ہوم << اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کیسے؟ عالیہ صابر

اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کیسے؟ عالیہ صابر

اصلاح معاشرہ ایک ایسا عنوان ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہوکر دائرہ کی شکل میں پھیلتا چلا جاتا ہے۔ ہر دائرہ پہلے دائرے سے بڑا اور زیادہ دور تک پھیلتا ہے۔ اصلاح معاشرہ کی شروعات ایک نقطہ یعنی فرد واحد سے شروع ہوتی ہے جیسے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر پھینکنے پر جو منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے کہ پانی کی وہ ہلچل جو پتھرکے آکر گرنے سے پیدا ہوتی ہے، ایک ہی جگہ پر نہیں رکتی بلکہ وہ دور تک پانی میں پھیل جاتی ہے، یا جیسے شمع روشن کریں تو نقطہ روشنی شمع تک محدود نہ رہ کر آس پاس کے ماحول کو بھی روشن کرتا ہے، یا پھول جب کھلتا ہے تو خوشبو پھول تک ہی نہیں سمٹی رہتی بلکہ چاروں طرف پھیل جاتی ہے۔ سورج نکلتا ہے تو اس کی روشنی کروڑوں میل دور زمین کو بھی روشن کردیتی ہے، یعنی اچھائی کی بنیاد جب بھی ڈالی جائے گی تووہ محدود نہ رہے گی بلکہ دور دور تک پھیلے گی۔
آج جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو کتنا غیر اصلاحی غیر اخلاقی ماحول نظر آتا ہے. ہر طرف برائی، بد اخلاقی، بد عملی، بد عقیدگی کی تاریکی ہے تو کیا اب صرف معاشرے کی حالت زار پر آنسو بہا کر یا اسے برا بھلا کہہ کر کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ نہیں، تو پھر کیا اسی معاشرے کے رنگ میں رنگ کر سکون حاصل ہو سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر کریں کیا؟
جس طرح ایک قابل ڈاکٹر اپنے مریض کی بہت ساری بیماریوں کا حال سننے کے بعد ان کی جڑ کا پتہ لگا کر صرف اس کا علاج شروع کرتا ہے کہ باقی بیماریاں تو اس جڑ کے ٹھیک ہوتے ہی آسانی سے دور ہو جائیں گی۔ آج اس معاشرے میں پھیلی ان گنت بیماریوں کا سد باب بھی اسی طرح ہوگا، ا ن برائیوں کی جڑ معلوم کر کے اصلاح کی شروعات ہوگی۔
اب آخر اس کی جڑ کیا ہے؟ کہاں ہے؟ تو آپ لوگوں نے وہ قصہ تو پڑھا ہی ہوگا کہ ایک صاحب کچھ ضروری کام کر رہے تھے۔ ان کا 5 سالہ بچہ آکر انہیں ڈسٹرب کر رہا تھا تو انہوں نے سامنے پڑے اخبار میں سے دنیا کے نقشے کی تصویر لے کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بچے کو دیے اور کہا کہ جائو دنیا کا نقشہ جوڑ کر ٹھیک کرکے لائو۔ بچہ چلا گیا تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے سوچا کہ اب کافی دیر تک بچہ ان کو پریشان نہ کر سکے گا لیکن جب 5 منٹ بعد ہی وہ بچہ نقشہ ٹھیک بنا کر لے آیا تو ان کو بہت حیرت ہوئی اور انہوں نے پوچھا کہ بیٹا تم نے اتنی جلدی دنیا کا نقشہ ٹھیک کیسے کر دیا؟ بچے نے جواب دیا کہ جب آپ اخبار پھاڑ رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ نقشے کے پیچھے ایک آدمی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ بس میں نے آدمی کی تصویر ٹھیک کر دی تو دنیا کا نقشہ اپنے آپ ٹھیک ہوگیا۔ دیکھا آپ نے، آج بھی اگر آدمی کی اصلاح ہوجائے تو پوری دنیا کا نقشہ ٹھیک ہوجائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ آدمی کون ہو جس کی تصویر ٹھیک کی جائے۔ تو غور کریں کہ وہ شخص وہی ہوسکتا ہے جس پر آپ کو پورا پورا حق ہو، جس کا ہر معاملہ آپ طے کرسکیں، جس کو آپ اپنے اشارے پر چلا سکیں، جس کے پاس آپ کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو، جو آپ کی بات رد کرنے کی ہمت طاقت اور حوصلہ نہ رکھتا ہو۔
کیوں؟ بننے لگیں نہ دماغ میں ان لوگوں کی تصویریں جو اس معیار پر پورے اترتے ہوں، لیکن نہیں، ان میں سے کوئی بھی وہ شخص نہیں۔
تو پھر کون ؟ وہ شخص دراصل ہم میں سے ہر ایک کا اپنا نفس ہے کیونکہ نہ خود سے زیادہ زور کسی پر چل سکتا ہے، نہ خود سے زیادہ جانکاری کسی کے بارے میں ہوسکتی ہے اور نہ خود سے زیادہ زیر نگرانی کوئی اور رہ سکتا ہے۔ یعنی وہ شخص جس کی اصلاح پر دنیا کی اصلاح کا دارومدار ہے، وہ میں اور آپ خود ہیں۔
اچھا اب اس شخص کا علم ہو جانے کے بعد کہ جس کی اصلاح سب سے زیادہ ضروری اور اولین ہے، یہ پتہ لگانا ہوگا کہ اس اصلاح کی شروعات کی کہاں سے جائے؟
تو پھر واپس آجائیے، ٹھہرے ہوئے پانی کے منظر پر اور ماریے ایک کنکری اور دیکھیے ہلچل کو پھیلتے اور پھیلتے اور پھیلتے۔ ہلچل کا نقطہ ہے دل، اور بڑھتے ہوئے دائرے ہیں خواہشات، احساسات، جذبات، عزم اور پھر قولی اور عملی دائرے ہیں جو وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں، یعنی سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہے اور اصلاح کی شروعات کرنی ہے اپنے دل سے۔
اگر بہت معزز مہمان آرہے ہوں، ٹھہرانے کے لیے کمرہ کی ضرورت ہو، اور ایک کمرہ ایسا ہو لیکن کاٹھ کباڑ سے بھرا ہوا ہو، کو ڑا کرکٹ پھیلا ہوا ہو، جگہ جگہ مکڑی کے جالے لٹک رہے ہوں،گرد و غبار سے اٹا ہوا ہو تو کیا کریں گے؟ ایسے کمرے میں تو معزز مہمان کو ٹھہرا نہیں سکتے لہٰذا پہلے تو تمام کاٹھ کباڑ باہر جائے گا، پھر جھاڑ پونچھ شروع ہوگی، پھر صفائی پوری طرح مکمل ہوجانے کے بعد سجاوٹ کی باری آئے گی،گلدان میں پھول مہکیں گے، بستر پر صاف ستھری چادر اور تکیہ ہوگا، ضروریات کا باقی سامان سلیقے سے جگہ پر ہوگا۔ ان سب پر ایک نظر ڈال کر آپ اطمینان بھری سانس لیں گے اور مسکرا کر کہیں گے کہ اب کوئی فکر نہیں، جب چاہیں آجائیں معزز مہمان۔ اسی کو تو اصلاح کہتے ہیں، چلیے کمرے کی اصلاح تو ہوگئی۔ اب بالکل اسی طریقہ سے دل کی اصلاح کرنی ہوگی یعنی بغض، حسد، کینہ، نفرت، غصہ، انتقام، غیر اللہ پر بھروسہ، حاصل شدہ نعمتوں کی نا قدری، غیرحاصل نعمتوں پر دل کی تنگی، لالچ، بہتر سے بہتر کی خواہش، اونچے سے اونچا اٹھنے کی آرزو، تکبر، غرور، بداخلاقی، ذرا دیکھیے تو کتنا کوڑا کرکٹ جمع ہوگیا ہے اس دل میں، ہماری ہی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے۔
اور وہ معزز مہمان ہیں کون؟ جن کو اس دل میں جگہ دینی ہے ۔ وہ ہیں اللہ پر ایمان، اس پر بھروسہ، اس کی محبت، اس کو ہر حال میں راضی رکھنے کا خیال، اس زندگی کی ذمہ داری کا احساس۔ تو چلیے اب شروع ہوجائیے، کاٹھ کباڑ کو باہر نکالنے کے لیے۔ مگر ایک بات یاد رکھیے کہ کمرے سے کباڑ باہر کرنا تو آسان تھا لیکن دل سے نکالنا آسان نہیں ہوگا۔کیونکہ یہاں ایک آواز بار بار حوصلہ توڑے گی کہ ارے اسے نہ ہٹائو، یہ بہت بھاری سامان ہے، یا ارے یہ سامان تمہارا کیا بگاڑ رہا ہے؟ اسے پڑا رہنے دو، کبھی اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے، یا ارے یہ تو یادگار ہے اسے نہ ہٹائو۔ اس آواز پر کان نہ دھر کر اپنے کام میں لگا رہنا گویا دگنی محنت ہے۔ مگر آپ کو رکنا تھکنا نہیں ہے ورنہ مہمانو ں کو کہاں ٹھہرائیں گے لہٰذا ٰان کے لائق جگہ بنانے کے لیے تو ان تھک کوششیں کرنی ہی ہوں گی۔ چاہے محنت لگے چاہے وقت صرف ہو، یہ کام تو ہر حال میں پورا کرنا ہی ہے۔ اب سب سے پہلے تو غیر اللہ پر بھروسے کو نکال باہر کریں۔ اور یاد رکھیے اس کو ہٹاتے وقت وہ بہکانے والی آواز اور زیادہ تیز ہوجائے گی۔ بس سب سے پہلے اسی کو باہر کیجیے۔ یہی ہے وہ سب سے گندی چیز جس کی موجودگی میں آپ کے معزز مہمان دل میں داخل بھی نہ ہوں گے، یہی ہے لہٰذا اسے باہر نکال کر بہت دور پھینک آئیے۔ پھر باری ہے ان بھاری اور بھدی چیزوں کی جن کی موجودگی میں سجاوٹ ناممکن ہے یعنی ناشکری، لالچ، حرص، طمع، زیادہ سے زیادہ کی آرزو۔ یہ ہیں تو بھاری سامان تو ظاہر ہے کہ محنت بھی زیادہ لگے گی لیکن انہوں نے بہت جگہ گھیر لی ہے اور ان کی موجودگی بھی کراہیت دلاتی ہے کیونکہ ان کی رنگت پھیکی ہے، ان کا ڈیل ڈول بھدا ہے، ان کی شکل بد شکل ہے۔ انہیں تو محنت سے اٹھائیے اور بلندی سے نیچے پھینکیے کہ چور چور ہوجائیں۔ اب رہ گئیں وہ برے وقتوں کی یادیں، جھگڑوں کی یادگاریں، لڑائیوں کے قصے، حق تلفیوں کے صدیوں پرانے غم، تو یہ تو انتہائی خطرناک چیزیں ہیں کیونکہ ان میں جو دیمک لگی ہے، وہ دوسری تمام خوبصورت چیزوں کو بھی کھوکھلا کر دے گی۔ ان کو نکال کر پھینکیے ہی نہیں بلکہ جلا دیجیے کہ ان کی دیمک کے کیڑے تو اچھے وقتوں کی یادگاروں، محبت بھری یادوں کے لیے انتہائی مضر ہیں، یہ ان کو کبھی پنپنے نہیں دیں گے.
کوڑا ابھی بھی باقی ہے یعنی یہ تکبر، غرور، بداخلاقی، جھگڑالوپن جو یہاں وہاں پھیلا ہے اور صفائی کو مکمل بھی نہیں ہونے دیتا بلکہ پیروں کو زخمی بھی کرتا ہے، انہیں اٹھا کر پھینکیے۔ کوڑا تو ہٹ گیا اب مزید صفائی شروع کیجیے۔ سب سے پہلے دل کی زمین کو توبہ اور استغفار کے آنسوئوں سے دھو ڈالیے۔ دل کے شیشوں کو شکر گزاری اور نعمتوں کے اقرار سے صاف کیجیے۔ چمک اٹھیں گے اور کائینات کی اصل حقیقت سامنے آجائے گی۔ عاجزی اور انکساری کا بستر بچھائیے۔ بردباری کے پردے ڈالیے، تسبیحات کے پھول کھلائیے، اب اس ذکر الٰہی سے معطر اس روشن اور چمکدار دل میں اپنے معزز مہمانوں کا استقبال کیجیے یعنی اپنے رب کی پہچان کا اقرار۔ لاالہ الاللہ، اللہ کی محبت، اللہ پر توکل، اللہ کے ہر فیصلہ پر رضامندی۔ اس کو ہر حال میں راضی رکھنے کی کوشش کا عزم۔ دیکھیے مہمان دل میں اتر تو آئے ہیں لیکن خیال رہے کہ ذرا بھی شکایت کا موقع نہ ہو، طبیعت اور فطرت کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔
دل تو مہک گیا چمک گیا، پہلی گھاٹی تو پار ہو گئی۔ بھلا اب اس دل کے جذبات جب زبان پر آئیں تووہ کڑوے اور ناپسندیدہ کیسے ہوسکتے ہیں۔ ایسے حسین دل والے انسان کی زبان سے جو بات بھی نکلے گی وہ پاک اور شیریں ہونے کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتی ہے کیا؟ پھر ایسے پاکیزہ کلام والی زبان رکھنے والے کا عمل کتنا عمدہ کتنا قابل رشک ہوگا۔کیونکہ دلی جذبات ہی تو زبان سے کلام کی صورت میں نکلتے اور زبان سے نکلے الفاظ ہی تو عملی شکل اختیار کرتے ہیں، یعنی دل پاکیزہ تو قول و عمل دونوں پاکیزہ۔ دل گندہ تو قول اور عمل دونوں گندے۔ زبان سے نکلنے والی ہر بات یا تو سامنے والے کا دل موہ لیتی یا دکھا دیتی ہے۔ ذرا رک کر سوچیں کہ ہم اپنے لیے کیا پسند کرتے ہیں کیونکہ پیارے نبی ﷺ نے ہم کو ہدایت کی ہے کہ دوسروں کے لیے وہی پسند کرو، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ کیا یہ کہ کوئی ہمیں دیکھ کر منہ بنائے یا ہمیں دیکھ کر خلوص سے مسکرادے۔ ہم سے مل کر کوئی طعنہ دے یا ہم سے مل کر کوئی خیریت دریافت کرے۔ کوئی ہمارا مذاق اڑائے یا ہماری عزت کرے، کوئی ہماری غلطیوں ہماری کمزوریوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرے یا ان پر پردہ ڈالے۔ ہماری کوتاہیوں پر سب کے سامنے شرمندہ کرے یا تنہائی میں متوجہ کرے۔ ہماری خوشیوں سے کوئی حسد کرے یا ان کے قائم رہنے کی دعا دے۔ ہماری تکلیف کسی کی خوشی کاباعث ہو یا ہمدردی کا۔ ہماری بیماری پر کوئی اپنی بیماری کا قصہ شروع کر دے یا ہماری شفایابی کی دعائیں کرے۔
ان میں سے وہ کون شخص ہے جو ہماری محبت اور عقیدت کا مستحق ہوگا، اور ان میں سے وہ کون سا شخص ہوگا کہ ہم اس کے جیسا بننا چاہیں گے۔ ہم سامنے والے بندے کو کیا محسوس کرانا چاہیں گے، اس سے کیسا سلوک کرنا چاہیں گے؟ یہ بات میں اور آپ خوب اچھی طرح جان گئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ زبان زخم بھرنا بہت مشکل ہوتا ہے تلوار کے زخم کے مقابلے میں۔ آج تولو پھر بولو جیسے سنہری اصول پر عمل کرنے کے بجائے بولو پھر تولو پھر پچھتائو پر عمل عام ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں تعلقات کشیدہ سے کشیدہ ترین ہوتے جارہے ہیں۔ قریب ترین رشتہ داروں کے دل بھی آپس میں پھٹ چکے ہیں۔ بھروسہ، خلوص اور ہمدردی جیسے کمیاب ہوتی جا رہی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ جس کو سنبھالنے کا حکم دیا گیا تھا یعنی زبان اس سے اسے کاٹتے ہیں جس کوجوڑنے کا حکم دیا گیا تھا یعنی رشتہ داری۔ لہٰذا معاشرے میں اگر ایک بار پھر محبت، خلوص، رواداری اور بردباری کو عام کرنا ہے تو ہم کو اپنی زبانوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ خواہ دل کتنا مچلے، شیطان کتنا ورغلائے، ایسی بات زبان سے نکالنے سے بچنا ہوگا جس کی وجہ سے کل قیامت میں اللہ کے سامنے شرم سے سر نہ اٹھایا جا سکے۔ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کا احساس زمین میں گڑ جانے کی تمنا کرے۔ بلکہ بات ایسی ہو جو دلوں کو جوڑے، محبتیں پھیلیں، بھائی چارے کی فضا عام ہو یا کہ آج کے مقابلے میں کل کا آنے والا معاشرہ اسلامی زندگی کا وہ نمونہ ہو جو اللہ کو مطلوب ہے۔
دیکھیے دائرہ بڑا ہورہا ہے، زبان کے بعد دوسرے اعضاء کی باری ہے۔ ان آنکھوں کا کیا استعمال ہو؟ کیسی ہوں ہماری نظریں؟ کیا غلط نظریں، غلط جانب نظریں، کھوجتی کریدتی نظریں، مضحکہ اڑاتی نظریں، اشارہ باز نظریں، متکبر نظریں، دیدہ دلیر نظریں، بےحیا نظریں، بےوفا نظریں، احسان فراموش نظریں، گھورتی نظریں، کھاجانے والی نظریں، بےرحم نظریں، غیریت بھری نظریں، یا پھر باحیا نظریں، جھکی نظریں، ہمدرد نظریں، پرخلوص نظریں، پراحترام نظریں، محبت بھری نظریں، منکسر نظریں، پرشفقت نظریں، بھروسہ مند نظریں، محبت سے ٹوکتی نظریں، یقین دلاتی نظریں، اپنائیت سے بھرپور نظریں، مہربان نظریں؟ ان میں سے کون سی نظریں اپنی طرف دیکھ کر ہم سکون اور اطمینان محسوس کر تے ہیں اور کن نظروں سے گھائل ہو کر درد کی لہریں برداشت کرتے ہیں۔ تو پھر کون سی نظریں ان میں سے ہماری ہوں گی۔ اپنی ہر اٹھنے والی نظر کے بارے میں یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ یہ جو اٹھے گی تو کس دل پر کیا اثر ڈالے گی۔
ہمارے ہاتھ کس کام میں استعمال ہوں گے، کیا دوسروں کی مدد کرنے، سہارا دینے، ضرورت پوری کرنے کے لیے، تکلیف دور کرنے کے لیے، نقصان دہ چیزیں راہ سے ہٹانے کے لیے، انسانوں کی خدمت کے لیے ہو نہ کہ دھکا دینے، تکلیف دینے، ظلم کرنے کے لیے۔ دوسروں کی چیز یں چھیننے، حق مارنے، چوری کرنے، جھوٹے کاغذات تیار کرنے، نقل کرنے، دھوکہ دینے، بےشرمی کے کاموں میں، گندے میسیج لکھنے،گندی ای میل بھیجنے، فحش مضامین لکھنے میں۔
ہمارے قدم کہاں اٹھیں گے؟ کیا اللہ کی ناراضگی والی راہوں میں، غلط کاموں میں مدد دینے کے لیے، حرام راستوں کی طرف، شیطان کے قدموں کی پیروی میں، یا اللہ کے پسندیدہ راستے پر صراط مستقیم پر، علم کی تلاش میں، دین کی اشاعت میں، یتیموں مسکینوں بیوائوں کی مدد میں، بیماروں کی مزاج پرسی میں، غم کے ماروں کی تعزیت میں، حلال روزی کی تلاش میں.
تو کیا آج سے میں اور آپ اس معاشرے کی اصلاح کا پہلا قدم اٹھانے کا تہیہ کرتے ہیں ۔اور اپنی اصلاح کرنے کا سچے دل اور سچی نیت سے بیڑا اٹھاتے ہیں؟ کیونکہ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کام میرے اور آپ کے بدلے اور کوئی کر بھی نہیں سکتا ۔کرنا چاہے تب بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو (آمین)