عمران خان کے سیاسی مقدمے پر تو پچھلی نشست میں ہم نے تفصیل سے بات کی تھی اور سچ یہ ہے کہ عمران خان کا مقدمہ ثابت شدہ ہے۔ اس کا کریڈٹ اگرچہ مسلم لیگ ن اور دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے کہ انہوں نے برائے نام بھی سٹیٹس کو سے نجات پانے کی کوشش نہیں کی۔ یوں عمران کا ان پر اس گلے سڑے سسٹم کا محافظ ہونے کا الزام درست ثابت ہو جاتا ہے۔ عمران خان کا اخلاقی مقدمہ بھی زیادہ کمزور نہیں۔ اس کے لیے مگر ایک سادہ اصول بنانا پڑے گا کہ انگریزی محاورے کے مطابق سیب کا موازنہ سیب، کیلے کا کیلے اور انناس کا انناس ہی سے کرنا ہو گا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاست کا مقابلہ اور موازنہ مین سٹریم پارٹیوں اور ان کے لیڈروں ہی سے ہوگا۔
عمران خان پر جو بڑے الزامات ہیں، ان میں سے ایک خان کی تیز دھار زبان سے متعلق ہے، دوسرا ان کی پارٹی میں وہی روایتی سیاستدان اور الیکٹ ایبلز ہی اکٹھے ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے الزام سے مجھے ذاتی طور پر کسی حد تک اتفاق ہے۔ میرے خیال میں عمران خان کا لہجہ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔ ان کے فقروں میں حد درجہ تلخی آجاتی ہے اور کبھی وہ جملے بھی کہہ ڈالتے ہیں جس سے گریز کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر چند دن پہلے کہا گیا جملہ کہ رائیونڈ جلسہ کرنے جا رہا ہوں، کوئی رشتہ تو نہیں لینے جا رہا۔ اس غیر شائستہ فقرے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ نجی محافل میں آدمی اپنے بےتکلف دوستوں سے گپ شپ میں کئی باتیں کہہ دیتا ہے۔ ظاہر ہے باقاعدہ گفتگو یا پبلک بیان میں احتیاط برتی جاتی ہے۔ عمران خان نے جمعہ کی شام رائیونڈ جلسہ میں دوبارہ وہی فقرہ دہرایا۔ کپتان کو ایسی باتوں سے اجتناب کرنا ہو گا۔ کسی سٹیٹس مین کے لیے ایسا لب و لہجہ مناسب نہیں۔ تاہم عمران خان کے لب و لہجے پر تنقید کرنے والے اس وقت زیادتی کر جاتے ہیں، جب وہ دوسرے لیڈروں خاص طور پر مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کو اس حوالے سے رعایت دے ڈالتے ہیں۔
ن لیگ سے ہمدردی رکھنے والے تجزیہ نگار خاص طور پر میاں نواز شریف کو کلین چٹ دے دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پچھلے چند برسوں میں میاں نواز شریف نے اپنا امیج ایک سافٹ سپوکن لیڈر کے طور بنایا ہے۔ وہ مخالف لیڈروں کے لیے آپ جناب کے الفاظ استعمال کرتے اور غصے میں بھی سخت الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس سے مگر یہ اندازہ لگانا غلط ہوگا کہ میاں صاحب سخت لہجہ نہیں اپناتے۔ دراصل میاں صاحب یہ کام دوسروں سے لیتے ہیں۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ پنجاب کی تاریخ کے سب سے سخت گفتگو کرنے والے وزیر ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں اپنے رہنمائوں کی مکمل آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کو اس طرح کی باتوں سے کب کا روکا جا چکا ہوتا۔ ایسا نہیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو رانا صاحب کی زبان کا اندازہ نہیں۔ انہیں دراصل یہی ٹاسک سونپا گیا ہے، جسے وہ انتہائی حد تک جا کر نبھا رہے ہیں۔ ابھی تین چار دن پہلے ایک سیاسی ڈائری میں رانا ثنااللہ کی پریس کانفرنس کی تفصیل شائع ہوئی، جس میں انہوں نے اپنے مخالفوں کے لیے بار بار پاگل خان اور شیخ خبیث کے الفاظ استعمال کیے۔ اس نیلے جاودانی آسمان تلے کوئی ایسا ہے، جسے اس میں شک ہو کہ رانا صاحب اپنی پارٹی قیادت کی مرضی اور منشا کے بغیر اس قدر سخت الفاظ استعمال کر سکتے ہیں؟ ایک لحاظ سے اس گفتگو کی ذمہ داری جناب نواز شریف پر عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی پارلیمنٹ میں واپسی پر خواجہ آصف نے بڑے جارحانہ انداز میں گفتگو کی اور پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کو کچھ شرم کرنے، حیا کرنے کا مشورہ دیا۔ صحافتی حلقوں میں اس پر یکسوئی ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا اور خواجہ صاحب نے طے شدہ سکرپٹ کے مطابق گفتگو کی۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے ایک اور زبان دراز یا آئوٹ سپوکن رکن اسمبلی کو یہ کہا گیا کہ گند ڈالنا ہے، مگر وہ ہمت نہ کر سکے اور یہ اعزاز جلیلہ سیالکوٹی خواجہ کے حصے میں آیا۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے جو لیڈر ٹی وی چینلز پر بیٹھے عمران خان پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب اعلیٰ سطح سے ہدایت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ جس دن زیادہ تیز زبان استعمال کرنا مقصود ہوتی ہے، اس دن عابد شیر علی کو زحمت دی جاتی ہے۔ اس لیے اگر کوئی یہ کہے کہ شریف اپنے مخالفوں کے لیے شائستہ زبان استعمال کرتے ہیں، جبکہ عمران خان ایسا نہیں کرتے، تو یہ بات قطعی غلط ہے۔
بڑے میاں صاحب نے ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف سخت ترین تقاریر کیں، اب وہ دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود یہ کام نہیں کرتے، اپنے مخصوص ساتھیوں سے کراتے ہیں، مگر اس کی ذمہ داری ان پر مکمل طور سے عائد ہوتی ہے۔ عمران خان کو اس حوالے سے اپنے مخالفین پر اخلاقی برتری لینی چاہیے، مگر وہ ایسا نہیں کر پاتے؛ تاہم ان کے مخالفین بھی کم نہیں کرتے بلکہ دو ہاتھ آگے نکل جاتے ہیں۔ اس لیے دونوں اطراف سے غلط ہو رہا ہے۔ تنقید دونوں فریقوں پر ہونی چاہیے، لیکن حدود میں رہ کر۔ ہمارے سامنے دو منظر ہیں، ایک میں سٹیٹس کو کی علمبردار، اس کی محافظ جماعت ہے، جس کا لیڈر خود بھی سٹیٹس کو وا لی سیاست کر رہا ہے اور اس کے پاس سو فیصد روایتی سیاستدان ہیں، بلکہ اس حوالے سے صفائی کے پانچ نمبر اسے اضافی ملیں گے کہ وہ خاندانی سیاست بھی کر رہا ہے۔ ہر عزیز، رشتے دار اور پھر اپنی مخصوص برادری کو ہر کلیدی عہدے کے لیے لازمی سمجھتا ہے۔ اس کی پارٹی میں کوئی اہم عہدہ حاصل کرنے کے لیے خاندانی رشتے داری یا پھر خاص برادری سے تعلق ہونا ضروری ہے، ورنہ آپ ہمیشہ دوسری صف کے رہنما بنے رہیں گے۔ دوسرا منظر اس پارٹی کا ہے جس میں نظریاتی عنصر بہرحال کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔ لیڈر کے خاندان کا کوئی فرد پارٹی میں نمایاں نہیں، اس کی ذات برادری سے تعلق رکھنے والے کسی کی کوئی اہمیت نہیں، اس کے اپنے کزنز تک کو رعایت نہ مل سکی۔ الیکٹ ایبلز اگرچہ اس میں اب شامل ہو رہے ہیں اور ان کی پذیرائی بھی کی جا رہی ہے، مگر ظاہر ہے ان کی تعداد اس کی مخالف جماعت سے خاصی کم ہے۔ مثالی طور پر تو سٹیٹس کو کو چیلنج کرنے والی پارٹی کو اپنی جماعت میں روایتی سیاستدان شامل نہیں کرنے چاہیے تھے۔ سوال مگر یہ ہے کہ ایسا کیوں کرنا پڑا۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے شاید جان بوجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
یہ سامنے کی بات ہے کہ ہماری بڑی جماعتوں نے پورے الیکشن سسٹم کو ہائی جیک کر لیا ہے۔ جس الیکشن میں کل خرچہ تین چار ارب ہونا چاہیے تھا، اب وہاں دو ڈھائی سو ارب لگتے ہیں، قومی اسمبلی کی سیٹ کے لئے بیس لاکھ روپے خرچ کرنے کی پابندی ہے، جبکہ اس پر کم سے کم چھ سات کروڑ جبکہ اہم حلقوں میں بیس سے تیس کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن اس کا تماشا دیکھتا رہتا ہے۔ الیکشن سسٹم ڈیزائن ہی اس انداز میں ہوا ہے کہ کسی تجربے کار، پیسہ خرچ کرنے والے سیاستدان کے لیے ہی اسے مناسب انداز میں لڑنا اور جیتنا ممکن ہو سکتا ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں الیکشن کے اخراجات کم کرنے کے لئے کئی اقدامات کیے گئے۔ کہیں پر صدارتی انتخاب کر دیا گیا تو کہیں پر متناسب نمائندگی کا نظام لایا گیا، جہاں مقابلہ امیدواروں کے بجائے سیاسی جماعتوں اور ان کے منشور میں ہو اور ایک عام نظریاتی کارکن بھی رکن اسمبلی بن سکے۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ ترکی میں اگر کوئی ووٹر ووٹ نہیں ڈالتا تو اسے اپنی یونین کونسل میں اس کی کوئی وجہ بیان کرنا پڑتی ہے، بیماری وغیرہ کی صورت میں بچت ہو جاتی ہے، ورنہ اس پر ہزاروں کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ یوں اگلے انتخاب میں وہ صبح صبح اٹھ کر لازمی ووٹ ڈالنے پہنچے گا کہ کہیں اس بار پھر جرمانہ نہ لگ جائے۔
ہمارے ہاں تو ووٹروں کو منت سماجت کرکے گھروں سے لانا پڑتا ہے، انہیں ٹرانسپورٹ دینا پڑتی اور اکثر جگہوں پر قیمے والے نان یا بریانی بھی کھلانا پڑتی ہے۔ سینکڑوں پولنگ ایجنٹ لانے پڑتے ہیں، ورنہ الیکشن جیتنا ممکن نہیں رہتا۔ تجربہ کار امیدوار یہ سب چیزیں کر پاتا ہے، کسی نظریاتی کارکن کو ٹکٹ ملے تو وہ غریب ضمانت ضبط کرا بیٹھتا ہے۔ ایسے میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے الیکٹ ایبلز کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اگر پاکستانی سیاسی جماعتیں، انٹیلی جنشیا، میڈیا، دانشور اور طاقتور حلقے ملک میں سیاسی اصلاحات لانا چاہتے ہیں، الیکٹ ایبلز کو کمزور کرنے کے خواہش مند ہیں تو پھر انہیں الیکشن اخراجات میں کمی لانی ہوگی۔ آئین کی باسٹھ تریسٹھ کی شق پر عمل ہو، اخراجات کی مد پر سختی سے عمل کیا جائے اور ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کا پابند بنایا جائے۔ اس کے علاوہ بیلٹ ووٹ، انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی آپشنز بھی پیدا کرنا ہوں گی۔ ہمارے ہاں تو ابھی تک مقناطیسی سیاہی کا مسئلہ ہی حل نہیں ہوا۔ پچھلے الیکشن میں بری طرح یہ تجربہ ناکام ہوا۔ بائیومیٹرک ووٹ کی بات کی جاتی ہے، ہوا کچھ بھی نہیں۔ عمران خان کا الیکٹ ایبلز کو پارٹی میں شامل کرنا ایک طرح سے انقلابی سوچ کا دعویٰ کرنے والے سیاستدان کی ناکامی ہے، مگر درحقیقت یہ ہمارے سیاسی نظام کی شکست ہے۔ ہمارے ہاں روایتی سیاست کا پیڑ اس قدر طاقتور ہو چکا ہے، اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ انہیں اکھاڑنا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں رہی۔ ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز اگر مل کر زور لگائیں تب ہی کچھ ہو سکتا ہے۔ عمران خان کے پاس ایک ہی آپشن بچی تھی یا تو وہ جماعت اسلامی بن جاتا۔ جماعت کے پاس پورے پاکستان میں سب سے بہتر اور ایماندار سیاستدان ہیں، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے امیدوار، تربیت یافتہ سیاسی کارکن۔ الیکشن میں پیسے خرچ نہ کر سکنے کی وجہ سے جو اس کا حال ہو گیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ اگرچہ جماعت کی ناکامی میں اور فیکٹرز بھی ہیں، مگر انتخابی نظام مڈل کلاس امیدواروں کی پہنچ سے بہت باہر ہو جانا بھی ایک بڑا سبب ہے۔ اگر ہم نظام کی بتدریج اصلاح چاہتے ہیں، الیکٹ ایبلز سے پاک مین سٹریم پارٹیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے خواہش مند ہیں تو یہ کام صرف عمران خان اور تحریک انصاف پر اندھا دھند تنقید سے پورا نہیں ہو گا، سب کو مل بیٹھ کر کچھ کرنا ہوگا۔ تجزیہ نگار قارئین کو یہ بنیادی سچ بتائیں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔
تبصرہ لکھیے