عزت مآب جناب عزیز ابن الحسن صاحب نے ایک صاحبِ علم کی تحریر پر میری رائے مانگی ہے۔ چند نکات پیش ِخدمت ہیں:
1۔ یہ کہ قرآن کے قطعی الدلالہ ہونے کے لیے قرآن ہی کی آیات سے استدلال مصادرہ مطلوب کا مغالطہ ہے۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ جن آیات سے آپ قطعیت ثابت کررہے ہیں، کیا وہ بذات خود اس مفہوم میں قطعی ہیں کہ ان کا ایک ہی مفہوم ہو، وہی جو آپ لے رہے ہیں؟ امام رازی جب الفاظ کے بجائے عقلی برہان کی قطعیت کا دعوی کرتے ہیں تو وہ اسی پہلو سے بات کر رہے ہیں لیکن مولانا اصلاحی اور جناب غامدی نے قرآن کے الفاظ کے ساتھ امت کی ”جذباتی وابستگی“ کو بنیاد بنا کر، نہ کہ کسی عقلی دلیل پر، امام رازی کے مؤقف کو کمزور قرار دیا ہے اور بعد کے اصحابِ علم نے بھی ان کی پیروی میں امام رازی کی بات کو بہت ہلکا لیا ہے۔ بےشک امام رازی کی بات مسترد ہی کر دیں لیکن ایک دفعہ اسے توجہ کا مستحق ضرور جانیں۔
2۔ رضاعتِ کبیر کے جس مسئلے کے متعلق صاحبِ تحریر فرماتے ہیں کہ اس طرح کے مسائل میں خبرِ واحد کی وجہ سے قرآن کے الفاظ کی قطعیت کو ظنی بنادیا جاتا ہے، کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس مسئلے میں عصر حاضر میں قرآن کی قطعیت کے سب سے بڑے علم بردار جناب غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ رضاعتِ کبیر کی یہ روایات صحیح اور قابلِ قبول ہیں اور یہ کہ ان سے قرآن کی قطعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا؟ (کم ازکم 1982ء کے شائع شدہ ”میزان، حصۂ اول“ میں تو جناب غامدی کا یہی موقف تھا۔ بعدمیں موقف تبدیل ہوا تو معذرت) بہ الفاظِ دیگر، کم از کم یہ مسئلہ تو قرآن کے قطعی الدلالہ ہونے کے مؤقف کا محرک نہیں ہے ۔
3 ۔ سب سے دل چسپ بات یہ ملی کہ دینی و شرعی مصطلحات ، جیسے الصلاۃ ، الزکاۃ اور الربا ، ظنی الدلالہ نہیں بلکہ ”مجمَل“ ہیں اور سنت نے ان کی تبیین کردی ہے۔ یہاں کئی امور قابلِ غور ہیں :
اولاً یہ کہ غامدی صاحب، جن کے موقف پر یہ مباحثہ چل رہاہے، سنت اور حدیث میں فرق کرتے ہیں اور چاہے الصلاۃ اور الزکاۃ کے مفاہیم وہ ”امت کے متوارث عمل“ سے ہی، جسے وہ سنت کا نام دیتے ہیں، اخذ کریں ، کم از کم الربا کا مفہوم وہ حدیث سے متعین نہیں کرتے۔ اسی طرح کئی دیگر مصطلحات، یا مجمل الفاظ، کا مفہوم وہ حدیث کے بجائے لغت سے متعین کرتے ہیں اور اسی کو قرآن کے قطعی الدلالہ ہونے کا لازمی تقاضا گردانتے ہیں، اور یہی تو اصل محلِ نزاع ہے۔
ثانیاً یہ کہ ”ظنی الدلالہ“ اور ”مجمل“ میں فرق کیا ہے ؟ کیا غامدی صاحب جس طرح الفاظ کو قطعی الدلالہ اور ظنی الدلالہ (بلیک اینڈ وہائٹ) میں تقسیم کرتے ہیں اس کا لازمی مطلب یہ نہیں مجمل کو ظنی الدلالہ ہی سمجھیں کیوں کہ اس کا مفہوم تبیین سے قبل واضح نہیں ہوتا؟ مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح غامدی صاحب کے مکتب میں قطعی الدلالہ کا مفہوم ہی ابہام کا شکار ہے (اور جناب زاہد مغل صاحب اس کی خوب وضاحت کرچکے ہیں ) اسی طرح ان کے ہاں ظنی الدلالہ بھی ایک نہایت مبہم تصور ہے اور ان دونوں تصورات کے core سے ذرا penumbra کی طرف جائیں ، ”grey area“ میں جائیں، تو قطعی اور ظنی دونوں ہی ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔
ثالثاً ( اور یہ سب سے اہم مسئلہ ہے ) یہ کہ فقہائے کرام لفظ کو قطعی الدلالہ اور ظنی الدلالہ کے بجائے ”واضح الدلالہ“ اور ”خفی الدلالہ“ میں اور پھر ان میں سے ہر ایک کو ذیلی چار قسموں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس spectrum کی ایک انتہا سے دوسری انتہا تک جائیں تو خفاء کی انتہائی شکل (متشابہ) سے وضوح کی انتہائی قسم (محکم) پر پہنچ جاتے ہیں۔ درمیان میں خفاء اور وضوح کے بیچ کئی شیڈز آتے ہیں۔ واضح الدلالہ کی آخری دو قسموں، محکم اور، مفسرمیں تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی (محکم میں نسخ کی بھی گنجائش نہیں ہوتی)؛ اس لیے یہی دو قسمیں اس مفہوم میں "قطعی الدلالہ“ ہوسکتی ہیں جو مفہوم غامدی صاحب قطعی الدلالہ کا لے رہے ہیں ۔ مفسر سے نیچے واضح الدلالہ کی دو قسمیں (نص اور ظاہر) بھی فقہائے کرام کے نزدیک ”قطعی الدلالہ“ نہیں ہیں، خواہ وہ نسبتاً واضح الدلالہ ہوں۔ پھر ظاہر سے نیچے تو خفی الدلالہ کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں سب سے پہلے خفی اور پھر مشکل کے مدارج آتے ہیں جن کا خفاء لغوی تحقیق سے دور کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد ہی مجمل کی باری آتی ہے جس کا خفاء لغت سے دور نہیں کیا جاسکتا بلکہ شارع کی تبیین سے ہی دور ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اندازہ لگائیں تو فقہائے کرام جسے مجمل کہتے ہیں وہ غامدی صاحب کے ”ظنی الدلالہ“ کی بھی آخری حدود میں ہے کیوں کہ اس کا ”واحد مفہوم“ لغوی تحقیق سے معلوم ہی نہیں کیا جاسکتا۔
4۔ صاحبِ تحریر مزید فرماتے ہیں کہ ”اجتہادی دلالات کے نتیجے میں حاصل ہونے والا حکم منصوص کی طرح نہیں ہوتا بلکہ ظنی ہوتا ہے۔“ عرض یہ ہے کہ اس عبارت میں لفظ ”منصوص“ ظنی الدلالہ ہے کیوں کہ یہ ”محتمل الوجوہ“ ہے ۔ تبیین اس اجمال کی یہ ہے کہ غامدی صاحب کے حلقے کے ہمارے کرم فرما ہر حکم کو جو قرآن کے الفاظ میں موجود ہو ”منصوص“ مان لیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جب قرآن کی آیت کو ”نص“ کہا جاتا ہے تو اس کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور جب”ظاہر“، ”نص“، ”مفسر“ اور ”محکم“ کی تقسیم کی جاتی ہے تو وہاں ”نص“ سے مراد کچھ اور ہوتی ہے۔ جب قرآن کی آیت یا کسی حدیث کو ”نص“ کہا جاتا ہے تو یہاں نص انگریزی لفظ text کے مفہوم میں بولا جاتا ہے۔ اس کے برعکس لیکن وضوح اور خفاء کے لحاظ سے جب ظاہر اور نص میں فرق کیا جاتا ہے تو ظاہر لفظ کے apparent مفہوم کے لیے بولا جاتا ہے جو وضوح کا پہلا درجہ ہے لیکن اسے قطعیت نہیں کہا جاسکتا؛ نص اس کے بعد کا درجہ ہے جب اس ظاہری مفہوم کے ساتھ ”سیاق“ کی دلالت بھی شامل ہوجائے۔ (سیاق میں کیا کچھ داخل ہے، یہ ایک الگ تفصیلی بحث ہے )۔
مثال عام طور پر یہ دی جاتی ہے کہ احل اللہ البیع و حرم الربوٰ والی آیت بیع کی حلت اور ربا کی حرمت میں ظاہر ہے لیکن بیع اور ربا کے درمیان فرق میں نص ہے۔ ایک اور مثال یہ دی جاتی ہے کہ سورۃ النسآء میں ان عورتوں کی تفصیل دینے کے بعد جن سے نکاح حرام ہے، فرمایا گیا:[pullquote] و احل لکم ما ورآء ذلکم۔[/pullquote]
دوسری طرف سورۃ الاحزاب میں امہات المؤمنین کے ساتھ نکاح کی حرمت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: [pullquote]و لا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا۔[/pullquote]
اب سورۃ النسآء کی آیت کو ظاہر اور سورۃ الاحزاب کی آیت کو نص کہا جاتا ہے۔ نیز چوں کہ یہاں ابداً کا لفظ آیا ہے جس سے تابید ثابت ہوتی ہے تو یہ نص محکم بھی بن گئی اور قطعیت کے آخری درجےمیں پہنچ گئی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کے حلقے میں یہ تمام احکام ”قطعی الدلالہ“ ہیں اور ہمارے یہ کرم فرما ان کے درمیان مدارج میں فرق نہیں کرتے اور ان سب کو ”منصوص“ مانتے ہیں، حال آں کہ جب تفصیلی بحث میں جاتے ہیں تو مانتے ہیں کہ یہاں کوئی تعارض نہیں ہے اور اس حکم کا محل یہ ہے اور اس کا یہ ہے ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرح وہ تناقض میں مبتلا ہو رہے ہیں کیوں کہ اگر دونوں احکام قطعی ہیں تو پھر ان کے درمیان تعارض سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر سورۃ النسآء کی آیت میں مذکور خواتین کےسوا سبھی خواتین سے نکاح قطعی طور پر جائز ہے اور امہات المؤمنین کے ساتھ نکاح قطعی طور پر حرام ہے تو ان دو احکام میں تعارض تو واقع ہوا۔ اب یا تو سورۃ الاحزاب کی آیت کو سورۃ النسآء کی آیت کا ”ناسخ“ ماننا پڑے گا، یا یہ ماننا پڑے گا کہ سورۃ النسآء کی آیت ”بظاہر“ عام (general) ہے لیکن درحقیقت عام نہیں ہے۔ فقہائے کرام نے یہ آخری صورت مانی ہے اور یہ ماننے کی صورت میں لازماً یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ سورۃ النسآء کی مذکورہ آیت کا ”ظاہری مفہوم“ تو یہی ہے کہ ان مذکورہ خواتین کے سوا کسی بھی خاتون کے ساتھ نکاح جائز ہے لیکن یہ ظاہری مفہوم قطعی نہیں ہے۔ اس کے مفہوم کی صحیح نوعیت معلوم کرنے کے لیے دوسری نصوص، آیات و احادیث، اور اسلامی قانون کے اصول و قواعد کی طرف جانا پڑے گا۔ یہی مفہوم ہے اس آیت کے ظنی الدلالہ قرار دینے کا!
5۔ اس لیے مسئلہ محض چند ”الفاظ“ ہی کا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ کئی آیات کے صحیح اور قطعی مفہوم کا تعین محض ان آیات کے الفاظ سے نہیں کیا جاسکتا۔
ھذا ما عندی ، و العلم عند اللہ ۔
تبصرہ لکھیے