ہوم << مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (5) - مولوی روکڑا

مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (5) - مولوی روکڑا

پرویزمشرف کی بولڈ بیان بازی اور تقریروں سے تو ہر کوئی متاثر تھا، میں ابھی بھی انھیں اچھا سپیکر مانتا ہوں، لیکن عملی طور مشرف کی پالیسیز نے پاکستان کو کھوکھلا کیا، معیشت زوال پذیر ہوئی. جہاں ٹی ٹی پی ابھر رہی تھی اور پاکستان کو نقصان پہنچا رہی تھی، وہاں لبرل، سیکولر، ملحدین اور سرخ پوشوں وغیرہ نے بھی سر اٹھایا اور اپنے اپنے ایجنڈے کو فروغ دینے لگے. غیر ملکی این جی اوز کا نیٹ ورک پھیلنے لگا، یہ این جی اوز نہ صرف جاسوسی کا کام کرتیں بلکہ ساتھ ساتھ ریاستی اداروں سے عوام کو متنفر کرنے کا کام کرتی رہیں. خفیہ اداروں کے لیے ایک وقت میں بہت سے محاذ کھل چکے تھے، اور ڈبل گیم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا. پرویز مشرف نے میڈیا کو بھی اتنی آزادی دی اور اسے اتنا پھیلنے دیا کہ اس کے نتائج اب ہمارے سامنے ہیں. قوم کی تقسیم در تقسیم کا ایک ذمہ دار یہ میڈیا بھی ہے.
مذہبی حلقے لال مسجد آپریشن پر بٹ کر رہ گئے. یہ وہی لال مسجد ہے جس نے روس کے خلاف جہاد اور بعد کے ادوار میں اہم کردار ادا کیا تھا. لال مسجد پر میڈیا کی رپورٹنگ اور مشرف کو آپریشن کے لیے قائل کرنے والے مشیر دہرے میعار سے کام لیتے رہے اور دوسری طرف لال مسجد والے اپنی ضد پر جمے رہے. قحبہ خانہ چلانے والی آنٹی شمیم کی خاطر مسجد کا محاصرہ کوئی عقل مندانہ اقدام نہیں تھا. لال مسجد والوں کو بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دینا چاہیے تھا کہ قحبہ خانے بند کرواؤ نہ کہ خود سے کوئی کارروائی کی جاتی. لال مسجد آپریشن کے بعد صورتحال مزید خراب ہوئی.
افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاسی لیڈران میں سے کوئی ایک لیڈر بھی پاکستان کی بقا کے لیے کھڑا نہیں ہوا، جمہوریت نے مک مکائی سیاست کا روپ دھار لیا، ذاتی فوائد تک محدود سیاست دانوں نے مشرف کے خلاف کوئی خاص مزاحمت نہ کی. ٹی ٹی پی کی کارروائیاں بڑھتی چلی گئیں، مسجد سے مندر، چرچ ، بازاروں میں خود کش حملے روز کا معمول بن گئے. ڈرون حملوں میں بےگناہ لوگ مر رہے تھے، ان کے بچے اور خاندان کے لوگ دہشت گردی کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال ہو رہے تھے. پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو بھی دشمنوں نے استعمال کرنا شروع کر دیا، امریکیوں کو کسی خاص سیکورٹی چیکنگ کے بغیر ملک میں داخل ہونے دیا گیا، ان دو عوامل نے بھی دہشت گردی میں اضافہ کیا.
پاکستان میں لادین و سیکولر طبقے نے اس مفاداتی جنگ کو فرقہ واریت کا لباس پہنانے کی کوشش کی. جہاں عالمی میڈیا اسلام کو بدنام کر رہا تھا وہاں میڈیا فرقہ واریت کی فضا پھیلا رہا تھا. دہشت گردی کا نشانہ اگر اقلیت بنتی تو اس ے فرقے سے جوڑ دیا جاتا، اس کے مقابلے میں اگر اکثریت سے کوئی قتل ہوتا تو اس کی چھوٹی سی خبر بنتی. حقیقت یہ ہے کہ ہر پاکستانی دہشت گردی کا شکار ہوا، کسی دہشت گرد نے مارنے سے پہلے کسی بھی مقام پر لوگوں کے مسلک و مذہب نہیں پوچھے، لیکن عوام کو لسانی و مذہبی فرقہ واریت میں تقسیم کیا گیا. اسلام پر دہشت گردی کا لیبل چپکایا گیا. ڈاڑھی والے سے پہلے مسلک پوچھا جاتا اور پھر اس مسلک کے مطابق فتویٰ لگا دیا گیا. دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا پر مختلف دہشت گرد تنظیموں کے نمائندے ذمہ داری قبول کرتے لیکن آج تک چاہے وہ افغانستان میں بیٹھا ہو یا پاکستان میں، کسی ترجمان کا آپریشنل محل وقوع ٹریس نہیں کیا جا سکا. بہت سے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری ایک سے زیادہ تنظیموں نے قبول کی. اس کے علاوہ ٹی پی پی کے نام پر سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز نے اپنے مخالفین اور اپنے ہی لوگوں کو معاف نہ کیا اور ایک تیر سے دو شکار کھیلے. الزام تراشی کے کھیل اور بریکنگ نیوز کی دوڑ نے ذہنوں کو نفرت اور انتشار کا شکار بنا دیا.
پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد آصف زرداری کی حکومت کی شکل میں ملک پر ایک اور زوال آیا، معیشت مزید لولی اور لنگڑی ہو گئی. جمہوریت و سیاست جمہوری انتقام کے طور پر سامنے آئے. بےنظیر بھٹو کے قتل کا معمہ تو کبھی حل نہیں ہو گا لیکن اس دور حکومت میں ملک کی جڑیں مزید کھوکھلی کی گئیں. ٹرانسپیرنسی کے مطابق اس حکومت کے آخری تین سال میں 3000 ارب روپے کی کرپشن ہوئی. اور نواز حکومت کیا گل کھلا رہی ہے اس کے کوئی اعداد و شمار تو میرے پاس نہیں مگر یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس نے قرضے لینے کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں. جس ملک میں اقتصادی بحران عروج پر ہو وہاں کسی عام شخص کا پیسے کے حصول کے لیے ڈاڑھی رکھ کر دہشت گرد بن جانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے.
اس وقت مفاداتی جنگ مذہبی سلوگنز کے ساتھ لڑی جا رہی ہے. یہ سچ ہے کہ ان تنظمیوں میں کچھ وہ لوگ بھی شامل ہین جو کسی وقت افغانستان میں روس کے خلاف لڑتے تھے، مگر یہاں پالیسیز بدلیں تو ان کے مفاد بھی بدل گئے، روس کے خلاف لڑنے والے کچھ دھڑے اقتدار کے لیے بھی لڑتے رہے. ( جاری ہے )