جب سے ہوش سنبھالا ہے، ملک کے حالات دیکھ کر اکثر دل بہت کڑھتا ہے لیکن پھر ذہن میں آتا ہے کہ ہم اس صورتحال میں ایسا کیا کر سکتے ہیں جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو۔ بہت سے ایسے زخم ہیں جو کہ ناسور بن چکے ہیں، ان معاشرتی بیماریوں کا ایک بڑا سبب جہالت اور غربت ہے۔ جہالت اور غربت میں چولی دامن کا ساتھ ہے جہاں غربت ہوگی وہاں تعلیم کی کمی لازمی ہوگی. ذیل میں ایک معاشرتی بیماری کا ذکر ہے جو کہ آہستہ آہستہ جڑ پکڑ رہی ہے وہ ہے جہیز۔
پڑھے لکھے مہذب معاشرے میں جہیز کو ایک لعنت مانا جاتا ہے جبکہ عموما پاکستان میں یہ لعنت زور پکڑتی جا رہی ہے. ایک سروے کے مطابق صرف پاکستان میں 40 لاکھ لڑکیوں کے بالوں میں چاندی آجاتی ہے، اور شادی نہ ہونے کی بڑی وجہ جہیز ہے جس کا ہر کوئی متحمل نہیں ہوسکتا۔
دیہاتوں میں اکثر جب کوئی وڈیرا اپنی بیٹی کی شادی کرتا ہے تو سامان کی باقاعدہ نمائش کی جاتی ہے کہ ملک صاحب یا چوہدری صاحب نے اپنی بیٹی کو اتنا سونا دیا، اتنا سامان دیا تاکہ سسرال میں وہ ایک پرتعیش زندگی بسر کرسکے، کوئی اسے طعنہ نہ دے سکے لیکن اس کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سامان دیکھنے بہت سے غریب اور نادار لوگ بھی آتے ہیں جو کہ یہ سب کچھ برداشت نہیں کرسکتے. ان کی اتنی استطاعت نہیں ہوتی کہ وہ بھی یہ سب فراہم کر سکیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ان کے دل پر یہ دیکھ کر کیا گزرتی ہوگی، وہ ماں جو کپڑے سی کر یا لوگوں کے گھروں میں کام کرکے بچیوں کا جہیز بناتی ہے، وہ کیا سوچتی ہوگی، وہ باپ جو مزدوری کے لیے اڈے پر جاتا ہے مگر کوئی اسے کام پر نہیں لے کر جاتا، اور وہ دو وقت کے کھانے کو ترستے ہیں، وہ کیسے جہیز فراہم کرے گا؟ یہ ہماری معاشرتی بےحسی کی نشانی ہے جہاں فقط اپنا آپ دیکھا جاتا ہے، کسی سے ہمیں کیا لینا دینا۔
اسلام ہمیں دوسروں کی مدد کا درس دیتا ہے اور اس میں ظاہری نمود نمائش سختی سے منع ہے. مسلم شریف میں ہے، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ناے ابوذر! جب تم شوربےوالا سالن پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ کرلو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو.“
ہمیں اپنے پڑوسیوں سمیت گردو نواح پر بھی نظر رکھنی اور دوسروں کی مدد کرنی چاہیے تاکہ جہیز سمیت دیگر معاشرتی بگاڑ کا سدباب ہو سکے۔
تبصرہ لکھیے