote] اذ تلقونہ بالسنتکم و تقولون بافواھکم ما لیس لکم بہ علم [/pullquote]
سو سوچنے کا مقام ہے کہ محض سنی سنائی باتوں کو یقین کے درجے میں رکھ کر انہیں پھیلانا کتنی بری بات ہے.
جو نادان دوست صرف اس وجہ سے گھمن صاحب کی حمایت میں کمر کس کر میدان میں اتر چکے ہیں کہ اس سے اسلام خطرے میں پڑ سکتا ہے یا دیوبند کی مضبوط عمارت میں دراڑ پڑسکتی ہے، انہیں ٹھنڈا پی لینا چاہیے. ایک گھمن صاحب کے نہ ہونے سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور دیوبند کی وہ عمارت جس کی تعمیر میں مولانا انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ جیسے لوگ شامل رہے، وہ کبھی منہدم نہیں ہوسکتی.
مولانا انور شاہ کشمیری کے سوانح میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ مدرسے سے ملحقہ اپنے مکان میں تشریف لے جارہے تھے، دروازہ کھٹکھٹایا اور جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے تو مولانا طیب صاحب مرحوم کی والدہ پر نظر پڑی، الٹے قدموں لوٹے، استغفار پڑھتے ہوئے درسگاہ تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ آج غلطی سے مولانا طیب صاحب کی والدہ پر نظر پڑ گئی، اللہ سے استغفار کر رہا ہوں اور سوہان روح کی بری اذیت سے گزر رہا ہوں اور جب جب بخاری شریف میں احصان کی حدیثیں آتی ہیں تو یہ واقعہ ذکر فرما کر استغفار فرما لیتے، جبکہ شادی کے وقت سن و سال 45 سے متجاوز ہوچکے تھے. اکابر کی چھتری استعمال کرنے والے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے والوں کی ان ہستیوں سے کوئی نسبت نہیں ہو سکتی.
علمائے کرام کو شاید و باید سے کام لیے بغیر ان واقعات کی فوری تحقیق کرا لینی چاہیے. یہ نہ صرف دین کی بدنامی کا ذریعہ ہے بلکہ مستقبل قریب میں اس کے لڑکیوں کی دینی تعلیم پر بھی برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں. تسلیم ہے کہ عصری تعلیم گاہوں میں اس سے بھی کالے کارنامے انجام پذیر ہوتے ہیں مگر ان کا دعوی پارسائی کا تو نہیں، وہ جبرا خدا کے سیکرٹری بننا قبول بھی تو نہیں کرتے، دوسروں کے لئے " رجم" کی آواز لگانے ولے اپنے حلقے میں کسی کو رجم کریں تو بات بنے گی. وفاق المدارس جیسی ناکام تنظیم کو بھی حرکت میں آنا چاہیے. خیر اس کی ناکامی کی داستان پھر سہی.
تبصرہ لکھیے