کچھ دن پہلے ایک صاحب نے مطالعہ پاکستان کو بےہودہ ثابت کرنے کے لیے ایسے سوالات کیے ہیں جن کا فہم و دانش سے کوئی تعلق نہیں بلکہ زمینی حقائق سے دور چونکہ چنانچہ اور اگر مگر جیسے فرضی سوالات ہیں۔ اپنے نظریہ کی ترویج کے لیے لکھنا اور دوسرے کی فکر کا رد کرنا اہل علم کا اسلوب ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ٹھہرا کہ دوسرے کے نظریے کو ”بےہودہ“ قرار دیا جائے۔ کیا سوسائٹی کی کثیر تعداد کے نظریے کو جو آئینی اور ہر لحاظ سے ہر شہری کے لیے معتبر ہے، اس کو یوں اپنی دانشوری کے زعم میں ”بےہودہ“ کہنا کیا بدتہذیبی نہیں۔ لیکن کیا کہیے کہ سیکولرزم و جمہوریت کی بنیادی اقدار آزادی اظہار رائے پر عمل پیرا ہونے کے دعویداروں میں تہذیب کا کچھ زیادہ لینا دینا نہیں رہا۔ سوالات کا پلندہ تیار کرنے والے صاحب نے شاید اندرا گاندھی کے بعد خود کو دوسرا شخص سمجھا جس نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا سہرا اپنے سر لیا، لیکن کوئی بتائے ان کو کہ نظریات کو ڈبویا نہیں جا سکتا۔ خود بنگال والے بھی ایک قومی نظریے کے تحت ہندوستان میں ضم نہیں ہوئے بلکہ الگ ملک ہی ہیں. کوشش کی ہے کہ ان سوالات کا معتدل انداز میں جواب دیا جائے، انسانی فطرت کی وجہ سے کہیں زیادتی بھی ہوسکتی ہے اس لیے کسی کی دل آزاری ہو تو معافی کی درخواست ہے ۔
سوال نمبر1: اگر علامہ ڈاکٹر سر محمد علامہ اقبال نے واقعی خطبہ الہ آباد میں مسلمانان ہند کے لیے الگ آزاد مملکت کا مطالبہ پیش کیا تھا تو کس کی سازش کے تحت ان کے یہ الفاظ خطبے کے اصل متن سے غائب کیےگئے جبکہ مملکت خداداد کی تیسری جماعت سے لے کر ایم اے تک کے نصاب میں ان کا حوالہ موجود ہے؟
جواب: علامہ اقبال کی شاعری ان کے نظریات کی عکاسی کرتی ہے۔ باقی آپ خطبے کا متن دیں تاکہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ خالی سنی سنائی ہے یا کہیں کوئی حقیقت کا عنصر بھی ہے۔ یہاں کا نصاب صحیح نہ لگے تو کیمبرج یونیورسٹی کی تجویز کنندہ کتاب، ”نیگل کیلی“ کی مطالعہ پاکستان بھی اس بیان کی تائید کرتی ہے کہ اقبال سرحد ، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک ریاست کے قیام کا مطالبہ اپنے اسی خطبے میں ہی کر چکے تھے۔ شاید انگریز مصنفین کی دیانت داری پر اعتراض نہ ہو۔
سوال نمبر 2: نظریہ پاکستان کب اور کس نے لکھا تھا؟ قائداعظم محمد علی جناح کی تمام تقاریر میں نظریہ پاکستان نامی کسی ترکیب کا ذکر کیوں نہیں ملتا؟ جنرل شیر علی خان پٹوڈی کون تھے اور کیا یہ ممکن ہے کہ ملک پہلے بن جائے اور نظریہ بعد میں جنم لے؟
جواب: دنیا میں کوئی بھی نظریہ کئی ارتقائی مراحل سے گزر کر اپنی منطقی شکل پاتا ہے۔ یہی حال نظریہ پاکستان کا ہے۔ شاہ ولی اللہ کی مساعی سے لے کر سرسید کی کوششوں تک، مولانا عبدالحلیم شرر کے مسلمانوں کے علیحدہ ملک کے علاقوں کی حدود کا بیان، شملہ وفد کی شکل میں مسلمانوں کے حقوق کی بات اور ان کے لیے علیحدہ انتخابات کا مطالبہ، مسلم لیگ کا قیام ، خلافت کی بقا کے لیے مساعی، قائداعظم کے چودہ نکات، علامہ اقبال کی علیحدہ ریاست کے لیے تجویز، ہندو ذہنیت کی حقیقت دیکھ کر چوہدری رحمت علی کا مطالبہ پاکستان، قرارداد پاکستان، قائداعظم کی اسلامی نظریے اور اسلامی نظام کےلیے سینکڑوں تقریریں، پاکستان کے قیام پر اسلامی فلاحی نظام اور اسلامی رواداری کے نظام کو اپنانے کا قائد کا عزم، یہ سب کچھ نظریہ پاکستان نہیں تو کیا ہے۔ نظریہ پاکستان کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان برطانیہ کی غلامی سے نکل کر ہندؤوں کی غلامی میں نہیں آنا چاہتے، ان کی شناخت الگ ہے اور اس کے لیے علیحدہ ریاست ضروری ہے۔ اس نظریہ کی عملی شکل مملکت خداداد پاکستان ہے۔ یہ لفظی جنگ ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی یہ کہے کہ مارکسزم کی اصطلاح مارکس نے کیوں نہ استعمال کی۔ عمارت کا نام اس کی بنیادوں میں نہیں، عمارت بننے کے بعد ہی لکھا جاتا ہے، اس لیے عمارت کا نام اس کی بنیادوں میں ڈھونڈنا آپ جیسے دانشوروں کی قسمت میں ہی آیا ہے ۔
سوال نمبر 3: اگر دو قومی نظریے کے تحت مسلمانان ہند اور ہندوئوں کا تشخص اتنا جداگانہ تھا تو ہزار سال یہ اکٹھے کیسے رہتے رہے؟ اور اگر یہ دو قومی نظریہ جمہوریت کے خطرے سے عبارت تھا تو اس پر عملدرآمد کے بعد یہ کیونکر ممکن تھا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پھر بھی ہندوستان ہی میں رہتی اور ایک الگ مملکت بننے سے جنم لینے والی نفرت کا کفارہ ہمیشہ کے لیے ادا کرتی؟ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو دو قومی نظریے کی رو سے فائدہ ہوا یا نقصان؟
جواب: اس سطحی سوال کا جواب اتنا ہے کہ نظریہ پاکستان میں یہ کہیں نہیں تھا کہ آپس میں اکٹھے رہنا غلط ہے بلکہ یہ تھا کہ ہمارا اس صورت میں مسلم تشخص برقرار نہیں رہ سکتا. جب برطانیہ کی ”ہیجمنی“ کے بعد مہا بھارت کا تسلط آئےگا جس کے نیچے رہنا مشکل ہو جائے گا. یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ ایک صدی پہلے بھی گائے کی قربانی پر ویسے ہی قتل کیا جاتا تھا جیسے آج مہا بھارت کیا جا رہا ہے، اصل مسئلہ اپنے بنیادی آئینی حق کا مطالبہ تھا. عجیب المیہ ہے کہ بعض سیکولر اور قوم پرست دانشوروں کو ہم مختلف قومیتوں کے حقوق کا نعرہ بلند کرتے دیکھتے ہیں مگر انھیں برصغیر کے مسلمانوں کا آئینی حق اور نظریہ چبھتا ہے۔ بنگال سے بلوچستان، خیبر سے سندھ تک، اور پنجاب سے بلتستان تک، یہ قومیت کے ساتھ کھڑے ہیں مگر حیرانی ہے کہ ہندو اکثریت میں انھیں یہ قومیتیں یا ان کی شناخت گم ہوتی محسوس نہیں ہوتی، اس لیے آج تک ہندوستان اور ہندو کی محبت ختم ہونے میں نہیں آ رہی. مسلمانوں سے ہندوئوں کی نفرت صدیوں پرانی ہے، البیرونی کی کتاب الہند میں اس کی تفصیل موجود ہے اور بتایا گیا کہ ان کو ”ملیچھ“ سمجھا جاتا تھا۔ جمہوریت کے نظام کی حقیقت کے لیے صرف اتنا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں 25 کروڑ مسلمانوں کے شاید پچیس نمائندے بھی بھارتی پارلیمنٹ میں نہیں ہیں تو جمہوریت کے نظام کا یہی طرز عمل پاکستان کے لیے خطرہ تھا جس کے لیے پہلے جداگانہ انتخابات اور پھر علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ جہاں تک ہندوستان کے مسلمانوں کے فائدہ یا نقصان کی بات ہے تو اس میں کئی عوامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹ حائل کی، بائونڈری کمیشن کی نا انصافی، سرحدوں کی غیرمنصفانہ تقسیم اور متعصب کانگریسی سیاستدان، ان 25 کروڑ کا سوال آپ ان سے کریں جن کے کہنے پر وہ وہاں رہے۔ یہی سوال ہمارا بھی ہے کہ جمہوریت کو پاکر وہاں کے 25 کروڑ مسلمانوں کو کیا ملا ہے؟ اس کا جو جواب آپ دیں گے وہی میرا جواب سمجھیے گا۔
سوال نمبر 4: کیا دو قومی نظریے کے تحت پاکستان آج تمام ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستانی شہریت دینے کا پابند ہے؟
جواب: کیا ایک ہندوستانی قوم کے نظریے کے تحت بھارت آج پاکستانیوں کو وہاں کی شہریت دینے کا پابند ہے۔ پاکستان نے تو اس وقت تنگ دستی کے باوجود آنے والوں کو خوش آمدید کہا، جو وہاں مرضی سے رک گئے، آج وہ روتے ہیں کہیں گجرات میں، کہیں مظفر نگر میں اور کہیں مہاراشٹر میں۔ اس کے باوجود پاکستان نے وہاں سے آنے والوں کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے، مہاجرین کے قافلے سالوں بعد تک آتے اور یہاں بستے رہے. 90ء کی دہائی میں آنے والے کشمیری بھائیوں کو بھی پاکستان نے خوش آمدید کہا تھا۔ افغانستان کے 3 ملین مہاجرین تو اب تک یہاں ہیں جن کا ایک یا دو قومی نظریہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، بطور مسلم ریاست ہماری بانہیں مسلمانوں کےلیے کھلی ہیں. جو اس وقت اپنے پیروں میں بیڑیاں پہن کر بیٹھ گئے، ان کی اپنی مرضی ہے۔
سوال نمبر 5: کیا بنگلہ دیش میں پناہ گزین بہاری بنگالی کہلائیں گے یا پاکستانی؟ اور اگر انہیں پاکستان بلایا گیا تو کون سا صوبہ کون سے نظریے کے تحت ان کا استقبال کرے گا؟
اس کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے ۔
سوال نمبر 6: اگر دو قومی نظریہ ایک آفاقی سچائی ہے تو کیا پاکستان کو برطانیہ، فرانس اور چین میں مسلمان آبادی کے لیے الگ ملک بنانے کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کرنی چاہیے؟
جواب : میں جناب کی دانشوری پر حیران ہوں کیونکہ یہ سوال اور ابہام صرف اس لیے ہیں کہ جناب کو نظریہ پاکستان کی بنیاد اسلام سے ہی چڑ ہے جس کی ایک شکل یہ ہے کہ نظریہ پاکستان کا نام لے کر مسلمانوں کی اسلامی سوچ کا رد کیا جائے۔ پاکستان کا آئین موجود ہے، اس میں کیا یہ چیز لکھی ہے۔ یہ آئین نظریہ پاکستان کی عملی شکل ہی ہے۔ کیا مطالعہ پاکستان میں یہ بات کہیں ہے۔ تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ تنقید کا اصل ہدف آفاقی نظریہ اسلام ہے۔ مسلمان غیر مسلم ملک میں رہ سکتے ہیں، اس کی ممانعت نہیں ہے، جب نجاشی مسلمان نہیں ہواتھا تو اس کے پاس مسلمان ہجرت کرکے گئے، وہاں رہے اور علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں کیا، جب مکہ میں تھے تب بھی علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں کیا، مگر جب مدینہ میں گئے اور کثرت ان کے پاس تھی تو اپنی حکومت قائم کی اور اپنے اور دوسروں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ فقہ میں دارالاسلام، دارالکفر اور دارالحرب میں رہائش کے حوالے سے ہدایات موجود ہیں. اب دنیا کے قانون بھی دیکھیں ذرا، کوئی بھی قوم اگر اس حد تک آبادی رکھتی ہے اور علاقہ بھی کہ اس کو ریاست تسلیم کیا جائے، پھر اگر وہ جمہوری یا عسکری طریقے سے اس علاقے پر قبضہ کرلیتی ہے تو وہ بین الاقوامی فورم میں ایک ملک کی حیثیت سے آ سکتی ہے جس کی مثالیں سنگاپور، مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان وغیرہ ہیں۔ اب برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کا بقیہ حصہ الگ ہونا چاہتا ہے، سپین اور دیگر ممالک میں علیحدگی کی تحریکیں ہیں، ایک قومی نظریہ یا علاقہ کوئی چیز ہے تو یہ سب ایک ساتھ کیوں نہ رہے یا کیوں نہیں رہنا چاہتے؟ یا برق صرف مسلمانوں پر گرانی ہے. ویسے اب اگر جمہوریت ایک بہترین نظریہ ہے تو کیا برطانیہ، فرانس اور چین میں مسلمان آبادی کے لیے الگ ملک بنانے کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کرنی چاہیے؟
سوال نمبر 7: دو قومی نظریے کی رو سے پاکستانیوں کو سعودی عرب، ایران، ترکی یا متحدہ عرب امارات کی اعزازی شہریت کا حق حاصل کرنے کے لیے کیا او آئی سی کے پلیٹ فارم پر آواز بلند کرنی چاہیے؟
جواب: دو قومی نظریہ اور آو آئی سی کا مقصد کیا ہے. سرحدات اور ویزے جیسے ماڈرن ریاست کے جمہوری تصورات کے ہوتے اور ان پر عمل کرتے ہوئے ایسے سوالات اٹھانا تجاہل عارفانہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے. اگر مسلم امہ جس کا نام سنتے ہی آپ جیسے دانشوروں کو چڑ ہوتی ہے، عملی شکل پہنے تو یہ مشکل دور ہو جائے گی. ریاستی یا جمہوری دور حکومت سے پہلے ایسا ہی تھا، کوئی بھی کہیں بھی جا کر رہ سکتا تھا، کاروبار کر سکتا تھا. اسلامی نقطہ نظر سے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے. او آئی سی کا مقصد مسلمانوں کے حقوق کےلیے آواز اٹھانا ہے، یہ اس وقت قائم ہوئی جب بیت المقدس میں آگ لگانے کی کوشش کی گئی، اس سے دوقومی نظریہ ایک آفاقی نظریہ ثابت ہورہا ہے کہ نہیں اور اس کی سمت کا بھی صحیح تعین ہو رہا ہے، کہ مسلمان دوسری اقوام سے الگ اور متحد ہیں۔ ہمارے خیال میں تو پاکستان کو آگے بڑھ کر کوشش کرنی چاہیے کہ او آئی سی کو یورپی یونین جیسا بنانا چاہیے. شہریت کا سوال ہی ختم ہو جائے گا.
سوال نمبر 8: بنگلہ دیش کون سے نظریے کے تحت بنا؟ کیا ہمیں انہیں اب بھی مسلم برادر سمجھنا چاہیے؟
جواب: بنگلہ دیش جس نظریے کے تحت بنا اس کو قوم پرستی کہتے ہیں اور بنگلہ دیش کی حکومت اب کیا کررہی ہے اور کیسے بنی اور کس نے بنائی سب کے سامنے ہے۔ شاید اندرا گاندھی کا جملہ آپ کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے کہ آج دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ یا پھر مودی جی کا اعتراف حق کہ بنگلہ دیش ہم نے بنایا۔ یہ سوال اپنی جگہ کہ کیا کیا کسی کی غداری اور کسی سازش سے نظریہ پر کوئی حرف آئے گا مگر پھر بھی یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان سے الگ ہو کر بنگال ہندوستان میں ضم ہو گیا، اس نے ایک قومی نظریہ قبول کر لیا؟ بنگلہ اب بھی اسلامی ریاست ہے، الگ ہے، منموہن سنگھ کے بقول 25 فیصد بنگالی اس سے سخت نفرت کرتے ہیں، پاکستان ہندوستان بنگلہ دیش میں کھیلیں تو اسٹیڈیم پاکستان کے ساتھ ہوتا ہے، اور آج بلوچستان میں مداخلت کے اشارے کے بعد ہندوستانی دانشور اور اخبارات اسے سمجھا رہے ہیں کہ بنگلہ دیش بنوا کر دیکھ لیا، وہاں اب بھی ویسی نفرت ہے، اور کئی تنازعات ہیں. بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلق کی بحالی او آئی سی کے سر ہے، 1974ء میں لاہور کانفرنس میں مجیب کی شرکت اس کی دلیل ہے اور یہ آپ کی او آئی سی کی ذمہ داریوں کے بارے میں غلط فہمی کا بھی جواب ہے ۔ تنازعات اور حسینہ واجد کے ظلم کے باوجود بھی بنگلہ دیشی ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور ان کی نسبت سے بنگلہ دیش برادر اسلامی ملک ہے۔
سوال نمبر 9: کیا مسلمانوں کی اکثریت پاکستان بننے کے لیے تحریک کے دوران قتل ہوئی یا پاکستان بننے کےاعلان کے بعد فسادات کے دوران؟ کیا ان کی قربانیوں کی وجہ سے ملک بنا یا ملک بننے کی وجہ سے وہ قربان ہوئے۔ یہی سوال لاکھوں عورتوں اور بچیوں کی عصمت دری کے حوالے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایک ملک بننے کی قیمت میں کتنی لاشوں اور عزتوں کا سودا منافع بخش کہلائے گا؟
جواب: تحریک پاکستان قیام پاکستان بننے کے اعلان تک تو نہیں تھی، ظاہر ہے کہ ریاست نے عملی طور پر وجود میں آنا تھا. یہاں ایک بات تو یہ ہے کہ ہجرت نہ کرتے تو پھر آپ نے زیادہ شدت سے سوال کرنا تھا کہ دو قومی نظریہ تھا تو ہجرت کی نہ کی گئی دوسرے علاقوں سے، ہجرت تو بذات خود اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان اپنی الگ ریاست کےلیے دل و جان سے پرعزم اور ہر قربانی دینے کے لیے تیار تھے. دوسرا یہ کہ یہ سوال تو قاتلوں سے ہونا چاہیے، جن کی محبت آپ کو ستائے جا رہی ہے. مسلمانوں کا اپنے وطن میں آنا اسی تحریک کا حصہ ہی تھا اور قتل عام تحریک کے بعد نہیں بلکہ تحریک کے دوران بھی ہوا۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ یہ اعتراض صرف برصغیر کے مسلمانوں تک محدود کیوں؟ آزادی کی تحریک جہاں بھی چلی ہے، ایسے ہی قربانیاں دینی پڑی ہیں، امریکہ و سوویت یونین تک اور مشرقی تیمور سے جنوبی سوڈان تک، کوئی بھی خانہ جنگی سے پاک نہیں رہا. آج کی طاقتوں نے عراق سے افغانستان تک جمہوریت لانے کے نام پر لاکھوں لوگ قتل کر دیے تو اس جمہوریت اور جمہوری نظام کے بارے میں کیا کہیے گا۔ یہ تعین کرلیں ظالم کون ہے؟ ظالم تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ٹھہری اور مظلوم کو یہ کہا جارہا ہے کہ تمھیں کس نے کہا تھا کہ جمہوریت کی خلاف دو قومی نظریہ کا راگ الاپو، اب بھگتو جمہوری ظلم۔ کیا انصاف اور کیا جمہوریت ہے۔ ایک اور بات کہ کشمیر میں دو لاکھ شہید ہوئے، کیا وہ بھی اس نئے ملک میں آنے کے دوران شہید ہوئے۔ افسوس کہ مظلوم کو کوسا جاتا ہے اورظالم کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔
سوال نمبر 10: ” خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی“ سے کون سی قوم مراد ہے؟ اور یہ کہاں قیام پذیر ہے؟
جواب: یہ وہی قوم ہے جس کی فکر سے سیکولرزم کو خطرہ ہے ۔ اور وہ دن رات اسی تگ و دو میں ہے کہ اس فکر کو فضول سوالات کرکے مشتبہ بنایا جائے۔
سوال نمبر 11: قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ کی اعلی قیادت میں جاگیرداروں، نوابزادوں، وڈیروں اور اشرافیہ کا کیا تناسب تھا؟ کیا یہ سب واقعی عوام کے غم میں گھلنے کے سبب ایک الگ مملکت کے قیام کے حامی تھے؟
جواب: یہ سوال تو انھیں کرنا چاہیے جو خود جاگیردار کے حامی نہ ہوں. ہم نے دیکھا ہے کہ یہاں کی کمیونسٹ اور لبرل لابی بھٹو جیسے جاگیردار کی فدائی رہی ہے اور اس سے ان کی انقلابیت پر کوئی حرف نہیں آیا. پھر اگر برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت الگ وطن چاہتی تھی تو یہ خود جمہوری اصولوں کے عین مطابق تھا، اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ لیڈر بھٹو ہے یا نوازشریف. جہاں تک تناسب کی بات ہے تو یہ حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت مطالبہ پاکستان کی حامی تھی، اور پاکستان بننے کے بعد اپنی جاگیریں چھوڑ کر یہاں منتقل ہو گئی. کسی کے جاگیردار یا وڈیرہ ہونے سے اس کی کریڈیبیلیٹی پر کوئی حرف نہیں آتا۔ آج کسی بھی ملک کا لیڈر آپ کو غریب طبقے سے نظر نہیں آئے گا۔ اس کی سوچ کیا ہے اصل بات یہ ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اس طبقے نے وعدے پورے نہیں کیے اور ملک کی جڑیں کھوکھلا کرنے میں مصروف رہے. مگر آپ تو آج انھی جاگیرداروں اور جمہوری نظام کے حامی ہیں جس میں صرف وہی آسکتا ہے جس کی جیب میں کچھ ہے۔ جمہوریت کے جتنے نام لیوا آج آپ کو نظر آتے ہیں، کیا یہ عوام کے غم میں گھلے جا رہے ہیں۔ آج پاکستان میں جمہوریت سے مخلص دو چار ہی ہوں شاید لیکن جمہوریت کے غم میں گھلنے کےلیے ہر کوئی تیار بیٹھا ہے۔
سوال نمبر 12: مسلم لیگ کے اولین اجلاس منعقدہ 1906ء میں تاج برطانیہ سے وفاداری کے بارے میں موقف کیا تھا؟
جواب : سوال نمبر 2 کے جواب میں اس کا جواب موجود ہے اور بتایا گیا ہے کن کن ارتقائی مراحل سے گزر کر مسلم لیگ ایک منطقی حل ”قیام پاکستان“ تک پہنچی۔ لیکن اس سب کے باوجود مسلم لیگ کے قیام سے لے کر قیام پاکستان تک جو سب سے بڑا مقصد نظر آیا، وہ یہ تھا”مسلم قوم“ کا تحفظ۔ جو دو قومی نظریہ کی بنیاد ہی تھا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تحریک آزادی مختلف ارتقائی مراحل سے گزر کر حتمی نتیجے تک پہنچی. جب تاج برطانیہ سے ہی آزادی حاصل کر لی گئی تو یہ سوال ویسے ہی بےمعنی ہو جاتا ہے.
سوال نمبر 13: اگر جواہر لال نہرو عوام کی فلاح کے لیے لینڈ ریفارمز ایکٹ انڈیا میں نافذ کر سکتا تھا تو ہماری حکومت کے ہاتھ کس نے باندھے تھے بلکہ کس نے آج تک باندھے ہوئے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ انڈیا میں جاگیرداریاں ختم ہو گئیں لیکن ہم آج بھی ایک جاگیردارانہ معاشرہ ہیں؟
جواب: پاکستان میں یہ کام نہیں ہوسکا، اس کا افسوس ہے، یہ کام ہونا چاہیے تھا۔
سوال نمبر 14: اگر 1919ء میں جلیانوالہ باغ میں 380 نہتوں کا قتل جنرل ڈائر، وائسرائے ہند اور ملکہ برطانیہ کے سر ہے تو اگست 1948ء میں بابڑہ میں حکومتی گولیوں سے مرنے والے 1300 نہتوں اور پھر مرنے والوں کے خاندانوں سے گولیوں کی قیمت تک وصول کرنے کا الزام خان عبدالقیوم اور گورنر جنرل پر رکھنا جائز ہو گا؟ یاد رہے کہ اس سانحے سے ایک ماہ قبل قائداعظم کی خواہش پر ڈاکٹر خان کی حکومت ختم کر کے خان عبدالقیوم کو اقتدار سونپا گیا تھا۔ کیا ایسے واقعات مثلا ڈھاکہ بنگلہ بھاشا فائرنگ 1952ء، لالو کھیت فائرنگ 1965ء، مشرقی پاکستان ملٹری ایکشن 1971ء، لیاقت باغ فائرنگ 1973ء، ٹیکسٹائل کالونی فائرنگ 1978ء، پکا قلعہ حیدر آباد فائرنگ 1989ء، 12 مئی کراچی فائرنگ 2007ء وغیرہ کو مطالعہ پاکستان کی کتب میں شامل کرنا چاہیے یا جلیانوالہ باغ ہر سینہ کوبی ہی کافی ہوگی؟
جواب: تحریک پاکستان کی تاریخ میں تو وہی پڑھایا جائے گا جو اس وقت وقوع پذیر ہوا. حیرانی ہے کہ انگریز سرکار اور ہندو بنیے سے تو محبت ہے مگر اسلام اور پاکستان کے حوالے سے بس سوال ہی ہیں. سیدھا جواب تو یہ ہے کہ جب اس ملک میں آپ سیکولرزم نافذ کرلیں تب سیکولر مطالعہ پاکستان لکھ کر ان واقعات پر ماتم کیجیےگا، لیکن فی زمانہ جمہوریت کی اماں اور ابا کے دنیا پر ظلم و ستم ہی لکھ دیں۔ دنیا کی کوئی حکومت اپنے دفاع کے لیے کسی حد تک جاتی ہے، اس میں اکثر اوقات وہ انصاف کا دامن چھوڑ دیتی ہے۔ بغاوت کو کچلنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بغاوت کو کچلنے اور قتل و غارت میں فرق ہوتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ جالیانوالہ باغ حملے سے پہلے ایک ایکٹ متعارف کرایا گیا، روولٹ ایکٹ، جس کا مقصد یہی تھا کہ آزادی کی لہر کا انجام دکھایا جائے، اور اصل مسئلہ ہے پری پلان قتل و غارت کی منصوبہ سازی، یہی ڈائر نے کیا تھا۔ چونکہ اس کو آئینی شکل دی گئی تھی اس لیے اس کی اتنی زیادہ مذمت کی گئی ورنہ اس سے پہلے برطانیہ نے لاکھوں مارے لیکن ایک آئینی شکل میں غنڈہ گردی کو متعارف کرانا ”جمہوریت کی بڑی اماں“ کے سر ہے۔ باقی جتنے واقعات نقل کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک کا جواب کافی ہوگا۔ 48ء میں کس نے ”جہاد پاکستان“ برائے ”افغانستان و کانگریس“ کے لیے لوگوں کو اکسایا۔ جب آپ کی حدود میں غیروں کے دیے ہوئے مال سے جہاد کا نام لے کر فساد پھیلایا جائے اور اس کی سرکوبی میں آپ لڑیں تو کیا یہ غلط ہوگا، ہرگز نہیں۔ آج کے دہشت گردوں سے پاکستان کی لڑائی دیکھ لیں، کیا یہ صحیح ہے یا نہیں۔ 30 سال بعد کوئی دانشور اس پر سوال اٹھائے گا؟
سوال نمبر 15: 1947ء سے لے کر اب تک فسادات، دنگوں اور بم دھماکوں میں انڈیا میں کتنے مسلمان مرے ہیں او پاکستان میں کتنے؟ آپ چاہیں تو 1971ء کے مقتولوں کو جواب سے خارج کر سکتے ہیں؟ کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اگر ایک ملک میں مرنے والے مسلمان دوسرے ملک میں مرنے والوں سے کئی گنا کم ہوں تو اس ملک کو مسلمانوں کے لیے زیادہ محفوظ سمجھا جائے؟
جواب: آپ انصاف چاہتے ہیں لیکن اپنے بنائے ہوئے خودساختہ قوانین کی روشنی میں جبکہ انصاف غیر جانبدارانہ ہی ہوتا ہے۔ آپ کا سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ جتنے غیر حربی لوگ انڈیا میں مارے گئے، ان کی تعداد اور پاکستان میں مارے جانے والوں کی تعداد کا موازنہ کیا جائے کیونکہ انسانی جان کسی کی بھی ہو وہ قیمتی ہے لیکن آپ نے صرف مسلمان کی قید لگائی جس سے خاص ذہن کی عکاسی ہوتی ہے۔ دوسری بات اگر مسلمان کی قید لگائی تو ٹھیک ہے پھر ہجرت کے دوران اور کشمیر میں مارے جانے والوں کو بھی شمال کریں اور پھر موازنہ کرلیں۔ اصل سوال تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ انڈیا میں اقلیتی افراد کے قتل عام اور پاکستان میں ہونے والے قتل عام کا موازنہ کیا جائے؟ جویقینا آپ نہیں کریں گے۔
سوال نمبر 16: اگر آپ کو پتہ ہو کہ آپ کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں لیکن پھر بھی آپ خریداری کے لیے بازار جا پہنچیں اور خریداری کی کوشش بھی کریں تو کیا یہ طرز عمل دانش مندانہ کہلائے گا؟
جواب: اگر جمہوریت کی جیب میں موجود کھوٹے سکوں کے باوجود ہمارے احباب جمہوری اقدار کے نفاذ کی کوشش کر رہے ہیں اور پھر بھی جمہوریت کی خریداری کے لیے کوشاں ہے توکیا اس کو دانش مندی کہا جائے گا۔ کبھی بھی کسی کے پاس سارے سکے کھوٹے نہیں ہوتے جیسے جمہوریت کے حامیوں کے پاس کچھ نظریاتی جمہوریت پسند موجود ہیں جو اپنے نظریہ سے مخلص ہیں اور وہ دن رات اس کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ تو کیا اس کو دانش مندی کہا جائے گا؟
تبصرہ لکھیے