’اسٹیبلشمنٹ مخالف‘ پیپلز پارٹی نے ’اسٹیبلشمنٹ مخالف‘ جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ہاتھ کرتے ہوئے اسے اعتماد میں لیے بغیر مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے نیا مسودہ منظور کرلیا ہے. ممکن ہے کہ کل سے شروع ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں اس معاملے کو ایجنڈے پہ بھی لایا جائے. جے یو آئی کے دعوے کے مطابق گزشتہ دنوں تین لاکھ کارکنان نے تبت سینٹر پہ دھرنا دیا تھا، ہمیشہ کی طرح انہیں بیوقوف بنانے کے لیے جے یو آئی کی طلبہ تنظیم جمعیت طلبہ اسلام کے سابق رہنما اور اب آصف زرداری کے قریبی ساتھی قیوم سومرو اور مرحومہ فوزیہ وہاب کے صاحبزادے و صوبائی مشیر قانون مرتضی وہاب اس دھرنے میں پہنچے اور یقین دلایا کہ جے یو آئی کے ساتھ مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے پر مذاکرات ہوں گےاور ان کی تجاویز کو نئی پالیسی کا حصہ بنایا جائے گا۔ یہ اور بات ہے کہ مسودہ منظور ہو چکا اور جے یو آئی کو ہوا بھی لگنے نہیں دی گئی نہ ہی قیوم سومرو اینڈ کمپنی نے جے یو آئی کو ایسے کسی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔
جے یو آئی نے دوبارہ لاکھوں کارکنوں کو کراچی میں جمع کرنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ دینی مدارس کے اتحاد نے جمعرات کو اپنا ہنگامی اجلاس بھی کراچی میں طلب کرلیا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ مخالف سندھ حکومت نے انتہائی چالاکی سے قیوم سومرو کو استعمال کیا اور سندھ بھر کے کارکنوں کو وزیراعلی ہائوس جانے سے روک دیا. ان دونوں حضرات نے سوائے علامہ خالد محمود سومرو کے مقدمے کو فوجی عدالت بھجوانے کے، کوئی دوسرا تحریری معاہدہ نہیں کیا اور اپنے سر سے بلا ٹال دی. باقی یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سائیں زرداری کی نظر میں معاہدوں کی کتنی وقعت ہے؟
نئی صورتحال میں کیا ہوگا؟ اس کا زیادہ پتہ قیوم سومرو کو ہی ہوگا جو ہر بار اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے نام پر پوری جے یو آئی کو چونا لگا کر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا جاتے ہیں. حکمت، فہم و فراست اور قدیم ترین جماعت ہونے کے باوجود تنہا قیوم سومرو جے یو آئی کی پوری قیادت کو کیسے استعمال کر جاتے ہیں یہ معمہ وہی حل کرسکتے ہیں۔
تو ساتھی تیار ہیں دوبارہ دھرنے کے لیے؟
تبصرہ لکھیے