پاکستان اور بھارت کا آپسی کھڑاک تو دونوں کے جنم کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ کئی دفعہ کی ہاتھا پائی اور پنجہ آزمائی کے بعد پانچ اکتوبر دو ہزار سولہ کا وہ تاریخی دن آ پہنچا جب دونوں ملکوں میں ایٹمی جنگ چھڑ گئی۔ یہ جنگ بمشکل چند گھنٹے ہی چل پائی۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کو دو سو سے زائد ایٹم بم مارے گئے، آناً فاناً بڑے بڑے شہر صحفہ ہستی سے مٹ گئے، پورے خطے میں تابکاری پھیل گئی اور دونوں دیشوں کی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ آبادی دھوئیں میں تبدیل ہو کے غائب ہو گئی۔ بس دور دارز کی چند بستیاں اور چند لاکھ لوگ بچنے میں کامیاب رہے۔ ڈونگا سپاں والا بھی پنجاب کا ایک دوردارز کا قصبہ ہے جو کسی بھی شہر سے سو کلومیٹر دور ہونے کی وجہ سے معجزانہ طور پر مکمل طور پر محفوظ رہا ہے، قصبے اور اردگرد کے دیہاتوں کی کل آبادی تیس ہزار سے بھی زائد ہے۔ یہ پاکستان میں ایک جگہ بچ جانے والی سب سے زیادہ آبادی ہے۔ بھارت میں بھی کچھ ڈھیٹ قسم لوگ بچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ جنگ کے بعد امریکہ اور عالمی برادری کا دل بچ جانے والے لوگوں کے لیے مامتا اور محبت سے بھر گیا ہے۔ انھوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دونوں ملکوں کی مدد اور دوبارہ آبادکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کام کے لیے ڈونگا سپاں والے کے چوہدری شیدے سے زیادہ موزوں اور تجربہ کار آدمی اور کون ہو سکتا تھا؟ کیونکہ چوہدری شیدا پرانے پاکستان میں ایم پی اے کا الیکشن لڑنے اور ہارنے کا وسیع تجربہ رکھتا تھا، اس لیے امریکہ سے چوہدری شیدے کو فوراً نئے پاکستان کا حکمران بنانے کا فرمان جاری ہوا۔ چوہدری شیدے نے قصبے کے سرکاری سکول میں، جس کو عارضی قومی اسمبلی کا درجہ دے دیا گیا تھا، اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور ایک تاریخ ساز تقریر کی جو سکول کے ہیڈ ماسڑ صاحب نے لکھی تھی۔ شیدے نے سب سے پہلے امریکہ کا شکریہ ادا کیا کہ پرانے پاکستان کی طرح نئے پاکستان میں بھی اس نے حکمران منتحب کرنے کی روایت جاری رکھی، اور امریکہ سے درخوست کی کہ فوراً ہمارے لیے ایک کروڑ ڈالر کی امداد کانگریس سے منظور کروائے تا کہ ہم اپنے بےگھر اور بےروزگار عوام کو دوبارہ سے چھت اور روٹی مہیا کر سکیں۔ اس کے بعد شیدے نے بھارت سے بدلہ لینے کے عزم کا اعلان کیا اور فرمایا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔
وزیراعظم شیدا صاحب نے ملک کے طول و عرض میں پھیلی تمام بچ جانے والی آبادی کو اپنے قصبے کے اردگرد آباد کرنے کا حکم دیا اور ڈونگا کو پاکستان کا نیا دارلحکومت بنانے کا اعلان کیا۔
تقریر کے بعد شیدے کی کابینہ نے بھی حلف اُٹھا لیا۔ شیدے کی دو سو رکنی کابینہ میں ڈونگا کے سرکاری سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب وزیر خارجہ مقرر ہوئے اور یہ واحد شخص تھے جن کی تقرری میرٹ پر اور خاندان سے باہر سے کی گئی تھی، سنا ہے اس کے لیے بھی امریکہ کی کاوشیں شامل تھیں، باقی کابینہ میں شیدے کی بیگم چوہدارنی کے پاس وزیرخزانہ، تیرہ بیٹوں کے پاس وزیر دفاع، وزیر تجارت وزیر زراعت، وزیر پانی و بجلی وغیرہ کے عہدے تھے۔ چوہدری شیدا کی باقی بیگمات اور ان کے بچوں اور ان کے گھر والوں کو بھی وزارتیں ملیں حتیٰ کے گھر کے وفادار اور چاپلوس ملازموں کو بھی وزارتیں دی گئیں۔ امریکہ سے امداد کی پہلی قسط سے شاندار قسم کا وزیر اعظم ہائوس، قومی اسمبلی اور گورنر ہائوس بنائے گئے، بیش قیمت گاڑیاں خریدی گئیں، حالانکہ ماسٹر صاحب نے کئی دفعہ دبے لفظوں میں کہا کہ نئے پاکستان میں کوئی بھی ہائی سکول کالج یا بڑا ہسپتال نہیں ہے لیکن ماسٹر صاحب کو ڈانٹ ڈپٹ کے چپ کروا دیا گیا۔ ڈونگا میں ایک سپریم کورٹ بھی قائم کی گئی اور سفارت خانوں کے لیے بھی ایک علاقہ مختص کیا گیا جہاں تقریباً ہر ملک نے اپنے فالتو قسم کے لوگوں کو سفیر بنا کے بھیجا۔ امریکن سفیر جو کہ ایک سابقہ ریسلر تھا، آئے دن وزیراعظم سے ملاقات کے لیے آتا، دونوں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے، شراب پیتے اور مجرے دیکھتے۔ جاتے ہوئے امریکی سفیر شیدے سے مختلف پیپرز پر دستخط کروا لیتا جو کہ دراصل باقی ماندہ پاکستان کے قدرتی وسائل پر قبضے کی سازش تھی۔ شیدا تمام امریکی اور یورپی امداد کو اپنی اور اپنے خاندان کی عیاشیوں میں اڑا دیتا اور ملک چلانے کے لیے پیسے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے ادھار لینے پڑتے۔ ملک کے سٹیٹ بنک کی گورنر چوہدری کی بیٹی تھی، یہ دنیا میں واحد قومی بنک کی سربراہ تھی جو نوٹوں پر دستخط کی جگہ انگوٹھا لگاتی تھی، نوٹوں پر چوہدری اور اس کے خاندان کے لوگوں کی تصویریں چھاپی جاتی تھیں۔ نئے پاکستان کا سٹیٹ بنک دھڑا دھڑ نوٹ چھاپ رہا تھا۔ نیا آئین بھی مکمل کیا جا رہا تھا جس کے بنیادی نکات میں ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بدل کر شیدے کا پاکستان رکھ دیا گیا تھا۔ شیدے کے خاندان کو ہی نئے پاکستان کا بانی اور تاوقتیکہ کے قیامت کے دن کا سورج طلوع ہو جائے ملک کا حکمران رہنے کا حقدار تسلیم کیا گیا تھا۔ وزیر خارجہ ماسٹر جی اس ساری صورتحال سے بہت تنگ تھے اور حکمران خاندان ماسٹر جی سے تنگ تھا۔ ایک دن ماسٹر جی کے دل میں جانے کیا سمائی کہ وہ امریکی سفیر کے پاس جا پہنچے جو اس وقت مقامی چرس کے نشے میں مدہوش تھا، ماسٹر صاحب نے سفیر صاحب سے ہیلو ہائے کی تو سفیر نے پنجابی میں پوچھا۔ ہاں ماسٹرا کی حال تیرا۔ بچایاں دا کی حال اے۔ یار توں سرکاری گڈی کیوں نہیں لیندا۔سائیکل تے لگا پھرنا ایں؟
ماسٹر صاحب تھوڑے بدمزہ ہوئے پھر اپنا تھیلا اور کرتا سنبھال کے بیٹھ گئے اور عنیک اتار کے بولے، عالی جاہ! آج نئے پاکستان کی آبادی ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، پورے ملک میں کوئی ڈھنگ کا ہسپتال ہے نہ سکول، کالج، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، سرکاری محکمے کرپشن اور اقربا پروری سے بےحال ہیں، امن و امان غارت ہو چکا ہے۔ وزیراعظم شیدا صاحب جنھیں بادشاہ سلامت کہنا زیادہ مناسب ہوگا، جو نیا آئین تیار کروا رہے ہیں وہ آئین کم اور لطیفوں کی کتاب زیادہ لگتی ہے، اس کی کچھ شقیں تو قطعاً ناقابل قبول ہیں۔ دوسری طرف بھارت اسلحے کا انبار لگا رہا ہے اور مجبوراً ہمیں بھی اپنے بجٹ کا زیادہ حصہ دفاع پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ چلو ہم نے تو تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا مگر کیا عالمی برادری نے بھی کچھ نہیں سیکھا؟ خدارا چوہدری شیدا صاحب کو سمجھائیے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہنگامی اقدامات کریں۔ اگر وہ آپ کی بات نہیں سمجھتے تو ملک میں جمہوریت رائج کرنے کے لیے ہمارا ساتھ دیں۔
امریکی سفیر چرس والا سگریٹ پیتا رہا اور اپنی ریچھ جیسی ٹانگیں کھجاتا رہا۔ مایوس ہو کر ماسڑ صاحب وہاں سے اٹھے اور جی ایچ کیو کا قصد کیا لیکن ابھی راستے میں ہی تھے کہ کسی درندہ صفت نے ماسٹر صاحب کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ماسڑ صاحب کو امریکہ نے یا چوہدری نے مروایا ہوگا حالانکہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ ماسٹر صاحب اس دن گولی کھا کے نہ مرتے تو کسی گاڑی کے نیچے آ کر مر جاتے پر مرتے ضرور اور بغیر ثبوت کے کسی پر الزام تراشی نہایت بری روایت ہے۔ خیر رنگ لاتا ہے شہیدوں کا لہو۔ ایک دن آرمی چیف اور چوہدری شیدے کی تو تو میں میں ہوئی تو آرمی چیف نے شیدا کا تختہ الٹ دیا اور نئے پاکستان کا بڑا صاحب اول کہلایا۔ چوہدری کے خاندان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس کا چیف جسٹس اچھو چوہدری شیدا کا سابقہ منشی تھا۔ چیف جسٹس اچھو نے موقع کی نزاکت کو سجھتے ہوئے نظریہ ضرورت کے فلسفے کو جواز بخشا اور آرمی چیف کے فیصلے کو راست اقدام قرار دیا۔ اور بدلے میں ڈونگہ سپیاں والے میں پلاٹ، مدت ملازمت میں توسیع اور ڈھیر ساری شاباش پائی۔ شیدے کا سارا خاندان گرفتار ہوا اور نیب کے سامنے پیش کیا گیا۔ تحقیق و تفتیش کے بعد ملکی مجرموں کو قرار واقعی سزا کی سفارشات پیش کی گئیں لیکن شیدا بڑے صاحب سے کمپرومائز کر کے اپنے خاندان اور جمع پونجی کے صندوق لے کے کسی خیر خواہ ملک میں جا بسا۔
پڑوسی بھارت میں بھی صورتحال یہاں سے کچھ مختلف نہ تھی، بس ناموں کا فرق تھا، وہاں کوئی ٹھاکر اور اس کا خاندان بھارت اور اس کی عوام کی خدمت میں مصروف تھا۔
دوستو! وقت گزرتا رہا اور دو ہزار نوے آ پہنچا۔ دنیا اتنی ترقی کر گئی ہے کہ آج کے دور میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ بیشتر ترقی یافتہ قومیں مریخ اور دوسرے سیاروں پر جا بسی ہیں اور تیسری دنیا کو کنٹرول کرنے کے لیے وہ انسان نما روبوٹ بنا کے چھوڑ گئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی آبادی بالترتیب ایک اور پانچ کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ آج کل پھر ان ملکوں کے آپسی تعلقات سخت کشیدہ اور سرحدوں پر جھڑپیں جاری ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نے جو شیدے کے پوتے کا پوتا ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 133 ویں اجلاس میں جو کہ مریخ میں ہوا ہے، تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہائیڈروجن بم مار کے بھارت کو نیست و نابود کر دیں گے، اگر اس نے شیدے کے پاکستان کو میلی نظر سے دیکھا تو۔ بھارت کی ہمارے ملک میں کی جانے والی دہشت گردی کے ثبوت اقوام عالم کے سامنے پیش کریں گے. دنیا ہمیں بھی مریخ پر بسنے کے برابر مواقع فراہم کرے. علی ہذالقیاس
تبصرہ لکھیے