حالات ایک خطرناک موڑ پر آ گئے۔ فقط لیڈروں پر ملک کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔ کچھ لوگ اٹھیں اور قوم کی رہنمائی کریں۔ بیدار مغز پاکستانی دنیا بھر میں پاکستان کا مقدمہ لڑیں۔ لیڈر تو دیوانے سے ہو گئے، خود پسند اور جنونی، تاریخ کے کوڑے دان کا رزق۔
داغستان کے امیرالشعرا حمزہ توف کو نوجوان شاعر نے لکّھا: ازراہِ کرم کوئی عنوان تجویز کیجئے۔ انھوں نے کہا: اﷲ سے یہ دعا نہ کرو کہ وہ تمہیں کوئی موضوع عطا کرے بلکہ یہ کہ تمہیں آنکھیں بخش دے۔
سزا کی ایک شکل یہ ہے کہ ادراک چھین لیا جاتا ہے۔ احساس کی لَو مرتی ہے تو علم غائب ہو جاتا ہے اور آدم زاد بھول بھلیّوں کے حوالے۔
امیدوں اور اُمنگوں سے لبریز ایک جواں سال آدمی عملی زندگی کے سٹیج پر قدم رکھتا ہے تو کبھی کبھی یہ کرّۂ خاک اُسے اپنے عزائم کے لیے چھوٹا لگتا ہے۔ عزم بجا مگر روشنی تو علم میں ہوتی ہے۔ منزل ہی معلوم نہ ہو تو توانائی کے سب طوفان پیوندِ خاک ہوتے ہیں۔
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے مرحوم صدر، ڈاکٹر محمود احمد غازی نے ابتدائی تعلیم مدرسے میں پائی تھی۔ ہوش مندی خمیر میں تھی۔ انگریزی خود سے پڑھی اور غالباً فرانسیسی بھی۔ فقہ میں رواں، قرآن، حدیث اور عصری علوم کے خوش ذوق طالب علم۔ اہلِ علم کی محبت کے جویا۔ پیرس میں مقیم ڈاکٹر حمیداﷲ کو لکھا کہ فلاں اور فلاں موضوع پر دادِ تحقیق کا ارادہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا جواب یہ تھا: استنبول کے لیے پا بہ رکاب ہوں... آپ کا خط مجھے بھایا نہیں... اہمیت عنوانات کی نہیں متن کی ہوتی ہے۔
حدیثِ قدسی وہ ہوتی ہے، جس کے الفاظ بھی آپﷺ کے قلب پر نازل ہوئے ہوں۔ ایک مبارک قول کا خلاصہ یہ ہے: آدمی اﷲ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے یا خود سے سوچے ہوئے راستوں پر۔ اپنی پسند سے اگر وہ تگ و تاز میں لگا ہے تو منزل اسے نصیب نہیں ہوتی، راستوں میں تھکا دیا جاتا ہے۔ ''اے اِبنِ آدم ہو گا وہی جو میری مرضی ہے‘‘۔
رحمۃ اللعالمینﷺ نے ایک تنکا اٹھایا۔ بہت سی ٹیڑھی میڑھی لکیریں خاک پر کھینچ دیں، پھر ایک سیدھی لکیر اور ارشاد کیا: یہ صراط مستقیم ہے۔ قیادت کے باب میں ایک معروف ارشاد یہ ہے: تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال ہیں، تمہارے حاکم۔ سیّد ابوالاعلی مودودی اگرچہ بعد میں خود بھی بھول گئے، مگر ان کا ارشاد آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ جیسا دودھ ہو، ویسا ہی مکھن نکلتا ہے۔
قدرت کسی قوم پر مہربان ہو تو اسے نورالدین زنگی، صلاح الدین ایّوبی اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسے رہنما عطا کرتی ہے۔ راستوں میں سرگرداں ہی رکھنا ہو تو میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان۔ کپتان کے حامی برہم بہت ہوتے ہیں کہ ان کے لیڈر کا نام دوسروں کے ساتھ لیا جائے۔ اس نے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی بنائی۔ بجا ارشاد کہ مالی معاملات میں اس کا اپنا دامن صاف ہے۔ سوال یہ ہے کہ منزلِ مقصود اس کی کیا ہے؟- اقتدار؟ خیال اس کا یہ ہے کہ ایک بار اقتدار مل جائے تو ہر چیز وہ سنوار دے گا۔ اپنی تنہائی میں غالباً وہ یہ سوچتا ہے کہ موقع مل گیا تو اپنی پارٹی سے بھی گندگی نکال پھینکے گا، سماج بھی اُجلا کر دے گا۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ بہت اچھے نصیب کے ساتھ، وہ ایک برگزیدہ آدمی ہے۔ کرکٹ میں، ہسپتال اور یونیورسٹی کی تعلیم میں‘ ہر کہیں کامیابی نے اس کے قدم چومے ہیں۔ سیاست میں بھی آخرکار وہ معجزہ کر دکھائے گا۔
اس دن، جب اس کی کتاب کے اردو ترجمے کی تقریب رونمائی تھی- اور چالیس دن لاہور کے ایک ہوٹل میں بند رہ کر، ناچیز نے ریاضت کی تھی- اسٹیج پر بیٹھے، باہم بات کرتے ہوئے، چڑ کر میں نے کہا: اے میرے عزیز دوست، تم کوئی قائد اعظم یا مہاتیر محمد تو نہیں ہو۔ ''میں تمہیں بن کر دکھاؤں گا‘‘ اسی بچوں کی معصومیت سے بولا۔ ''جو کچھ بننا تھا، تم بن چکے، 56 برس کے ہو چکے‘‘۔ آٹھ برس اُس نے اورکھو دیے ہیں، آغاز گرما میں اس کی عمر 64 برس ہو چکی۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ پارٹی اُس سے بنتی نہیں، حکمتِ عملی سنورتی نہیں‘ ڈھنگ کے مشیروں کا انتخاب کر نہیں پاتا۔ مل بھی جائے تو 20 کروڑ آبادی کے اس مشکل ملک کی حکومت وہ کیسے چلائے گا‘ داخلی اور خارجی قوتیں جہاں ایک منتشر مزاج قوم کو ہیجان پر آمادہ کرنے میں لگی رہتی ہیں۔
اس علمی مجدد اقبال نے کہ قدیم و جدید کا شعور تھا، یہ کہا تھا: ''جہاں کہیں دنیا میں روشنی ہے، مصطفیﷺ کے طفیل ہے یا مصطفیﷺ کی تلاش میں‘‘۔ شاعری نہیں یہ زندگی کی عظیم ترین صداقتوں میں سے ایک ہے۔ سیدنا عمرؓ بن عبدالعزیز سے لے کر خواجہ مہر علی شاہ تک، مسلم تاریخ میں جتنے کامران ہو گزرے ہیں، اُن میں سے ہر ایک کا وصف یہ تھا کہ سرکارﷺ کی زندگی پہ اس نے غور کیا تھا، اُنہی سے اکتساب نور!
ملوکیت کے باوجود، کربلا کے باوجود، تاتاریوں کی یلغار کے باوجود، ایک ہزار برس تک مسلمانوں کا پرچم کیوں لہراتا رہا؟ علم کے طفیل۔ قرآن کریم اور سیرت طیّبہ کی روشنی‘ مگر تاریخ انسانی کا وہ سب سے بڑا کارنامہ کیا تھا، جو میدان عمل میں سرکارﷺ کے روشن ہاتھوں سے انجام پایا۔ لگ بھگ چار ہزار قدوسیوں کی تربیت۔ غالب نے کہا تھا:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
چار ہزار آدمی، نفیٔ ذات پہ قادر، الجھنوں سے پاک، اجلے اذہان، تاریخ انسانی کے عظیم ترین جنرل، سکالر، منتظم، خطیب اور تاجر۔ ان میں ہر ایک یہ جانتا تھا کہ انسان کیا ہے، کائنات کیا ہے اور زندگی کیا ہے۔ عمر فاروق اعظمؓ نے کہا تھا: ہم دھوکہ نہیں دیتے مگر دھوکے کی ہزار شکلوں سے واقف ہیں۔ سپین میں اسی لیے وہ سرفراز تھے۔ صلیبی جنگوں میں بھی، علم اور اخلاق سے۔ مغربیوں کا لشکر بڑا تھا، مگر صلاح الدین کا ادراک اور اخلاق بہت بلند تھا۔ سلیمان ذی شان کی ذہانت اور عزم نے نہیں ترکوں کے علم نے انہیں مغرب پر ہیبت طاری کر دینے والی فوقیت عطا کی تھی۔ ترکوں کی عدالتیں اور سکول بہتر تھے، پولیس، ان کی باوردی فوج اور تربیت یافتہ سول سروس۔ مسلمان ہندوؤں سے بہتر تھے۔ اس لیے ہزار سال ان پر حکومت کر سکے۔ پھر انگریز غالب آئے، اس لیے کہ وہ مسلمانوں سے بہتر تھے۔ وقت اور وعدے کے پابند، زیادہ سائنسی اندازِ فکر رکھنے والے، ریاضت کیش، اپنی قوم سے محبت کرنے والے۔ علم کا کوئی بدل نہیں، خلوص اور اخلاق کا کوئی بدل نہیں۔ افراد کی تربیت اور اپنی عملی مثال سے۔ وہ جسے کاروباری انگریزی میں اب Human Resource کہا جاتا ہے۔ سکھائے پڑھائے لوگ، اپنے کام کی نوعیت اور اپنے عصر کو سمجھنے والے۔ تنگ نظری علم ہی سے دور ہوتی ہے، کشادہ نظری اسی سے جنم لیتی ہے۔
گستاخی معاف یہ اندھے لیڈر ہیں۔ کشمیر کی صورتِ حال خطرناک ہے۔ امریکہ کی مدد سے بھارت نے لشکر طیبہ اور جیش محمد کو دہشت گرد قرار دلوایا۔ ہماری معیشت تباہ کرنے کے لیے اب وہ پاکستان پر پابندیاں لگوانے کے درپے ہے۔ اقوامِ متحدہ سے نہیں تو کم از کم امریکہ سے۔ کشمیر میں زچ ہو جانے والے بھارت میں جنگی بخار ہے۔ خدانخواستہ، چھوٹا سا حادثہ بھی ہو گیا تو جنگ چھڑ سکتی اور تباہی لا سکتی ہے۔ بدقسمتی سے صرف فوج اور سول میں ہی رابطے کا فقدان نہیں‘ وحشت کے مارے سیاست دان بھی ایک دوسرے کے گریبان پکڑے کھڑے ہیں۔ اُڑی حادثے کے مضمرات کا ادراک وزیر اعظم کو ہے، زرداری صاحب اور نہ عمران خان کو۔ وزیر اعظم اور وزارتِ خارجہ کا کوئی بھرپور اور جامع بیان سامنے نہیں آیا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو اسلام آباد میں مقیم سفیروں کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ سے تحقیقات کی پیشکش کرنی چاہیے۔ فوج اور سول ہی نہیں حکومت کو اپوزیشن سے بھی رابطہ کرنا چاہیے۔ وہ سب کے سب تو مگر فساد میں مگن ہیں۔
حالات ایسے خطرناک موڑ پر آ گئے کہ فقط لیڈروں پر ملک کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔ کچھ لوگ اٹھیں اور قوم کی رہنمائی کریں۔ بیدار مغز پاکستانی دنیا بھر میں پاکستان کا مقدمہ لڑیں۔ لیڈر تو دیوانے سے ہو گئے، خود پسند اور جنونی، تاریخ کے کوڑے دان کا رزق۔
تبصرہ لکھیے