مولانا الیاس گھمن کے حوالے سے معاملہ معروف صحافی فیض اللہ خان کی فیس بک پوسٹ سے شروع ہوا تھا. اس تحریر میں نے انھوں نے آغاز سے اب تک کی کہانی کو پیش کیا ہے. معاملے کی اہمیت کے پیش نظر اسے شامل اشاعت کیا جا رہا ہے. (ادارہ دلیل)
الیاس گھمن اور متاثرہ خاتون کا دعوی، فریقین کیا کہتے ہیں؟
الیاس گھمن صاحب سے متعلق بحث بہت عام ہوچکی۔ وہ سارے خطوط اب سوشل میڈیا کی زینت ہیں جس کے مطابق ان کے عقد میں رہنے والی خاتون نے دعوی کیا کہ الیاس گھمن نے ان کی صاحبزادی سے مبینہ زیادتی کی اور کئی بار کی۔ اس حوالے سے کچھ ٹیلی فون کالز کا بھی چرچا ہے۔ خاتون نے مختلف دیوبندی علمائے کرام سمیت وفاق المدارس کو بھیجے جانے والے ان خطوط میں فتوی و انصاف مانگا تھا۔ ہمارے یہاں یہ کلچر شدت سے رائج ہے کہ کسی بھی مالی ذاتی یا کاروباری تنازعے کے حل کے لیے ابتدائی طور پر خاندان کے بڑوں، مشترکہ احباب یا علمائے کرام سے رجوع کیا جاتا ہے اور وہاں سے تسلی بخش جواب نہ ملنے پہ تھانہ کچہری میں معاملات طے کیے جاتے ہیں۔
خاتون کے تحریر کردہ خطوط میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی، جبھی انہوں نے عدالت یا پولیس سے رجوع کے بجائے اپنے داخلی روابط کو متحرک کیا۔ یاد رہے کہ ہمارے مذہبی مدارس سے لاکھوں افراد فتاوی کے حصول کے لیے اپنے اپنے مسالک کے علماء سے رجوع کرتے ہیں ۔
ان الزامات میں کتنی صداقت ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ جب تک کسی سنجیدہ فورم پر ان الزامات کو ثابت نہیں کیا جاسکتا، اسے الزام ہی کہا جائے گا۔ ایسے کسی بھی جرم کے لیے ملکی قانون یا شریعت جو قواعد طے کرتی ہے، اس معاملے کو اسی تناظر میں دیکھا جائے گا۔ تب تک اسے حقیقت تسلیم کرنا ممکن نہیں۔
ایسے میں متاثرہ خاتون کیا کرے؟
اوپر بھی عرض کیا تھا کہ خاتون نے وہی طریقہ کار اختیار کیا جس کے بارے میں انہیں علم تھا۔ لیکن ملکی قوانین کو نظرانداز کیے جانے اور طویل مدت گزرنے کی وجہ سے ان الزامات کو ثابت کرنا اب ممکن نہیں رہا۔
علماء نے کیا کردار ادا کیا؟
خاتون نے اس دوران جن علماء سے رابطہ کیا اور انہیں اپنا سرپرست جانا انہوں نے اس معاملے کی کیا تحقیقات کی؟
کیا انہوں نے فریقین کو طلب کیا؟ یا محض فتوی دینے میں عافیت جانی؟
معاملہ یہ ہے کہ خاصے عرصے سے یہ کہانی دیوبندی مکتب فکر کے اہم حلقوں میں زیر گردش تھی۔ لیکن اس کا کوئی حتمی نتیجہ نہ نکالے جانے کی صورت میں تماشا لگ گیا ہے۔ وہ زمانہ گزر چکا جب قالین کے نیچے گند چھپایا جاتا تھا۔ جدید دور ہے، لوگ بہرحال جواب مانگتے ہیں۔
علمائے کرام کو کیا کرنا چاہیے تھا؟
الیاس گھمن اگر ایک عام سے مولوی ہوتے تو مسئلہ نہیں تھا، لیکن ان کا وسیع حلقہ ہے۔ حنفیت کو درست ثابت کرنے کے لیے وہ خاص طور پ غیر مقلدین یا سلفی حضرات کے خلاف تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں جس کی وجہ سے بہرحال ان کی شخصیت بن چکی ہے۔ ایسے میں ان خطوط کے بعد علماء کو واضح مؤقف اختیار کرنا چاہیے تھا کہ اس معاملے میں کون غلط ہے؟ کون صحیح ؟ اور اگر یہ الزام ہے تو اس کی کیا اہمیت ہے؟ اور حقیقت ہے تو کون سا راستہ اختیار کرنا پڑے گا؟
اس معاملے میں غیر ضروری تاخیر کے بعد وفاق المدارس نے الیاس گھمن سے فاصلے اختیار کیے اور اپنے رسمی رسالے میں اس حوالے سے لکھا گو کہ اس میں خاتون کے الزامات کا کوئی ذکر نہیں تھا لیکن پھر بھی اس سے الیاس گھمن کی ساکھ متاثر ہوئی۔
الیاس گھمن صیب سے میری ملاقات کی روداد
سوشل میڈیا میں گھمن صاحب و خطوط سے متعلق پہلے بھی لکھا جاچکا تھا لیکن میری تین لائنیں بم ثابت ہوئیں اور بہت بڑا دھماکہ ہوا۔ تحریر کے کچھ ہی دیر بعد احساس ہوا کہ بغیر کسی ثبوت کے اتنی بڑی بات کرنے سے مجھے گریز کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد میں نے ایک معذرتی پوسٹ لگائی، سنجیدہ احباب نے اس پہ مجھے سراہا لیکن گالیاں بھی بہت پڑیں، اس کے فوری بعد دیوبندی احباب ہی مجھے سارے ثبوت فراہم کرگئے۔
گھمن صاحب سے رابطے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
تحریری معذرت کے بعد میں نے الیاس گھمن سے فون پر بات کی، ان تک سارا معاملہ ویسے بھی پہنچ چکا تھا، اتفاق سے اس کے اگلے روز ہی وہ کراچی آرہے تھے سو ناشتے پر ملاقات طے ہوگئی۔
الیاس گھمن سے کیا بات ہوئی؟
میں نے ان سے معذرت کی کہ بغیر ثبوت کے ایسا الزام لگایا اور بالفرض یہ سب خدانخواستہ درست بھی تھا تو مجھے اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہیے تھا۔ میری معافی انہوں نے خوشدلی سے قبول کرلی۔
خاتون کے خطوط کے بعد علمائےکرام نے رابطہ کیا؟
میرے اس سوال پہ گھمن صاحب کا کہنا تھا کہ مجھ سے اس حوالے سے کسی عالم دین نے رابطہ نہیں کیا، ان کے مطابق میں وہ پہلا صحافی ہوں جس نے اس سنگین معاملے پر ان سے باقاعدہ رابطہ کیا اور حقائق جاننے کی کوشش کی۔
الیاس گھمن نے ملاقات میں کیا کہا؟
انہوں نے ایسے کسی بھی معاملے میں ملوث ہونے کی تردید کی اور اسے الزام قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ انسان خطاؤں کا پُتلا ہوتا ہے
میں نے کیا کہا؟
الیاس گھمن سے گفتگو میں میرا کہنا تھا کہ یہ معاملہ آپ ہی کے مکتب فکر نے اٹھایا ہے، اگر کسی دوسرے مسلک صحافی لادین یا لبرل نے یہ بات کی ہوتی تو اور بات تھی لیکن یہاں تو سارا کٹا دیو بندیوں نے ہی کھولا ہوا ہے، البتہ گالیاں ہمارے نصیب میں رہ گئی ہیں مگر اپنے بڑے علماء کو کلین چٹ دی جا رہی ہے۔
الیاس گھمن نے کیا کہا؟
انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ الزامات خود ہمارے مسلک کے دوستوں نے ہی زیادہ اچھالے اور بات اتنی خراب ہوگئی۔
وفاق نے آپ کے خلاف اشتہار کیوں شائع کیا؟
الیاس گھمن کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف لگنے والے اشتہار کی اطلاع پہلے سے مل چکی تھی، میں نے کچھ علماء کو بیچ میں ڈال کر قاری حنیف جالندھری سے بات کی کہ وفاق کے ترجمان رسالے کو ذاتیات پر حملے کے لیے استعمال نہ کیا جائے لیکن ان کا جواب ملا کہ یہ مولانا سلیم اللہ خان کا فیصلہ ہے، وہ اس بابت کچھ نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد یہ اشتہار شائع ہوا اور یوں الیاس گھمن وفاق المدارس کی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ اسی طرح علامہ احمد لدھیانوی نے بھی ان سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ ایک ہندی عالم دین نے چندے میں خرد برد کے الزامات عائد کیے اور اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا۔
جدید تعلیمی اداروں میں کیا ہوتا ہے؟
اساتذہ کی طالبات کے ساتھ جنسی تعلقات کی داستانیں عام ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جامعہ پنجاب کے استاد پروفیسر افتخار بلوچ سے متعلق یہ اسکینڈل عام ہوا تھا کہ وہ نمبر بڑھانے کے عوض طالبات کو جنسی تعلقات قائم کرنے کا کہتے تھے، یہ معاملہ جامعہ پنجاب کی انتظامیہ و عدالت کے بھی نوٹس میں آیا تھا۔
کیا مذہبی اداروں میں بھی یہ ہوتا ہے؟
مذہبی مدارس اسی معاشرے کا جز ہیں، تنزلی ہر شعبے میں ہے تو مدارس بھی اس سے محفوظ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مدارس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ خواتین کے مدارس میں بھی بعض ایسی شکایات ملی ہیں کہ مدرسے کے مہتمم نے لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی۔ گو کہ ان واقعات کی تعداد خاصی کم ہے لیکن مذہبی تشخص رکھنے والے کسی بھی شخص یا ادارے سے جڑے فرد کے ساتھ یہ خبریں ہوں تو دین بیزار طبقہ اسے مرچ مصالحے کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔
خاتون نے کون سے بڑے عالم یا مدارس سے رابطہ کیا؟
متاثرہ خاتون کے مطابق اس معاملے کو ملک بھر دس بڑے مدارس میں لے جایا گیا، ان سے فتاوی مانگے جس میں سے بعض کا جواب آیا۔ کراچی کا احسن العلوم بھی انہی میں شامل ہے۔ خاتون نے وفاق المدارس کے جنرل سیکریٹری قاری حنیف جالندھری سے رابطہ کیا، خاتون کے مطابق قاری حنیف جالندھری اور مولانا حکیم اختر صاحب کے صاحبزادے حکیم مظہر نے اس معاملے کو حل کرانے کی یقین دہانی کرائی لیکن رفتہ رفتہ وہ اس معاملے سے دور ہوگئے اور کچھ نہیں ہوا۔
قاری حنیف جالندھری اور حکیم مظہر کیا کہتے ہیں؟
حکیم مظہر اختر سے تو میرا رابطہ نہیں ہوسکا البتہ قاری حنیف جالندھری سے جب میں اس بابت پوچھا تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ میں نے خاتون کو کسی قسم کی یقین دہانی نہیں کرائی نہ انہوں نے مجھ سے ایسا کرنے کو کہا، البتہ قاری حنیف جالندھری نے اس بات کی تصدیق کی کہ خاتون سے ان کی فون پر بات ہوئی تھی اور وہ اپنے بھیجے جانے والے فتوے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہ رہی تھیں کہ اس کا کیا بنا؟ قاری حنیف جالندھری کے مطابق جب انہوں نے معلوم کرایا تو یہ بات سامنے آئی کہ خیر المدارس کو خاتون کا بھیجا گیا فتوی موصول نہیں ہوا۔
اس معاملے کی یہ اب تک کی تحقیق ہے جو کہ بلا کم و کاست پیش کردی گئی ہے۔ اس اتفاق یا اختلاف کی صورت میں آپ اپنا مؤقف دلیل کو بھیج سکتے ہیں.
تبصرہ لکھیے