کہتے ہیں تاریخ دیواروں سے لٹکے اور میزوں پر رکھے کلینڈروں میں آڑھے ترچھے ہندسوں کا نام نہیں۔ یہ ہندسے یادوں، محبتوں عقیدتوں، خوشیوں مسرتوں اور غموں کی شاہراہ ہوتے ہیں، یہ کبھی تاریخ کی گود میں ہمکتے خوشیوں کے لمحات ہوتے ہیں اور کبھی آنکھوں کو نم کر دینے والے پرسوگ پل، صبح سویرے گیٹ میں اڑسا ’’امت ‘‘ نکال کر سیلانی نے صفحہ اول پر نظر ڈالی اور لوح پر یکم محرم کی تاریخ دیکھ کر چونک سا گیا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو ہاں! اسے یاد آگیا وہ بارعب حکمران جو سرجھکائے کھڑا تھا۔ وہ دراز قامت حاکم وقت کہ جس کے کاندھوں کو کوئی سیڑھی بنائے کھڑا تھا۔ اسے یاد آیا کہ وہ منصف مزاج عادل فرماں روا، قاضی کے ایک بلاوے پر کیسی تابعداری سے عدالت پہنچا تھا جیسے کوئی غلام سرمئی شام کا رنگ بدلنے سے پہلے آقا کے دروازے پر پہنچتا ہے تو اسے عدالتوں سے کھلواڑ کرنے والے اپنے حکمران بھی یاد آگئے۔ کمانڈو کی رخصتی تو حال ہی کی بات ہے، کمر کی شدید ’’ تکلیف‘‘ میں مبتلا پرویز مشرف کو بیرون ملک تاتھک تھیا تاتھک تھیا ناچتا دیکھ کر سیلانی ہی نہیں کتنوں کے لبوں پر مسکراہٹیں دوڑ گئی ہوں گی، بوڑھے کمانڈو کی رقص میں مہارت کے ثبوت اب سوشل میڈیا پر ہر کسی کی دسترس میں ہیں۔ سادہ لوح سر دھنتے ہوئے کہتے ہیں کہ کمانڈو پھر کمانڈو ہوتا ہے، بوڑھے جرنیل نے بڑی جلدی کمر کے درد سے نجات پا لی اور یہ ان کی بقلم خود ہمت حوصلے کے بنا ممکن نہیں تھا وگرنہ وہ دن بھی تھے جب کراچی کے ضیاء الدین اسپتال میں ڈاکٹروں کا ایک ٹولہ آتا اور ایک جاتا تھا۔ اسپتال کی چار دیواری سے عجیب عجیب اطلاعات باہر آ کر محبان مشرف کا دل دکھاتی اور مخالفین کا لبھاتی تھیں، ایسا اکثر تب ہوتا تھا جب مشرف صاحب کو عدالت یاد کرتی، ادھر عدالت انہیں طلب کرتی اور ادھر کمر کا درد آ لیتا، عدالت نے ہر ہر جتن کر لیا لیکن آئین شکنی کے ملزم کو کٹہرے میں نہ لاسکی، کمر کے درد لادوا میں مبتلا ملزم ملک سے نکل کر ٹھمکے لگانے لگا اور عدالت دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔
سیلانی کو کمانڈو یاد آیا تو وہ شخص بھی یاد آگیا کمانڈو جیسے جس کے غلاموں کے پاؤں کی دھول بھی نہیں، کمانڈو تو چار صوبوں کے پاکستان کا سربراہ تھا ناں، وہ تو لاکھوں مربع میل کی سلطنت رکھتا تھا، یکم محرم کی تاریخ اسی کی یاد لے آئی تھی اور پھر تاریخ اسے بتانے لگی، وہ منظر دکھانے لگی، جسے دیکھ کر ہر شخص حیران ہوئے بنا نہ رہتا، چلتے قدم رک جاتے، آنکھیں کچھ اور کھل جاتیں، بڑھتی عمر نے جن کی کمریں جھکا اور نظریں دھندلا دی تھیں، وہ بھی ماتھے پر دائیں ہاتھ کا چھجا بنا کر ٹھٹک کر دیکھ رہے تھے، برابر والے سے پوچھ رہے تھے کہ بتا جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تو بھی دیکھ رہا ہے ناں۔
منظر ہی کچھ ایسا تھا کہ وہ دراز قامت شخص جھکے ہوئے سر کے ساتھ دیوار کے برابر کھڑا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کے کاندھوں پر دونوں پاؤں رکھے کھڑا گھر کی چھت پر کچھ لگا رہا تھا، یہ دراز قامت شخص صرف ڈیل ڈول میں ہی ممتاز نہ تھا، سپہ گری میں بھی کوئی اس کا ثانی نہ تھا، اس کارعب و دبدبہ ایسا تھا کہ مخالف نام سنتے ہی کانپ جاتے، بڑے بڑے شمشیر زن اپنی تیز دھار رتلواریں نیام میں کرلیتے کہ نہ نہ نہ، ہم اپنے بچوں کو یتیم کرنا نہیں چاہتے، نڈر ایسا تھا کہ دشمن کی صفوں میں گھس جائے تو میمنہ اور میسرہ کو الٹ پلٹ کر رکھ دیتا، صفیں ایسی چیر دیتا جیسے ململ کے کپڑے کو قینچی کاٹتی چلی جاتی ہے، آج اسی شخص کا سر جھکا ہوا اور پیشانی عر ق آلود تھی، سب سے بڑھ کر اسکے کاندھوں پر صرف اس کے سر کا ہی نہیں کسی اور کے بھی دو پیروں کا بوجھ تھا۔
یہ دونوں اشخاص کون تھے، لوگ انہیں تعجب بھری نظروں سے کیوں دیکھ رہے تھے اور اس بارعب قدآور معزز سردار زادے نے ایک دوسرے شخص کو اپنے کاندھوں پر کھڑا کیوں کیا تھا؟ یہ بتانے کے لیے سیلانی آپ کو ایک کمرہ عدالت میں لیے چلتا ہے، اس سے پہلے سیلانی آپ کو بتا دے کہ یہ دراز قامت شخص اپنے قبیلے کا سردار زادہ ہی نہیں ایک سلطنت کا فرماں روا بھی ہے اور سلطنت بھی مکران سے مہران تک کی نہیں نیل کے پانیوں سے لے کر کاشغرکی خاک تک، بائیس لاکھ مربع کلومیٹرکی ریاست میں اس کے نام کا سکہ چلتا تھا، اس عظیم الشان فرماں روا کے خلاف اس کی رعیت میں سے ایک شخص نے اس کے اختیار کو چیلنج کر دیا تھا، چیلنج کرنے والا بھی کوئی ہلکا نہ تھا اس کے نام کے ساتھ بھی بڑے بڑے نام جڑے ہوئے تھے لیکن شاہ پھر شاہ ہوتا ہے ۔
ہوا کچھ یوں کہ قاضی کی عدالت میں ایک شخص نے پٹیشن ڈال دی، اس کا کہنا تھا کہ حاکم وقت نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کا پرنالہ اکھڑوا دیا ہے، قاضی نے سائل کی عرضی سنی اور قانون و آئین کی کتاب اٹھا کر حیلے بہانے کھوجے نہ کسی نقطہ ضرورت کو گھڑ کر حاکم وقت کے حکم کو جائز قرار دیا کہ وہ اسلامی جمہورریہ پاکستان کا چیف جسٹس نہ تھا۔ قاضی نے سائل کی فریاد سنی اور فریق مخالف کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دے دیا، حاکم وقت کو عدالت کے حکم کا پتہ چلا تو اس کی پیشانی شکن آلود ہوئی نہ اس نے پیشی سے بچنے کے لیے احباب کا اجلاس بلایا، اس کی طبیعت بھی خراب نہ ہوئی اور نہ اسے کوئی امور سلطنت کا کوئی ضروری کام پڑا، وہ مقرر دن اور وقت پر عدالت پہنچ گیا۔ اب صورتحال یہ کہ حاکم وقت عدالت کے باہر کھڑا ہے اور قاضی صاحب مصروف ہیں، حاکم وقت کو بتا دیا گیا کہ وہ انتظار کرے، وہ انتظار کرنے لگا، یہاں تک کہ جج صاحب فارغ ہوئے اور انہوں نے حاکم وقت کو طلب کرکے کہا کہ مقدمہ پیش کیا جائے۔ مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی، حاکم وقت نے کچھ کہنا چاہا لیکن جج نے روک دیا۔
’’مدعی کا حق پہلے ہے کہ وہ پہلے اپنی شکایت کرے گا‘‘۔
حکمران خاموش ہوگیا، مدعی بھی وہیں موجود تھا، اس نے عرض کیا کہ جناب عالی! میراگھر مسجد سے متصل ہے اور اس کا پرنالہ مسجد میں گرتا ہے اور پرنالہ شروع دن سے ہی اسی جگہ پر ہے، اسے حاکم وقت نے میری غیر موجودگی میں اکھاڑ دیا ہے، میرا نقصان ہوا ہے، اس کا ازالہ کیا جائے، مجھے انصاف دیا جائے۔
اب قاضی نے حاکم وقت کی جانب سپاٹ چہرے سے دیکھا اور کہا،
’’آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟‘‘
لاکھوں مربع کلومیٹر کے والی ریاست نے اثبات میں سرہلایا اور گویا ہوا
’’قاضی صاحب ! اس پرنالے سے بعض اوقات نمازیوں پر چھینٹیں گرتی تھیں، نمازیوں کے آرام کی خاطر یہ پرنالہ اکھڑوایا گیا ہے اور میراخیال ہے کہ یہ کوئی غلط اقدام نہیں‘‘۔
حاکم وقت نے اپنا سادگی سے اپنا موقف پیش کیا
قاضی نے مدعی کی جانب دیکھا اور کہا
’’اب آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘
مدعی کہنے لگا
’’اصل بات یہ ہے کہ میرے گھر کا نقشہ رسول اللہ ﷺ نے بنایا تھا۔‘‘
بس مدعی کا یہ کہنا تھا کہ عدالت میں صحرا کے گرم میدانوں کی سی خامشی چھا گئی اور سب مدعی کی طرف دیکھنے لگے۔ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا
’’رسول اللہ ﷺ نے اپنی چھڑی سے نشان لگا کر دیے تھے کہ میں اس طرح اپنا مکان بنواؤں اور میں نے ایسا ہی کیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ پرنالہ خود نصب کروایا، رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے کاندھوں پر کھڑا ہو جاؤں، مجھ میں یہ سکت کہاں تھی، میں نے انکار کیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے اصرار کرکے مجھے اپنے کاندھوں پر کھڑا کروایا اور یہ پرنالہ لگوایا‘‘۔
اب اس جج کو بھی شاباش ہے کہ اس نے سائل کی یہ بات سننے کے بعد بھی جوش عقیدت میں فیصلہ نہیں دیا، وہ سائل کی نسب سے مرعوب ہوا نہ خلیفہ کے رعب میں آیا، کھرا سچ کہنے اور کھرا فیصلہ کرنے والا جج تھا اور کیوں نہ ہوتا، اس کی تربیت بھی تو رسول اللہ ﷺ نے کی تھی۔ جج کے ریمارکس بتانے سے پہلے سیلانی یہ سسپنس ختم کر ہی دے کہ مدعی کون تھا؟ جناب! مدعی مدینے کا کوئی عام شخص نہ تھا، وہ علم و وعمل میں یکتا سرور کونین ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے، اب حاکم کو بھی جان لیجیے، حاکم مراد رسول ﷺ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جس راستے سے گزرتے تو وہاں سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا تھا۔
اس ہائی پروفائل مقدمے کے ثالث حضرت سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے، ان کے انصاف کو سلیوٹ کہ وہ یقیننا یہ جانتے ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ کے چچا دروغ گو ہو ہی نہیں ہو سکتے، انہوں نے انصاف کا تقاضا پورا کیا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا
’’ اس واقعے کا کوئی گواہ ہے؟‘‘
حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فورا باہر گئے اور چند انصار کو ساتھ لے آئے، انہوں نے گواہی دی کہ ہاں یہ پرنالہ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسوال اکرم ﷺ کے کاندھوں پر کھڑے ہو کر نصب کیا تھا۔
گواہی ختم ہوئی تو خلیفہ وقت کی آنکھیں عاجزی سے جھکی ہوئی تھیں، وہ کچھ دیر سر جھکائے کھڑے رہے اور پھر حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے التجاکرنے لگے
’’اللہ کے لیے میرا قصور معاف کردو، مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ پرنالہ رسول اللہ ﷺ نے لگوایا تھا ورنہ میں اسے کبھی نہ اکھڑواتا، مجھ سے جو غلطی ہوئی لاعلمی میں ہوئی، اب آپ میرے کاندھوں پر چڑھ کر یہ پرنالہ ویسے ہی اپنی جگہ پر لگا دیں‘‘۔
حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمانے لگے
’’ہاں انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے‘‘
اور پھر مدینہ والوں نے دیکھا کہ خلیفہ وقت دیوار کے ساتھ کھڑے ہیں اور حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کے کاندھوں پر پاؤں جمائے گھر کی چھت پر پرنالہ لگا رہے ہیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی، خلیفہ وقت کے کاندھوں کی سیڑھی سے اتر کر مقدمہ جیتنے والے سائل نے سینہ پھلا کر انصار کو دیکھا نہ کوئی شیخی ماری بلکہ کہنے لگے
’’امیر المومنین! میں نے جو کچھ کیا اپنے حق کے لیے کیا جو آپ کی انصاف پسندی کی وجہ سے مجھے مل گیا، اب میں آپ سے بےادبی کی معافی مانگتا ہوں‘‘۔
اس کے ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ کے چچا نے اپنا وہ مکان راہ خدا میں وقف کر دیا اور امیر المومنین کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو اسے گرا کر مسجد نبویﷺ کو وسعت دے دیں۔
یکم محرم کی تاریخ اسی عظیم الشان ہستی کایوم شہادت ہے جسے ایک بدبخت اور جہنم کے آخری گڑھے کے مکین نے شہید کر کے ابدی عذاب مول لے لیا، کتنی عجیب بات ہے کہ محرم کو ہم صرف نواسہ رسول ﷺ کی شہادت کے حوالے سے زیادہ جانتے ہیں، انہی کے نام کی تقریبات بھی ہوتی ہیں بلاشبہ ان کی قربانیاں بھی ایسی ہی ہیں حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسے شہید بھی کہیں ہوئے ہیں؟ لیکن مراد رسول ﷺ کو بھی تو بھلایا نہ جائے۔ ان کا تدبر، انتظامی صلاحتیں، قائدانہ، فاتحانہ کردار تاریخ کی کتابوں میں بند ہونے کے لیے تو نہیں، یہ تو ہم اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ سیلانی یہ سوچتا ہواچشم تصور سے تاریخ کے دریچہ کھول کر مسجد نبوی کے آنگن میں گرنے والے پرنالے کو دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
تبصرہ لکھیے