’’ہم اپنا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے چھوٹا تھا۔‘‘
جمہوریہ ترکی کے صدر کی یہ بات ایک سو سال پرانے سفر سے جڑنے کا فسانہ سنا رہی تھی۔ خلافت عثمانیہ سے جدائی اور انجان اور اجنبی تصورات اور روایات کا جبر جو 1923ء سے جاری تھا، وہ اس سے دوری کا آرزو مند ہے، وہ اپنی پرانی اقدار کا دلدادہ ہے، انہی کا عروج، انہی کی تعلیم اور تفہیم کا خواہاں ہے، جب سے اس نے استنبول میں اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا، تب وہ صرف ایک شہر کا مئیر نہیں تھا، یہ اتنا بڑا شہر ہے کہ ایک صوبائی اکائی ہے، اس کا اپنا گورنر اور اسمبلی ہے۔ 39 اضلاع والے اس شہر اور اس کے لوگوں کی دنیا طیب نے بدل ڈالی، جب وہ پہلی بار1994ء میں یہاں کا میئر منتخب ہوا۔ دو بار وزیراعظم رہنے کے بعد آج وہ ایک ایسامضبوط صدر ہے جو اقوام متحدہ کے بھرے اجلاس میں کہتا ہے کہ تم پانچ بڑوں میں کوئی ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے، تم نہ ہماری امنگوں کا خیال رکھتے ہو نہ خواہشوں اور ضرورتوں کا، اب وقت آگیا ہے کہ ان پانچ بڑوں میں ایک مسلمان ملک بھی ہو، اور پانچوں بڑے حیرت سے اس کی بات کی گونج سنتے ہیں، ہم البتہ اڈا پلاٹ کے دھرنے کی وجہ سے جاننے اور سننے سے محروم رہتے ہیں۔
طیب اردوان کا کہناتھا ’’دنیاکے1.5 بلین مسلمان ترکی کے عرو ج کے منتظر ہیں۔‘‘
امریکی میڈیا مسلسل ڈرا رہا ہے ’’وہ ایک ایسا خاموش کھلاڑی ہے جو خلافت کا احیاء کر سکتا ہے۔‘‘
جب سلطان محمد فاتح کے شہر میں عصمت انونو سٹیڈیم میں پہلی بار لوگ جمع ہوئے تھے:
ترکی نے طیب کے آنے سے قبل 75سال سیکولرازم کے سائے میں ایسے گزار دیے کہ لگتا تھا اب اسی کے ہو لیے، اسلام کی طرف واپسی کی کوئی راہ ہی باقی نہیں بچی، ہر راستے پر فوج پہرے پر بیٹھی تھی۔ آئینی تحفظ کا جھنڈا اور وہ بھی ہاتھ میں ڈنڈا لے کر۔ کمال اتاترک گیا تو دوسرے ہی روز عصمت انونو صدر بنا۔ وہ کمال سے کسی طور پر کم کمالسٹ نہیں تھا بلکہ سختی میں تھوڑا زیادہ [وہ1938ء سے 1950 تک بلا شرکت غیرے صدر رہا]۔ اسی نے استنبول کی جامع مسجد ایا صوفیہ میں نماز بند کی اور اسے میوزیم بنا دیا۔ طیب کی بنیاد میں اس مسجد کا ایک عجیب کردار ہے، پروفیسر اربکان کی جماعت رفاہ کے لوگ فتح قسطنطنیہ کو ہر سال 28 مئی کو مناتے تھے۔542ویں یادگاری تقریب آنے والی تھی، جب لادین اور سیکولر عناصر نے اسی تقریب کو مسجد ایاصوفیہ میں رقص وسرور کی محفل سجانے کا فیصلہ کیا، تب دبے ہوئے اسلام پسندوں نے پہلی بار مزاحمت کا فیصلہ کیا تھا۔ پروفیسر نجم الدین اربکان نے کہا ’’جو شحص جامعہ ایاصوفیہ کو سلطان محمد فاتح کی وصیت کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرے گا اور چاہےگا کہ اس مسجد میں وہ بے لباس رقص کریں اور ہم خاموش رہیں تو یہ نہیں ہوگا۔‘‘ وہ 29 مئی کا ہی دن تھا 1995ء جب سلطان محمد فاتح کے شہر میں اسی کے ایک دشمن عصمت انونو کے نام سے بنے سٹیڈیم میں یوم فتح قسطنطنیہ کی عظیم الشان تقریب ہوئی۔ پہلی بار ایک لاکھ لوگ شریک ہوئے، جوش سے بھرے بوڑھے اور جوان ترک اس روز سرح نہیں سبز عربی پرچموں میں لپٹے تھے، اللہ کی کبریائی کے نعرے لگا تے تھے اور آنسوؤں سے روتے تھے کہ کیا دن آگئے ہیں کہ اپنے ہی شہر کی جامع مسجد کی عزت اور عصمت کی حفاظت کا مرحلہ درپیش ہے۔ اسی استنبول میں بیس برس کے بعد اس سال 8اگست کو طیب اردوان کی کال پر پچاس لاکھ کا مجمع جمع ہوا جو اسی طرح اللہ اکبر کے نعرے لگاتا تھا مگر اس بار ان میں بےیقینی اور کمزوری نہیں تھی، وہ اپنے رب کی مدد سے جنگ جیت کر آئے تھے، سرخروئی نے ان کے قدم چومے تھے۔
مگر طیب اردوان کو اس سوال کا جواب دینے کی بالکل جلدی نہیں ہے:
کیا وہ ماضی قریب سے ناطہ توڑ کر کامیابی کے ساتھ ماضی بعید کے ساتھ سب کو جوڑ رہا ہے۔ یہ بحث اب عام ہو رہی ہے کہ وہ سلطان محمد فا تح کا جانشین بنے گا۔ وہ استبول کا مئیر بنا تو شہر53 ٹریلین لیرے کے قرض میں ڈوبا ہوا تھا، ایک ڈبل روٹی کا پیکٹ سات ہزار لیرے سے کم میں دستیاب نہیں تھا۔ انقرہ ایک سو بیس ٹریلین لیرے کا مقروض تھا۔وہاں زمین دوز میٹرو کی تعمیر ہو رہی تھی۔ سابق مئیر مورٹ کیریالیسن جو ڈپٹی پرائم منسٹر بھی تھا، ایک ایک ریل کار ساٹھ بلین لیرے کی منگوارہا تھا۔ رفاہ بلدیاتی الیکشن کیا جیتی، انہوں نے آکر اپنا پلانٹ لگایا اور وہی ایک ریل کار پانچ پانچ بلین لیرے میں بننے لگی، پہلے ماہ پانی کی قیمتوں میں پچاس فیصد کمی ہو گئی، ڈبل روٹی جہاں جہاں رفاہ کی بلدیاتی حکومتیں تھیں، سات ہزار کے بجائے دو دو ہزار میں ملنے لگی۔ عوامی فنڈز کا عمدہ استعمال ہونے لگا، رشوت اور اقربا پروری کم ہوئی تو لوگو ں کو سکھ کا سانس آنے لگا، نوکریاں ملنے لگیں، اور اس بےلوث خدمت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے الیکش تک ووٹ 4 فیصد سے بڑھ کر 23 فیصد ہو گئے۔
طیب اردوان کی ساری زندگی کام کرنے، آگے بڑھنے اور جیتنے کی کہانی لگتی ہے۔ وہ آج بھی اسی استنبول سے جڑا ہے، اس کی جڑیں وہیں مضبوطی سے گڑی ہیں۔ آج یہ سوال ترکی میں نہیں، اس کے باہر بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ ماضی کی عظمت اور تاریخ کو آج کے ترکی سے جوڑ رہا ہے۔
:اور صدر کا کہنا ہے [پریشان نہ ہوں، یہاں پریشان ہونے کو کچھ بھی نہیں ہے]
طیب اردگان کو جاننا ضرروی ہے مگر یہ اس قدر آسان ہے نہیں۔ کیا وہ بہت گہرا، مضبوط، دوراندیش راہنما ہے یا ایک ایسا بہادر آدمی جسے حکمت اور دا نش سے نوازا گیا ہے۔ اس نے تر کی جیسے ملک میں جہاں دور و نزدیک اسلام، اسلامی تہذیب اور معاشرت ہی نہیں اسلام پسندوں کے لیے بھی آئینی طور پر کوئی جگہ ہی نہیں چھوڑی گئی تھی اور فو ج کو اسی سیکولر آئین کا آئینی طور پر محافظ ٹھہرایا گیا تھا، اس نے وہاں اپنی جگہ بنائی ہے، نعروں یا تاویلوں سے نہیں مسلسل خدمت اور راہنمائی کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنا کر۔ وہ اکثر وقت سے پہلے اپنے پتے شو نہیں کرتا مگر عین وقت پر جب کوئی دوسری چال چلنے کا وقت ہی نہیں بچتا۔ کیا وہ ایک آمر بن جائےگا؟ کچھ لوگ یہ سوال بھی شدت سے اٹھاتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ اس کی جڑیں اپنی مضبوط اور وفادار ٹیم کی مدد سے عوام سے جڑی ہیں۔ وہ ملک جہاں فوج کی مضبوطی ایک دہشت کی طرح تھی اسی ملک میں طیب نے فوج کے 325 جرنیلوں میں سے بیک جنبش قلم 149 کو سبکدوش کر دیا ہے، ملٹری کے32189 افیروں میں سے 1099 کو نکال دیا ہے، بری فوج کے 202 بددماغ اور مغرور جرنیلوں میں سے 87 کو ڈس مس کر دیا ہے، نیول کے کل 56 ایڈمرلوں میں سے 32 کو ڈسچارج کر دیا ہے، اسی طرح ائیرفورس کے 67 جرنیلوں میں سے 30 کو فوج سے نکال دیا ہے، جن کی پولیس نے گرفتاریاں کی ہیں، ان کی تصویریں دیکھ کر عبرت ہوتی ہے۔ یہ نوبت ایک دن میں نہیں آئی۔ یہ کہا ہے اور صدر کا کہنا ہے [پریشان نہ ہوں، یہاں پریشان ہونے کو کچھ بھی نہیں ہے]
ان لوگوں کے چہروں پر موت کا خوف کیوں نہیں تھا:
وہ ترکی کے لیے 2023ء کا وژن رکھتا ہے اور حیرت تو یہ ہے کہ اب وہاں اس کا مذاق اڑانے والے نہیں، ہاتھ بٹانے والے زیادہ ہیں۔ اس نے ترکی کو بڑے کارخانوں سے بھر دیا ہے، زمینیں پہلے سے کہیں زیادہ فصلیں دے رہی ہیں۔ ترکی کی نئی نسل نے اس میں کیا دیکھا کہ وہ اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ کانوں میں بندے ڈالنے والے، لمبے لمبے بالوں والے، فیشن کی ہر صورت اور ضرورت کو زندگی کی اہم ترین ترجیح سمجھنے والے، 15 جولائی کی شب اسی طیب اردوان کے لیے، اس کے کہنے پر سڑکوں پر دیوانہ وار موجود تھے، ٹینکوں کے آگے لیٹ رہے تھے، سڑکوں پر گولیاں کھا رہے تھے اور پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں تھے۔ انھی میں سے 238 نے اپنی جانیں طیب اردوان اور اس کی حکومت کو بچانے کے لیے وار دیں۔ حکومت نے ایک دستاویز میں کیا خوب لکھا ہے The nation will be forever in your bebt. میں نے ان کے نام، عمریں اور پیشے دیکھے ہیں، ان میں پروفیسر، ویلڈر، طالب علم، انجینئیر، ڈسٹرکٹ چیف، اکاوئننٹنٹ، امام مسجد، ڈیکوریٹر، تاجر، ریٹائرڈ، ریپیئر مین اور الیکٹریشن شامل تھے۔ ان کو مارتے ہوئے جب باغی فوجی اپنی قیادت کو وٹس اپ میسیجز کر رہے تھے کہ یہ تو ہمارے ٹینکوں کے آگے آ کر لیٹ گئے ہیں، اپنی گاڑیاں کھڑی کر رہے ہیں، بلدیہ کے ٹرکوں کی مدد سے ہمارا راستہ روک رہے ہیں، ان کو کیسے روکیں، ان سے کیسے نمٹیں، اسی نمٹنے میں FETO دستوں نے 238 معصوم لوگوں کی جانیں لے لیں۔ ان مناظر کا تو FETO کے منصوبہ سازوں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ لوگ اپنی شرٹیں اتار کر ٹینکوں کے دھواں نکالنے والے سائلنسروں اور پائپوں میں پھنسا دیں گے، اپنے سائیکل اور گھروں میں پڑے پتھر اٹھا کر ٹینکوں کی چینوں میں رکھ دیں گے، ان لوگوں کے چہروں پر موت کا خوف کیوں نہیں ہے جو سیکڑوں میں نہیں ہزاروں میں تھے اور سڑکوں کو طیب کی صرف ایک کال کے بعد بھر چکے تھے۔ جب رات گئے اس نے موبائل فون پر اپنی قوم سے کہا کہ سڑکوں کو اپنے وجود سے بھر دو، یہ منظر کسی ایک شہرکے نہ تھے، یہ منظر تو یوں تھا جیسے وائرل ہوگیا ہو۔
پروفیسرنے ہی ایک فٹ بال کے چھ فٹ لمبے کھلاڑی اردوان کی صلاحیتیں کو پہچانا:
’’وہ کھنڈر ہوئی تہذیب میں ہماری، مسلمانوں کی تہذیب کو دوبارہ جڑیں لگانے کا مو قع دے ر ہا ہے۔‘‘ یہ ایک ماڈ سکاڈ لڑکی ایرل کہہ رہی تھی جسے انگریزی کی شُد بد تھی۔ نجم الدین اربکان کئی دہائیو ں کی مسلسل محنت کے بعد جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ تک پہنچے۔ اسی فوج نے اسلام پسند کا ٹھپا لگا کر انہیں97ء میں قید کر دیا۔ ان کی الیکشن جیتی ہوئی سعادت پارٹی کالعدم قرار پائی۔ پارٹی پر پابندی جاری رہی اور انہوں نے نام بدل کر رفاہ پار ٹی بنالی، پروفیسر نجم الدین اربکان کو تر کی میں عزت و احترام اور تدبر کی علامت مانا جاتا ہے۔ انہوں نے ہی ایک فٹ بال کے چھ فٹ لمبے کھلاڑی اردوان کی صلاحیتوں کو پہچانا۔ اس کے ماتھے پر لکھی سنہر ی مستقبل کی تحریر اور آنکھوں میں کسی بہادر اور ہار نہ ماننے والے سپہ سالار کا سا عزم دیکھا تھا جو اسے نو جوانوں کا صدر بناد یا۔ وہ کبھی اسی شہر استنبول کی ایک سڑک پر شکنجین بیچا کرتا تھا۔ جس جر نیل کے حکم پر 1997ء میں استاد اربکان کو پابند سلاسل کیاگیا تھا اور ان پر پابندی لگائی گئی تھی، 16سال بعد اسی جر نیل کو طیب اردوان کے حکم پر حراست میں لے لیا گیا۔ یہ 2013ء تھا۔ موسم بدل چکا تھا۔
ترکی فوج اس وقت صوبائی گورنرز کو رپورٹ کر رہی ہے:
2016ء میں اسی طیب نے ایک ایسا کام کردیا جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، تر کی فوج اس وقت صوبائی گورنرز کو رپورٹ کر رہی ہے، انہی کو سرو کرے گی اور انہی کو رپورٹ کرے گی۔ وہ اسے Process of empowering governors کہتا ہے۔
اس نے اپنی حکمت عملی سے اپنے دشمن کافی کم کر لیے ہیں:
وہ صابر زیادہ ہے یا حکمت کار بڑا ہے۔ اس کی مستقل مزاجی اور مستقبل بینی کے اس کے دشمن بھی مداح بن رہے ہیں جو اس نے اپنی حکمت عملی سے کافی کم کر لیے ہیں۔ اس سے جڑے لوگ اب ترکی میں سلطنت عثمانیہ کے عروج کے خواب کو دوبارہ سے حقیقت بنتے دیکھ رہے ہیں۔ آج عام آدمی کی آمدن 1000 ڈالر سے زیادہ ہے۔ اور ڈالر جو کبھی ساتویں آسمان سے باتیں کیا کرتا تھا اور ترکی یورپ کا مرد بیمار کہلاتا تھا، اب صرف تین لیرے کا آتا ہے۔ ملکی ترقی اور لوگوں کی آسودگی کا اس سے اچھا اظہار اور کیا ہو سکتا ہے کہ اب دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی فہرست کے ابتدائی ناموں میں ان کا نام ہے جہاں فی کس آمدن سب سے زیادہ ہے۔ لوگوں میں اطمینان کا عالم یہ ہے کہ انقرہ میں ایک صاحب مصطفیٰ کمال نے کہا، جو سابقہ پارلیمنٹ کے ممبر تھے کہ گذشتہ 20 سالوں میں بڑے ہونے والے یہ نہیں جانتے کہ غربت کیا ہوتی ہے اور بھوک کیا ہوتی ہے؟ ان الفاظ کے ساتھ وابستہ تلخ تصور کو ان کی زندگیوں سے رخصت کرنے والے طیب کو اب وہ بھی اپنا رئیس مانتا ہے۔ حالانکہ اسی کی پارٹی کبھی اس کی سخت مخالف اور ناقد بن گئی تھی۔ طیب اب کھل کر آئین ساز ادارے میں اکثریت چاہتا ہے اور ملکی نظام کو پارلیمانی سے صدارتی نظام کرنے کا خواہاں ہے۔ یہ جلد ہی ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے کیونکہ اسے پارلیمان میں اب کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ اس کی تصاویر بھی اب ہائی رائزنگ بلڈنگ پر اسی طرح لٹکتی نظر آنے لگی ہیں جس کا تصور صرف اتاترک کی تصویروں سے وابستہ تھا۔
یہ طیب بھی جانتا ہے اور اس کے نظریات کو پسند نہ کرنے والے بھی، جنہیں مسلسل پیچھے ہٹنا پڑ رہا ہے:
اردوان کا قد کاٹھ کب اتاترک جتنا ہو جائےگا؟ یہ کہنا آج مشکل ہے، آنے والے کل نہیں۔ ابھی اتاترک کو آئین کا تحفظ حاصل ہے اور اس کے تصورات کے بتوں کو بھی۔ مگر بتوں کو کبھی بھی دوام نہیں ہوتا، یہ طیب بھی جانتا ہے اور اس کے نظریات کو پسند نہ کرنے والے بھی، جنہیں مسلسل پیچھے ہٹنا پڑ رہا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں طیب اردگان کی مقبولیت اور اثر پذیری کا گراف بڑھا ہے وہاں شاید اس سے ناراض لوگوں کا گلہ بھی بڑھا ہے۔ موجودہ حالات میں وہ بظاہر دب گئے ہیں۔ خاموش ہیں مگر طیب کی ذات پر حملے جاری ہیں۔ اب تک کم و بیش ایک سو ستر بار ان حملوں کو ناکام بنایا جا چکا ہے۔ دشمن کی نفرت کم نہ ہو تو اظہار کے کئی نئے در کھول لیتی ہے، جو ضرور ی نہیں کہ بند بھی کیے جاسکیں۔ کرد دہشت گرد دہشت کی علامت بننے کے لیے ہمیشہ کسی سرگرمی کو ہدف بنانے کو تیار رہتے ہیں، اب طیب انکا ہدف ہے کیونکہ وہ ان پر کھل کر برس رہا ہے، FETO کے بعد اس کاہدف یہی کرد دہشت گرد ہیں۔
ان سے مقابلے کے لیے طیب نئی حکمت عملی اپنا رہا ہے، اس نے ان تمام لوگوں کو رہا کر دیا ہے جن پر اس کی ذات سے متعلق تنقید کے الزامات تھے۔ فیٹو کے وہ لوگ جو بظاہر سرگرم نہیں تھے، سہولت کار نہیں تھے، صرف فتح اللہ کی تعلیمات سے وابستہ تھے، ان کی رہائیاں بھی تیزی سے ہو رہی ہیں جن پر ایک ستم ظریف نے کہا کہ جیلوں میں اخراجات بھی تو کم کرنے تھے۔ ان کی تعداد 18000 سے زیادہ ہے۔ ترکی سے باہر بیٹھ کرلکھنے والوں کو اسی تعداد پر غصہ تھا مگر اے کے پارٹی ہو یا آر پی پی اور این ایم پی، وہ اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سیاسی پولرائزیشن کے زمانوں میں کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے جب استاد نجم الدین اربکان کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی تھی اور اپوزیشن کی تینوں بڑی پارٹیوں نے ان کے ساتھ مل کر حکومت بنانے سے ہی انکار کردیا تھا۔
کیاسیاہ شب کے بعد ایک طویل روشن صبح واقعی ان کی منتظر ہے:
کبھی طیب پر عجلت پسندی کا الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے۔ مگر 2010ء میں اسرائیل سے تعلق توڑنے اور 2016ء میں دوبارہ جوڑنے پر وہ ایک عملیت پسند راہنما قرار پایا ہے جو اسرائیل جیسے ملک سے تعلقات کی اپنی مرضی کی بحالی کے ساتھ ساتھ تاوان بھی لے سکتا ہے۔ جو یہ جانتا ہے کہ کس وقت تعلقات توڑنا درست ہے اور کس وقت تعلقات جوڑنا مناسب ہوتا ہے۔ روس کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں بھی اس کی یہی عملیت پسندی لوگوں کو پسند آئی۔ اس ناراضگی کی قیمت کئی لاکھ روسی سیاحوں کی کمی تھی جس کا نقصان ملکی معیشت کو ہونے والا تھا مگر اسی روس کے صدر نے سب سے پہلے اس کو بغاوت کی ناکامی کی مبارکباد بھی دی۔ کچھ کا خیال تھا کہ روس نے ترک صدر کو بغاوت کی اطلاع دی، ایوان صدر جو صدارتی کمپلیکس کہلاتا ہے میں صدر سے ملاقات ہوئی تو ان کے لہجے میں اطمینان بھی تھا اور سکون بھی، ’’ہماری اطلاعات کا نظام ناکام ہوا اور نہ سرکاری ادارے‘‘ شاید یہی وجہ تھی کہ بغاوت کے ٹھیک دس منٹ کے بعد وزیراعظم ہاؤس میں ایمرجنسی کاؤنٹر نے کام کرنا شروع کر دیاتھا۔ اسے اپنی حکومتی مشینری کی پوری سپورٹ اور وفاداری کی نعمت میسر ہے۔
مستقبل کے تر کی میں سیکولر ترکی کے امکانات کم ہو رہے ہیں۔ مغربی دوستوں کے لیے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہوگا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کی جدوجہد میں اب وہ اکیلا نہیں رہا، صدارتی ترجمان ابراہیم کالن کے الفاظ میں سیاہ شب کے بعد ایک طویل روشن صبح ہماری منتظر ہے، جس کے اگلے سرے پر طیب اردوان خود موجود ہے۔
(اختر عباس مصنف ،افسانہ نگار اور تربیت کار ہیں۔ وہ سترہ برس نوائے وقت کے پھول میگزین، قومی ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر رہے۔ اردو میں نئی نسل کے لیے ان کی کتابیں دو لاکھ چالیس ہزار سے زائد شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی شخصیت سازی پر پانچ منی بکس ہیومن اپیل لندن نے پانچ لاکھ کی تعداد میں شائع کر کے آزاد کشمیر کے ایک لاکھ طلبہ تک پہنچائیں۔ انہیں اس سال یو بی ایل ایکسی لینس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی ایک کتاب’’ آداب زندگی کے ‘‘ کی اشاعت نے بھی اسی برس پچاس ہزار کا ہدف عبور کی۔ ممتاز تربیتی ادارے ہائی پوٹینشل آئیڈیاز کے سربراہ ہیں، ان سے ان کے فیس بک پیج 92 akhterabbas اور ای میلakhterabas@ymail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ انہیں اسی ماہ تر کی کا دورہ کرنے اور وہاں کے سیاسی اور سماجی حالات کا جائزہ لینے، صدر طیب اردوان اور حکمران پارٹی کی اعلی قیادت سے بھی ملنے کے قیمتی مواقع ملے۔ اس دورے نے ہی اس تجزیے کو غیر جانبداری سے مکمل کرنے میں آسانی فراہم کی۔)
تبصرہ لکھیے