اللہ تعالٰی کا فرمان ہے ۔۔ کل نفس ذائقۃالموت۔۔ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ہر ایک کو موت آنی ہے۔۔۔
ایک دانا کا قول ہے کہ دانشور کو تین چیزیں کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئیں:
پہلی چیز دنیا کا فانی ہونااور اسکے قرب وجوار کا اُجڑ جانا۔
دسری چیز موت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔
تیسری چیز وہ آفات جن سے کوئی نہیں بچ سکتا۔
اور منجملہ ہماری حالت اسکے برعکس ہے کہ ہم نے ان تینوں کو ہی فراموش کر رکھا ہے۔
اس فانی دنیا کے حصول کے لیے ہم نے آخرت کے تمام تر سرمائے کو فراموش کر رکھاہے۔۔اور یہ ذہن میں ہے کہ شاید ہمیشہ اسی دنیا میں رہنا ہے۔اور موت سے غافل ہیں۔۔تعجب ہے کہ قبرستان میں اپنے پیاروں کو دفناتے ہیں ۔لیکن خود کے بارے میں نہیں سوچتے کہ ہم نے بھی ایک نہ ایک دن ادھر ہی آنا ہے۔
کل میں بیٹھا یہی سوچ رہا تھا۔۔کہ میں مر جائوں گا۔۔یہ زبان سے تو بعض اوقات کہہ دیتا ہوں ۔۔لیکن کیا واقعی سوچا کبھی کہ میں نے مرنا ہے۔۔۔دل نے کبھی کہا؟؟ ایک دفعہ بھی نہیں۔۔
کبھی سوچا نہ تھا کہ اپنے پیارے ابو جان کو قبر میں اتارنا پڑے گا۔۔
جو دنیا سے چلے گئے شاید وہ انہیں بھی یقین نہ ہوگا کہ وہ چلے جائیں گے سب کچھ چھوڑ کر۔
کسی شاعر کے کہے اشعار یاد آگئے۔
تجھ کو ڈولی میں کر کے سوار جنگل میں لے جائیں گے
کر رہی ہے قبر انتظار جنگل میں لے جائیں گے
سب کچھ رہ جائے گا دھرے کا دھرے۔۔بڑے بڑے چلے گئے۔۔موت نے نہیں چھوڑا۔،۔جسے اپنی دولت پہ ناز تھا۔جسے اپنی قوت کا گھمنڈ تھا۔جسے اپنے لشکروں پر بھروسہ تھا۔جسے اپنے تخت شاہی کا زعم تھا۔جسے اپنی عقل پر یقین۔۔جو ہر میدان کا فاتح تھا۔۔لیکن موت سے پچھاڑ دیا۔۔موت کے پنجے سے کوئی نہ بچ سکا۔
آج جو عمومی بگاڑ نظر آتا ہے معاشرے میں۔یہ فساد اور بگاڑ یہ خون خرابہ ۔۔یہ لوٹ کھسوٹ۔۔اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ۔۔موت کو فراموش کربیٹھے ہیں۔۔۔آج آخرت کی فکر پیدا ہوجائے۔تو یہ تمام خرابیاں یہ تمام برائیاں ختم ہوجائیں۔۔۔
اسی لیے تو محسنِ کائنات ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔۔نے جو حل تجویز فرمایا ۔۔وہ موت کی یاد ہے۔۔
فرمایا کہ لذتوں کو ختم کرنے والی چیز موت کو یاد کرو۔۔۔
اور فرمایا کہ عقلمند انسان وہ ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کرلے۔۔واقعی اصل عقلمندی یہی ہے کہ سفرِ آخرت کی تیاری کی جائے۔۔ایسا سفر جس سے واپسی نہیں۔۔ایسا سفر جس میں کوئی شریکِ سفر نہیں۔۔ایسا سفر جس میں مادی اشیاء ۔۔یہ دنیا کی چیزیں ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں۔۔
ایسے سفر کے لیے تیاری نہ کرنا۔۔بلکہ غافل ہوجانا ۔۔ بیوقوفی ہے۔۔
یہ دنیا سرائے دھر مسافرو بخدا یہ کسی کا مکاں نہیں
جو مقیم اس میں تھے یہاں کہیں آج ان کا نشاں نہیں
غرور تھا ، نمود تھی ہٹو بچو کی تھی صدا
پر آج میں تم سے کیا کہوں کہ لحد کا بھی پتہ نہیں
وہ لوگ جن کے محلوں میں ہزار رنگ کے فانوس تھے
جھاڑ ہیں انکی قبر پر نشان کچھ بھی بچا نہیں۔۔۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
تبصرہ لکھیے