دلیل ڈاٹ پی کے پر ایک تحریر کے مطالعہ کا اتفاق ہوا۔ فاضل دوست نے بہت ہی عمدہ انداز سے ایم کیوایم قائد کی دھرتی ماں سے بےوفائی، ٹارگٹ کلنگ اور چائنا کٹنگ کے کارناموں کومحض الزام قرار دے کر مسترد کرنے کے ساتھ متحدہ کو پاک دامنی، حُب الوطنی اور عوام دوستی کا سرٹیفکیٹ بھی عطا کیا اور کراچی کی عوام کی محرومیوں کا ذمہ دار بھی اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرایا۔ اپنی رائے کو تقویت دینے کے لیے مندرجہ ذیل چند سوالات کیے۔
1۔ اگر متحدہ پر الزامات درست ہیں تو لوگ متحدہ کو ووٹ کیوں دیتے ہیں ؟
2۔ اگر متحدہ پر الزامات درست ہیں تو مہاجروں کے دل کی دھڑکن ایم کیوایم ہی کیوں ہے، مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سر زمین پارٹی اس کی جگہ کیوں نہیں لے سکیں؟
میں تو صرف اتنا عرض کروں گا کہ پہلے کراچی میں الیکشن تھوڑی ہوتا تھا، سلیکشن ہوتی تھی۔ لوگوں کے پولنگ اسٹیشن پر جانے سے پہلے ہی اُن کے ووٹ کاسٹ ہوچکے ہوتے تھے۔ حیرانگی کی بات یہ ہوتی تھی کہ متحدہ قومی موومنٹ کا امیدوار حلقے میں کُل ووٹوں کی تعداد سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرلیتا تھا۔ لوگوں کو ڈرا کر ووٹ لینا تو اور بات، اُن سے ان کے شناختی کارڈ ہی چھین لیے جاتے تھے اور جو بےچارے بات نہیں مانتے تھے اُنھیں نشانہ عبرت بنا دیا جاتا۔ نجانے کتنے ہی اُن معصوم لوگوں کی بوری بند لاشیں سمندر کنارے سے ملیں جن کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ قاٖٖئد تحریک کی تقریر سُننے کے لیے جلسہ گاہ نہ پہنچئے۔ اس خوف کی وجہ سے لوگ متحدہ کو ووٹ دیتے تھے۔ اس خوف کا اب خاتمہ ہوا ہے تو 127-PS کے انتخابات نے یہ بات واضح کردی ہے کہ پہلے سلیکشن ہوتی تھی۔ اور یہ بات کہنا قبل از وقت ہے کہ پاک سرزمین پارٹی کو مہاجروں نے مسترد کر دیا۔ حال ہی میں مصطفی کمال نے کامیاب جلسے کیے ہیں۔
عوام دوستی اور حُب الوطنی میں متحدہ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ہندوستان ٹائمز کے سیمینار میں قائد تحریک کا خطاب ہو یا 22 اگست کا واقعہ یا پھر امریکہ اور ساؤتھ افریقہ میں الطاف حسین کا بیان، حُب الوطنی کے اعلی نمونے ہیں۔ کچھ لوگ سوچیں گے کہ متحدہ اور الطاف کا اب کوئی تعلق نہیں تو پھر متحدہ پر یہ الزامات لگانا درست نہیں، اُن حضرات کے لیے عرض ہے کہ یہ واقعات جب ہوئے تب تو الطاف اور متحدہ ایک تھے۔ متحدہ اور الطاف ہمیشہ سے ایک ہی چیز کے دو نام رہے ہیں۔ وہ سیکٹر اور یونین انچارج تو اب بھی متحدہ کا حصہ ہیں جو اینٹی سٹیٹ کارروائیوں میں ملوث تھے۔ تو پھر کیسے دونوں کو الگ سمجھا جائے؟ اگر کوئی دوسرا متحدہ کو ٹارگٹ کلنگ اور کراچی کی بدامنی کا ذمہ دار قرار دے تو اور بات ہے۔ لیکن جب متحدہ کا اپنا صولت مرزا ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور وسیم اختر 12 مئی کو کراچی میں خون کی ہولی کھیلنے کا اعتراف کریں تو پھر کسی دوسرے سے کیسا گلہ اور کیسا شکوہ ؟
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو مگر مجھے یاد ہے مصطفی عزیزآبادی کا وہ ٹویٹ جس میں موصوف نے پی ایس پی پر امجد صابری کے قتل کا الزام لگایا لیکن مصطفی صاحب کی اپنی پارٹی کے سیکٹر انچارج نے مرحوم صابری صاحب کے قتل کا اعتراف کرلیا۔ لوگوں کو قتل کر کے اپنی مدعیت میں قتل کا مقدمہ بھی درج کروا دو، قربان جاؤں ایسی سیاست پر۔
بڑے معصوم ہیں تیرے شہر کے لوگ
قتل کرکے پوچھتے ہیں یہ جنازہ کس کا ہے
اور اب رہی بات کراچی کی محرومیوں کی تو اس شہر کو مفلوج کرنے کی ذمہ دار متحدہ خود ہے۔ فیکٹریوں کو نذر آتش کیا جائے، دن بھر محنت مزدوری کرنے والوں کو زندہ جلا دیا جائے، رکشے اور ریڑھی والوں سے اُن کی آمدن سے زیادہ بھتہ لیا جائے، اپنی سیاست چمکانے کے لیے کراچی میں لسانیت کا خوب پرچار کیا جائے اور نوجوان کو قلم دینے کے بجائے راہزنی، ٹارگٹ کلنگ، چائنا کٹنگ اور بھتہ خوری کےگُر سے آشنا کروایا جائے تو یہ شہر مفلوج نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟ اگر یہ تمام کارنامے سرانجام دینے کے بعد متحدہ پاکدامنی، حُب الوطنی اور عوام دوستی کے سرٹیفکیٹ کی حق دار ہے تو پھر لیاری گینگ، ٹی ٹی پی اور داعش سے زیادتی کیوں کی جارہی ہے، ان کو بھی پاکدامنی ، حُب الوطنی اور عوام دوستی کا سرٹیفکیٹ دیا جائے اور اُن پر پابندی بھی ختم کی جائے۔
تبصرہ لکھیے