ہوم << استاد ہارون الرشید - عامر خاکوانی

استاد ہارون الرشید - عامر خاکوانی

11866265_1085617161465765_1795389247132538024_n ممتاز مفتی نے ایک بار لکھا تھا، انسان کی ذات کے اندر شالامار باغ ہوتا ہے ، کہیں بارہ دری اور سبزہ زار تو کہیں پر اندھیری کوٹھڑی اور جھاڑ جھنکار‘‘ منفرد کالم نگار ہارون الرشید کی شخصیت البتہ اس اعتبار سے منفرد ہے کہ انھوں نے اپنے اندر کے جھاڑجھنکار بڑی حد تک صاف کر لیے ۔ان کے شالامار میں کہیں صوفیوں کی خانقاہ تو کہیں داستان گوئی کی محفلیں، کسی کونے میں بے جگر سورما شمشیر زنی میں مصروف توکہیں شاعروں کے نغمے گونج رہے ہیں۔ یہ مختلف پہلو اور پرتیں ان کی گفتگو اور تحریر میں جھلکتے رہتے ہیں۔ ہارون الرشید قدیم عرب میں پیدا ہوتے تو ان کا شمار بڑے کلاسیکی عرب شعرا میں ہوتا، ایکلیز کے زمانے میں ہوتے تو وہ ٹرائے کے لازوال معرکے میں حصہ لیتے اور ان کی لکھی رزمیہ داستانیں اوڈیسس اور کے ساتھی گاتے پھرتے ، رومیوں میں ہوتے تو قرطاجنی سپہ سالار ہینی بال کے حملوں کی روداد رقم کرتے۔ داغستان میں ہوتے تو امام شامل کے ساتھیوں میں ہوتے۔ نقشبندیہ سلسلے کے عالی قدر صوفی اور سالار امام شامل جن کے شاگرد حاجی مراد کا قصہ تاریخ انسانی کے سب سے بڑے فکشن رائٹر ٹالسٹائی نے رقم کیا۔ ہر عہد میں ہارون الرشید کا تعلق جنگجوئوں اور صوفیوں سے لازمی ہوتا کہ یہ ان کے خمیر کا حصہ ہے۔ ان کے ممدوح ہمیشہ وہ سالار رہے جن کے آہنی بدن میں شاعر کی رومانویت اور صوفی کا گداز رچے بسے ہوں۔ سوال تو یہ ہے کہ وہ کسی اور عہد میں پیدا کیوں ہوتے ؟… تقدیر نے انھیں برصغیر کے اس حرماں نصیب خطے میں ایک خاص تناظر کے ساتھ پیدا کیا اور قلم ہاتھ میں تھمایا۔حوصلوں کی گرتی فصیلوں کو استوار کرنا اور شکستہ دلوں میں نئی روح پھونکنا ان کا مقسوم ٹھہرا … اور وہ یہ کام بڑی ہنرمندی سے کر رہے ہیں۔ان کی زندگی کے چار عشرے صحافت کی وادی خارزار میں گزرے ۔ رپورٹنگ سے ابتدا کی، پھر نیوزروم، میگزین اور ایڈیٹوریل سب شعبوں میں کام کیا اور اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ ان کا شمار اردو کے منفرد کالم نگاروں میں ہوتا ہے، ایسا سٹائلسٹ کالم نگار جس کی نقل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
11953270_881729905240801_1186134301142248371_n کلاسیکی عربی لٹریچر اور تاریخ کی سبق آموز داستانوں سے مرصع نثر لکھنے والے ہارون الرشید کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے ۔ وہ خود کہتے ہیں،’’ اخبارنویس برادری نے تین بار مجھے مار کر میری قبر بنادی تھی۔یہ مطمئن تھے کہ اب تو ہارون الرشید کی قبر پر گھاس بھی اگ آئی ہے، صرف میں جانتا تھا کہ میں ابھی زندہ ہوں اور ایک دن مجھے لوٹنا ہے ۔‘‘ اسی کی دہائی کے اواخر میں پہلی بار وہ منظر عام سے غائب ہوئے ، مگر پھر فاتح جیسی بیسٹ سیلر اور دھماکہ خیز کتاب کے ساتھ واپس آئے۔ پھر نوے کی دہائی میں ایسا ہوا۔ وہ اپنے آبائی شہر واپس چلے گئے اور وہاں کاروبار شروع کر دیا۔کچھ عرصے کے بعد ہفتہ میں ایک کالم لکھنا شروع کیا۔ اس سے انہیں بریک تھرو مل گیا۔ ان کا تیسرا فیز کچھ سال پہلے شروع ہوا جب انہوں نے خاصی طویل خاموشی کے بعد پہلے نوائے وقت میں کالم لکھنا شروع کیا، پھر ایکسپریس، جنگ اور آج کل دنیا میں کالم نگاری کر رہے ہیں۔11899759_882328558514269_1168362891835752148_n
تاریخ پیدائش‘ گیارہ دسمبر 1952ء‘ لوئر مڈل کلاس خاندان سے تعلق‘ آبائی علاقہ کپورتھلہ‘ جالندھر۔ 47ء میں والد ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ چک 42 جنوبی سرگودھا میں چند ایکڑ زمین الاٹ ہوئی۔ والد عبدالعزیز صاحب پہلی جنگ عظیم کے فوجی رہے‘ وہ ایک ڈسپلنڈ شخص تھے۔ اہلحدیث مسلک سے تعلق کے باوجود وہ مولانا احمد علی لاہوری سے بیعت تھے۔ انھیں کسی واقعہ کی جزئیات پوری صحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کرنے میں ملکہ حاصل تھا۔ ہارون الرشید کے بقول مجھے کہانی میں دلچسپی اور جزئیات نگاری والد سے ورثے میں ملی۔ ماسٹر رمضان کی توجہ سے ابتدائی تعلیم اچھی ہوئی۔ تیسری جماعت میں ہر کتاب پڑھ لیتے۔ بتاتے ہیں کہ کزنز وغیرہ ایف اے کی کتاب پڑھنے کو کہتے تو میں فر فر سنا دیتا۔ گائوں کے پہلے لڑکے تھے جنھیں پانچویں میں وظیفہ ملا۔ 1963ء میں تعلیم کی غرض سے ہارون الرشید کو ان کے ماموں ڈاکٹر نذیر مسلم کے پاس رحیم یار خان بھیج دیا گیا۔ ڈاکٹر نذیر شہر کی ایک قدآور شخصیت تھے۔ وہ جماعت اسلامی میں رہے تھے۔ مولانا مودودی اور امین احسن اصلاحی سے دوستی تھی مگر بعد میں انھوں نے جماعت چھوڑ دی۔ ہارون الرشید نے تعمیر ملت ہائی سکول سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج ( اب خواجہ فرید کالج) سے انٹر کیا۔ کہتے ہیں کہ تعمیرملت سکول کے اساتذہ اعلیٰ معیار کے تھے۔ انیس احمد اعظمی سے انھوں نے اردو پڑھی جو ایک لیجنڈری استاد تھے۔کالج میں اندازہ ہوا کہ اساتذہ سکول کے معیار کے نہیں تو کلاس میں جانا چھوڑ دیا۔ پرائیویٹ ایف اے کا امتحان دیا۔ بڑے بھائی ناراض ہوئے تو نوجوان ہارون الرشید نے کہا کہ میں صحافی بننا چاہتا ہوں۔ اس پر وہ خفا ہو کر بولے ’’ تو پھر لاہور چلے جائو‘‘ یہ ان سے پچاس روپے لے کر لاہور چل پڑے۔ آدھے پیسے ریل کے کرائے میں لگ گئے۔ اسٹیشن سے سیدھے روزنامہ وفاق پہنچے جس کے مدیر جمیل اطہر تھے۔ انھوں نے کچھ خبروں کا ترجمہ کرایا اور اطمینان ہو جانے پر ڈیڑھ سو روپے ماہوار کی ملازمت دے دی۔ یوں ان کا صحافتی کیرئر شروع ہوگیا۔ ملازمت نہ ملتی تو واپسی کا کرایہ بھی نہیں تھا۔
(ہارون الرشید صاحب کو ہم اپنے استادوں میں مانتے ہیں، ان سے بہت کچھ سیکھا، ان کی شفقت، رہنمائی اور دعائیں ہمارے ساتھ رہی ہیں۔ ہارون صاحب کا ایک تفصیلی انٹرویو میں نے کیا تھا، وقت کے پلٹتے اوراق بھی جس کو دھندلا نہیں سکے۔ قارئین دلیل کے لیے اس انٹرویو کو تین چار اقساط میں شیئر کر رہا ہوں۔ اس پہلی قسط میں میرے تاثرات اور ان کا پروفائل ہے۔ اگلی اقساط میں ان کی پروفیسر احمد رفیق اختر، عمران خان، ان کی مشہور اور کسی حد تک متنازع کتاب فاتح، فکری شخصیات جنھوں نے انھیں متاثر کیا اور انقلاب و انقلابیوں کے حوالے سے ہارون صاحب کی آرا پیش کی جائیں گی۔ اپنے مخصوص بے لاگ انداز میں انہوں نے گفتگو کی اور فکر وسوچ کے نئے در وا کیے۔)

Comments

Avatar photo

محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی

Click here to post a comment

  • ماشاء اللہ سے کمال کی نثر لکھتے ہیں
    ہارون الرشید صاحب کی نثری عظمت کے سینبکڑوں لوگ قائل ہیں لیکن جب وہ کسی کی تعریف کرنے پر اتے ہیں تو اسمان سے قلابے ملاتے اور جب تذلیل کرنے میں اتے ہیں تو پورا کا پورا مکتبہ دیوبند اور ان کے چاہنے والوں کو بے تکی سناتے ہیں اور ناجائز الزامات دھرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس سے لامحالہ ان کے چاہنے والے اور پڑھنے والے دلبرداشتہ ہوکر دور ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں خود ان کا طویل عرصہ قاری رہا ہوں، اب بھی پڑھتا ہوں لیکن وہ مزہ نہیں اتا جب ان کی جانبداری پلس دوسروں کی کی جانے والی تذلیل کو دیکھتا ہوں تو،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دانشور کو دانش بکھیرنا چاہیے نہ کہ لاکھوں کی تذلیل و گالیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہر صورت شورش کاشمیری کے مستفید ہاروان الرشید اپنی نوعیت کے اعتبار سے پاکستان بھر کے کالم نگاروں میں ممتاز ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ان کی عمر لمبی کرے اور یوں لکھتے اور بولنے کی توفیق دے

  • بهت اعلی. ان کی صحبت میں نالائق بھی قابل بن کر نکلا. یه صحافت کے ابن تیمیه هیں. بس ایک هی نا قابل تلافی غلطی ان سے سرزد هوئی هے که انهوں نے جاوید چوهدری جیسے کو بھی لکھنا سکھا دیا.

  • […] پہلی قسط پڑھیں دوسری قسط پڑھیں کالم نگاری میں نے پہلا کالم 1970ء میں لکھا۔ ان دنوں وفاق میں رپورٹر تھا۔ بسنت کے موقع پر چھ بچے چھتوں سے گر کر زخمی ہوئے۔ میں انہیں دیکھنے گیا۔ واپس آ کر خبر لکھنی شروع کی تو کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ یہ تو کالم لکھ دیا ہے۔ وہ کالم جمیل اطہر صاحب نے چھاپ دیا۔ مولانا مودودی جماعت کی امارت سے سبکدوش ہوئے تو میں نے دوسراکالم لکھا۔ ان دنوں چھ ،آٹھ مہینے کے بعد ایسے کسی انسپائرنگ واقعہ پر میں کالم لکھ دیتا۔ مدتوں سمجھتا رہا کہ میں فطری رائٹر نہیں ہوں۔ کسی واقع سے انسپائریشن کے بغیر میرے لئے لکھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ 2001ء کے بعد آہستہ آہستہ اور پھر 2006ء میں یقین ہو گیا کہ اچھے برے سے قطع نظر، میں لکھ بہرحال سکتا ہوں۔ میں نے طویل عرصے تک بڑے بڑے کرب میں لکھا۔ مجھ میں شدت احساس بہت ہے۔ کئی بار لکھتے ہوئے میرے اوپر رقت طاری ہو جاتی۔ کالم کے فارمیٹ اور الفاظ کے مناسب ہونے کی بھی بڑی فکر رہتی ہے۔ میرے خیال میں کالم کا فارمیٹ پرفیکٹ ہونا چاہئے… کسی اچھے سلے سوٹ کی طرح۔ میں مدتوں منو بھائی سے متاثر رہا کہ وہ فارمیٹ سے انحراف نہیں کرتے۔ پہلے میں بڑے ہیجان اور دباؤ میں لکھا کرتا تھا۔ پروفیسر احمد رفیق سے ملنے کے بعد انکشاف ہوا کہ ہیجان اچھی چیز نہیں۔ بندے کونارمل لکھنا چاہئے۔ پروفیسر سے ملنے کے بعد احساس کی شدت تو باقی ہے مگر اس کی اذیت کم ہو گئی ۔آج کل تو بعض اوقات چالیس منٹ میں کالم لکھنا پڑ جاتا ہے۔ مشتاق یوسفی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کتنی دیر میں کالم لکھ لیتے ہو۔ میں نے جواب دیا تو وہ بڑے حیران ہوئے۔ میں نے کہا کہ ڈیڈلائن کا دباؤ آپ پر ہو تو آپ بھی اتنی دیر میں لکھ لیں گے۔ عالی رضوی میرے استادوں میں سے ہیں۔ ان سے سیکھا کہ کبھی ادنیٰ لفظ نہیں لکھنا چاہئے،اسی طرح بازار کی زبان اور بول چال کی زبان میں کیا فرق ہے؟میں نے ہمیشہ کالم لکھتے وقت یہ سوچا کہ میری ماں اسے پڑھ سکے۔ ایک آدھ بار ہی ایسا ہو گا کہ اپنا لکھا پڑھ کر شرمندگی ہوئی ۔ مختلف اخبارات میں کالم لکھے۔ ایک اخبار میں مہینوں میرے کالم نہیں چھپے مگر تنخواہ ملتی رہی۔ صحافت کے چالیس برسوں میں سب سے زیادہ آزادی ایکسپریس میں کالم لکھ کر محسوس ہوئی۔آج تک میرا ایک کالم بھی نہیں رکا۔ کالم نگاروں کے لئے شاید ایکسپریس پاکستان کا بہترین اخبار ہے۔ میں نے فاتح کیوں لکھی؟ جنرل اختر عبدالرحمن پر لکھی کتاب ’’فاتح‘‘ میری زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے۔ دراصل ان دنوں میں اخبار نویسی سے اکتا گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ مغربی رائٹروں کی طرح چند سال کتابیں لکھ کر کماؤں۔ وہاں تو رائٹر کئی ملین ڈالر کما لیتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ چلو مناسب گزار اوقات ہو جائے۔ اختر عبدالرحمن پر کتاب لکھنے کا بنیادی تھیم یہ تھا کہ ایک یتیم بچے کو ٹریبیوٹ پیش کیا جائے جس نے اچھی تربیت اور محنت سے ترقی کی اعلیٰ ترین منزلیں طے کیں۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ پوری کتاب ٹریبیوٹ میں لکھ دی۔ اگر جنرل مرحوم کی زندگی کے کمزور حصوں پر لکھ دیتا تو خفت نہ اٹھانی پڑتی۔ یہ قطعاً غلط ہے کہ ہمایوں اختر یا ان کے بھائیوں نے مجھے یہ کتاب لکھنے کے پیسے دیئے۔ وہ تو اس کتاب کے لئے راضی ہی نہیں تھے۔ میں نے انہیں اس پر قائل کیا۔ جب میں نے کتاب لکھی تو یہ خیال تھا کہ ہزار دو ہزار بک جائے گی۔ ویسے میرا ہدف چار ہزار کا تھا کہ اس طرح 90 ہزار کے قریب رائلٹی مل جائے گی۔ ان دنوں سینئر اخبار نویس کی تنخواہ بھی سات آٹھ ہزار تھی۔ میں نے سوچا رائلٹی سے ایک سال گزار لوں گا۔ پھرکسی اور کتاب کا سوچا جائے گا۔ اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ ’’فاتح‘‘ ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہو گی۔ میں نے اختر عبدالرحمن کے بیٹوں سے وعدہ کیا کہ کتاب کی نصف رائلٹی انہیں دوں گا۔ میرا ان سے معاہدہ ہوا کہ وہ مجھے ریسرچ کی خاطر کئے جانے والے سفر وغیرہ کا خرچ دیں گے اور چونکہ میں نوکری چھوڑ کر اس پر کام کر رہا تھا اس لئے انہوں نے بارہ ہزار روپے مہینہ دینے کی پیش کش بھی کی ۔بعد میں اس کتاب نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ چند مہینوں میں 35 ہزار کاپیاں فروخت ہو گئیں۔ مجھے پانچ لاکھ رائلٹی ملی۔ میں نے غازی خان کو نصف رائلٹی دی مگر اس نے انکار کر دیا۔ میں نے بحث کی مگر ناکام رہا۔ غالباً پیسے کی محبت بھی غالب آ گئی ہو گی۔ اللہ جانتا ہے کہ مجھے دل سے خوشی نہیں ہوئی تھی۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ ان بھائیوں سے دور ہی رہوں، اس پر عمل پیرا رہا۔ مجھے خاموش مجاہد ترجمہ کرنے کے لئے بھی کہا گیا مگر میں نے انکار کر دیا۔ فاتح برصغیر کی سب سے زیادہ چھپنے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس پر معروف لبرل جریدے نیوز لائن نے تین صفحے کا تفصیلی تبصرہ شائع کیا ہے۔ میں نے سوچا ہے کہ کبھی ممکن ہوا تو اسے دوبارہ لکھوںگا۔ اسی بار اس میں جنرل اختر کے کمزور حصے بھی شائع کروں گا تاکہ عدم توازن ختم ہو جائے۔ ویسے اس پر Regret نہیں کرتا۔ غلطی سے سبق سیکھنا چاہئے، جو میں نے سیکھا ہے۔ یہاں پر لوگ آمروں کے قصے لکھتے اور اس پر اکڑ کر چلتے ہیں۔ میں نے تو ایک مرحوم جنرل پر کتاب لکھی۔ […]

  • ہارون صاحب صحافیوں کے لیے قابلِ تقلید ہیں ۔ انہوں نے اپنا مقام بنانے کے لیے بڑی محنت کی ہے ۔۔ صحافت کا پیشہ تو علم کا متقاضی ہے مگر افسوس اب صرف معلومات کو ہی علم سمجھا جانے لگا ہے ہارون صاحب ایسے صاحبِ مطالعہ صحافی آج کل کے دور میں غنیمت ہیں۔