رائیونڈ میں عمران خان کے جلسے کو کامیاب کرنے کے لیے تحریک انصاف نے اتنی کوشش نہیں کی ہوگی جتنی حکومت اور مسلم لیگ ن کر رہی ہے۔ جلسہ 30ستمبر کو ہے‘ تحریک انصاف کے قافلے ابھی نکلے نہیں مگر پنجاب کے وفاقی دارالحکومت میں پولیس اور انتظامیہ نے ابھی سے روایتی ہتھکنڈوں کا آغاز کر دیا ہے۔ بہانہ کسانوں کے دھرنے کا ہے جو پہلے بھی کئی بار دے چکے مگر مال روڈ کنٹینرز سے اس بار بند کیا گیا اور پکڑ دھکڑ شروع کر دی گئی۔
ہے تو یہ بدقسمتی کی بات مگر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک پر یہ برا وقت بھی آنا تھا کہ عمران خان کی اینٹی کرپشن موومنٹ میں پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ق)‘ جماعت اسلامی اور عوامی تحریک شریک ہونے کو تیار نہیں۔ دلائل ہر ایک کے الگ الگ ہیں ۔گزشتہ روز عمران خان سے ملاقات ہوئی تو وہ طاہر القادری سمیت کسی پر ناراض نظر آیا نہ صورتحال سے مایوس۔ اینٹی کرپشن مارچ کو وہ قوم کی ضرورت قرار دے رہا ہے اور محرم الحرام کے بعد وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے منصوبہ بنا چکاہے۔30ستمبر کے جلسے میں وہ قومی اداروں اور حکومت سے پاناما لیکس کے حوالے سے مثبت پیش رفت کا مطالبہ کرے گا۔ آزادانہ تحقیق و تفتیش میں مجرم قرارپانے والوں کو سزا دینے پر اصرار ہو گا اور اتمام حجت کا اہتمام۔ مقررہ مدت میں جائز مطالبات نہ ماننے کی صورت میں حکمت عملی کیا ہو گی؟ خان نے اپنے لب سی رکھے ہیں مگر میرا اندازہ ہے کہ وہ اپنے حامیوں سمیت اسلام آباد کا رخ کرے گا اور دیگر بڑے شہروں بالخصوص لاہور کو بند کرنے کی نوبت آ سکتی ہے۔دارو مدار مگر رائیونڈ مارچ کی کامیابی پر ہے کہ لاہور اور پنجاب کے چاروں ریجنوں کی قیادت کس قدر سرخرو ہوتی ہے۔
اس جنگ میں تحریک انصاف تنہا ہے ۔ اسلام کے نام لیوا اور اخلاقیات کے علمبردار اس معاشرے میں اشرافیہ نے کرپشن کو اس حد تک قابل قبول بنا دیا ہے کہ دانشوروں‘سیاسی نابغوں حتیٰ کہ مذہبی اکابر کی محفل میں بھی ذکر ہو تو بے اعتنائی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ ''چھوڑیے جی! کرپشن تو زمینی حقیقت ہے ۔ کس کا دامن صاف ہے اور کون اس کا خاتمہ چاہتا ہے؟‘‘ ؎
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
''انسان‘‘ کا گِر کر نہ سنبھلنا دیکھے
یہ اشرافیہ کی عظیم کامیابی اور ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ جس برائی کو دنیا کے تمام مذاہب‘معاشروں اور اقوام میں بدترین لعنت سمجھا جاتا ہے اورجس جرم کے مرتکب افراد مُنہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، جاپان میں خودکشی کر لیتے ہیں، اسے ہمارے ہاں حقیقت بتلا کر خاموش رہنے اور کھلے دل سے برداشت کرنے کی تلقین ہوتی ہے۔
قائد اعظم مطلع سیاست پر ابھرے تو قوم منتشر تھی اور انگریز و ہندو کے مقابلے میں کمزور ۔ قائد اعظم کی دیانت و امانت ‘ خیرہ کن شخصیت اور عزم مصمم نے مگر قوم کے وجود میں بجلیاں بھر دیں اور وہ طاقت‘
اکثریت اور بالادستی کے فلسفے کو شکست دے کر کامران ہوئی۔ قائد اعظم کے بدترین دشمن لارڈ مائونٹ بیٹن نے بھی قائد کے عزم و ہمت کے علاوہ دیانت اور بے داغ کردار کی شہادت دی مگر اب قائد کے پاکستان میں بدترین سماجی‘ اخلاقی‘ معاشی اور قانونی برائی یعنی مالیاتی خرد برد اور لوٹ مارکو حقیقت کے طور پر تسلیم کرانے کی مہم چل پڑی ہے‘ کوئی خلاف بولے تو پوچھا جاتا ہے کہ کرپشن بھی بھلا کوئی موضوع ہے جس پر عوامی مہم چلائی جائے اورحکمرانوں سے جواب طلب کیا جائے۔ کرپشن پر سوال اٹھانے والوں پر الزام تراشی اور کرپٹ افراد کے محاسبے کی بات کرنے والوں کی کردار کشی معمول ہے اور قومی وسائل کی لوٹ مار سے بیرون ملک اثاثوں میں اضافے کرنے والوں پر انگلی اٹھانا ممنوع۔یہی حال رہا تو کسی روز کرپشن کی مخالفت قابل دست اندازی پولیس جرم ہو گا اور کرپٹ افراد کا میڈیا پر ذکر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان گزشتہ روز نیب پر برہم ہوئی اور کہا:''عجب زمانہ آ گیا ہے کہ جس سے چوری کا مال برآمد ہو اسے رہا کرنے کے علاوہ شکریہ بھی ادا کریں‘‘ ۔یہ کرپشن کا پھیلائو اور قبول عام ہے کہ ایک طبقہ دولت کی کثرت کی وجہ سے پاکستان کو اپنے لیے رہنے کے قابل سمجھتا ہے نہ کاروبار کے لیے موزوںاور نہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے محفوظ جبکہ ملک کی اکثریت مالی وسائل کی قلت کے باعث یہاں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جینے کی اداکاری کر رہی ہے۔ پینے کو صاف پانی ہے نہ کھانے کو مناسب غذا‘ رہنے کو جھونپڑی نہیں‘ تعلیمی اور طبی سہولتوں کی عیاشی کے یہ حقدار نہ متحمل ۔ لاہور میں ایک طرف میٹرو چل رہی اور اورنج لائن بن رہی ہے‘ اردگرد مہنگے ماڈل کی جدید گاڑیاں رواں دواں‘ دوسری طرف گدھا گاڑی پر پورا خاندان براجماں اور قریبی آبادیوں میں بھوک‘ بیماری بے روزگاری رقصاں ع
یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے
پاناما سکینڈل منظر عام پر آیا تو وزیر اعظم نے ٹی وی پر آ کر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا۔ چند روز بعد وہ دوبارہ ٹی وی پر نمودار ہوئے جبکہ پارلیمنٹ میں بھی انہوں نے بے لاگ احتساب کی یقین دہانی کرائی مگر چھ ماہ گزر گئے جوڈیشل کمشن کا قیام تو درکنار حکمران اس کے نام سے بھی بدکتے ہیں۔ اپوزیشن کو ٹی او آر کی بتی کے پیچھے لگانے کے بعد اب اس کا نام بھی نہیں لیتے۔ اپوزیشن کا بھی زیادہ وقت احتساب کا مطالبہ کرنے کے بجائے عمران خان کے لتے لینے میں گزرتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ٹی او آر کا کھیل کھیلنے کے بجائے رائیونڈ کیوں جا رہا ہے اور ہماری طرح مک مُکا کی سیاست کیوں نہیں کرتا۔ کرپشن مٹانے کی باتیں کیوں کرتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
یہاں فرشتہ کوئی نہیں‘ انسانی معاشرے میں فرشتے بستے بھی نہیں‘ ہر طرح کی برائی کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی ہے مگر سوال اس کے سامنے سرنڈر کرنے اور انسانی سماج کو شتر بے مہار حیوانی معاشرے میں بدلنے کا ہے۔ کرپشن کے حق میں حکمرانوں اور ان کے قصیدہ خوانوں کے دلائل سن کر ابکائی آتی ہے۔ کہتے ہیں برے سے برے انسان کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اسے اچھا سمجھیں مگر ہم کس قدر پستی کا شکار ہیں کہ کرپشن سے معاشرے کی نفرت کو قبولیت اور کرپٹ افراد کی جھجک کو فخر میں بدلنے کے درپے ہیں ۔کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کی کمزوریوں ‘ غلطیوں اور نقائص کو اچھالتے اور لوٹ کھسوٹ ‘ وسائل چوری اور کمشن خوری کا دفاع کرتے ہیں‘ بے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ۔میرا خیال ہے اشرافیہ کی یہ ضد اور ہٹ دھرمی خونی انقلاب کی راہ ہموار کرے گی ۔عمران خان خدانخواستہ ناکام رہا تو کوئی دوسرا یہ علم اٹھا کر نکلے گا اور تبدیلی کے لیے شائد کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرے‘ہولناک اور ناقابل تصور! سنگدل اور خون آشام اشرافیہ سے معاشرے کونجات دلانے کا جمہوری اور پر امن راستہ کسی نے چھوڑا ہی نہیں۔
کون اس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے کہ موجودہ سیاسی‘اقتصادی معاشی اور سماجی نظام پر ایک طاقتور مافیا کا تسلط ہے ۔ دھن دھونس ‘ دھاندلی کا یہ نظام ملک کی جڑیں کھوکھلی کر چکا ہے‘ نوجوان نسل کا مستقبل اس نے تباہ کر دیا اور اب یہ ہماری آزادی و سلامتی کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قوم کو دو سال مشکلات برداشت کرنے اور تیسرے سال ترقی و خوشحالی کے ثمرات سے مستفید ہونے کا مژدہ سنایا تھا‘ آج حالت یہ ہے کہ موٹر وے کا ایک حصہ گروی رکھ کر قرضہ حاصل کیا جا رہا ہے‘ اگلے سال معلوم نہیں کس اثاثے کی باری آئے گی مگر پارلیمنٹ میں کسی نے واویلا کیا نہ میڈیا پر شور مچا۔ پاکستان پر ایسا برا وقت کبھی نہیں آیا تھا کہ کوئی سڑک گروی رکھنی پڑے ۔لاہور کے جس وزیر اعظم ہائوس کو شریف فیملی کا ذاتی گھر قرار دیا جا رہا ہے اس پر قومی خزانے سے آٹھ سال میں سات ارب روپے خرچ ہوئے مگر اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے والوں کو ڈنڈا برداروں کی فوج سے ڈرایا جا رہا ہے۔ لوگ اب بھی دو وقت کی روٹی‘ بچوں کے دودھ کو ترستے اور بجلی کا بل ملنے پر اختلاج قلب کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ کرپشن کا شاخسانہ ہے مگر اس لعنت کو حقیقت قرار دینے والوں کو اس سے کیا ۔ان کی تو پانچوں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں ۔ان کے لیے تو کرپشن واقعی حقیقت بلکہ نعمت ہے۔ نعمت غیر مترقبہ !
تبصرہ لکھیے