جیوانی لوپورٹو سسلی کے شہر پالرمو میں پیدا ہوا‘ جیوانی کو ویلفیئر کا شوق تھا‘یہ2010ء میں جرمنی کے رفاہی ادارے Welthungerhilfe سے وابستہ ہوگیا‘یہ ادارہ قدرتی آفات کے شعبے میں پوری دنیا میں کام کرتا ہے‘ تنظیم دنیا کے 70 ممالک میں8120 پروجیکٹس پر کام کر رہی ہے‘ آپ کو یاد ہو گا2010ء میں پاکستان میں خوفناک سیلاب آیا تھا‘ سیلاب نے خیبر پختونخواہ‘ بلوچستان‘ جنوبی پنجاب اورسندھ میں تباہی پھیلا دی‘پاکستان کے سیلاب اور تباہی کی خبریں بین الاقوامی میڈیا تک پہنچیں‘Welthungerhilfe نے دکھ کی اس گھڑی میں پاکستانیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا‘ جیوانی16 جنوری 2012ء کو پروجیکٹ منیجر کی حیثیت سے پاکستان آیا‘ یہ اگلے دن ملتان پہنچ گیا۔
یہ19 جنوری کی شام کوٹ ادو کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر کے اپنے جرمن ساتھی برنڈ میولین بیک کے ساتھ ملتان واپس آیا اور اسی شام انھیں طالبان نے ملتان کے علاقے قاسم بیلاسے اغواء کر لیا‘ یہ خبر خوفناک تھی‘یہ سنسنی بن کر پوری دنیا میںپھیل گئی‘ طالبان جیوانی لوپورٹو اور برنڈ میولین بیک کو ملک کے مختلف علاقوں اور شہروں سے گزار کر وزیرستان لے گئے‘ یہ ان دونوں کو کبھی افغانستان لے جاتے تھے اور کبھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قید کر دیتے تھے‘ اٹلی‘ جرمنی اور امریکا نے کوشش کی‘ طالبان نے اکتوبر 2014ء میں برنڈ میولین بیک کو کابل کے نواح میں رہا کر دیا اور یہ خصوصی طیارے کے ذریعے جرمنی روانہ ہو گیا جب کہ جیوانی 2015ء کے آغاز تک طالبان کے قبضے میں رہا‘ امریکا نے 15 جنوری 2015ء کو جنوبی وزیرستان کے علاقے وچہ درہ کے ایک مکان پر ڈرون حملہ کیا‘ حملے میں سات لوگ ہلاک ہو گئے۔
ہلاک ہونے والوں میں جیوانی اور وارن وائن سٹائن بھی شامل تھے‘ وارن وائن سٹائن 73 سالہ امریکی تھا‘ میری لینڈ کا رہنے والا تھا‘ جے آسٹن ایسوسی ایٹس میں کام کرتا تھا‘ پاکستان میں فرم کا کنٹری ہیڈ تھا‘ وہ 13 اگست 2011ء کو ماڈل ٹاؤن لاہور سے اغواء ہوا تھا‘ القاعدہ نے اغواء کی ذمے داری قبول کی اور اسے جنوبی وزیرستان میں منتقل کر دیا‘ القاعدہ نے بعد ازاں وارن وائن سٹائن کے دو ویڈیو پیغام جاری کیے‘ وارن نے دونوں پیغامات میں صدر اوباما سے رہائی کی اپیل کی‘ وہ دل اور دمے کا مریض تھا‘ اس نے طالبان کی قید میں خاصا مشکل وقت گزارا‘ القاعدہ اس کی رہائی کے بدلے امریکا سے اپنا ایک ساتھی چھڑانا چاہتی تھی لیکن سودا نہ ہو سکا‘ یہ بھی 15 جنوری 2015ء کو جیوانی لوپورٹو کے ساتھ وچہ درہ میں قید تھا‘ ڈرون حملہ ہوا اور یہ دونوں پانچ طالبان کے ساتھ ہلاک ہو گئے۔
طالبان نے جیوانی لوپورٹو اور وارن وائن سٹائن کے جسموں کے ٹکڑے جمع کیے اور انھیں وچہ درہ میں دفن کر دیا۔ یوں یہ دونوں بھی ڈرون حملوں کے شکار ہزاروں بے گناہوں کے ساتھ مٹی کا رزق بن گئے‘ اٹلی کی حکومت کے تین افسر پاکستان اور افغانستان کے چند لوگوں کے ذریعے طالبان سے رابطے میں تھے‘ یہ طالبان سے جیوانی کی رہائی کے لیے مذاکرات کر رہے تھے‘ طالبان نے جنوری کے آخر میں انھیں جیوانی کی ہلاکت کی اطلاع دے دی‘ یہ خبر خوفناک تھی‘ اطالوی حکومت نے تصدیق کرائی‘ خبر سچ نکلی‘ اٹلی نے امریکا سے احتجاج شروع کر دیا‘ امریکی حکومت نے بھی تصدیق کے لیے ہرکارے دوڑا دیے‘ فروری کے دوسرے ہفتے میں جیوانی اور وارن وائن سٹائن دونوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی‘ امریکی جاسوسوں نے جیوانی اور وارن کی قبریں کھود کر لاشوں کے ٹکڑے سفارتی عملے کے حوالے کر دیے۔
ڈی این اے ٹیسٹ ہوا اور شک کا امکان تک ختم ہو گیا‘ یہ خبر مارچ میں اطالوی میڈیا تک پہنچی‘ خبریں شایع ہوئیں اور اطالوی حکومت‘ سول سوسائٹی اور میڈیا نے امریکا کا ناطقہ بند کر دیا‘ روم میں امریکی سفارت خانہ پریشر میں آ گیا‘ یہ دباؤ اتنا بڑھا کہ امریکی صدر بارک اوباما 23 اپریل 2015 ء کو پریس کانفرنس میں جیوانی اور وارن وائن سٹائن کے خاندان سے معافی مانگنے پر مجبور ہوگئے‘ صدر اوباما کا کہنا تھا ’’میں صدر اور کمانڈر انچیف کی حیثیت سے جیوانی اور وارن کی موت کی ذمے داری قبول کرتا ہوں‘ یہ دونوں بے گناہ اور بہادر تھے‘ ہمارے پاس ان کی وزیرستان میں موجودگی کی کوئی اطلاع نہیں تھی ورنہ میں کبھی اس آپریشن کی اجازت نہ دیتا‘ میں شوہر اور والد کی حیثیت سے جانتا ہوں آج وارن اور جیوانی کے اہل خانہ کس کرب سے گزر رہے ہوں گے۔
ہم پوری کوشش کریں گے آیندہ کوئی ایسی غلطی نہ ہو‘ میں دونوں کے خاندانوں سے معافی مانگتا ہوں‘‘ وائیٹ ہاؤس نے بھی تحریری وضاحت جاری کی‘ وضاحت میں لکھا گیا ’’یہ حملہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں القاعدہ کے ٹھکانے پر کیا گیا تھا‘ ہمیں ہرگز یہ اندازہ نہیں تھا وہاں سویلین بھی موجود ہیں‘‘ آپ اندازہ کیجیے امریکا سویلین بھی امریکی اور یورپی باشندوں کو سمجھتا ہے‘ اوباما نے معافی مانگ لی لیکن جیوانی کا خاندان امریکی صدر کو معاف کرنے پر رضا مند نہ ہوا چنانچہ یہ معاملہ اٹلی اور امریکا کے درمیان سال بھر نزع کا باعث بنا رہا یہاں تک کہ امریکی حکومت اور جیوانی کے خاندان کے درمیان 8 جولائی 2016ء کو معاہدہ ہو گیا‘ امریکا نے جیوانی کی والدہ گیوسی (Giusy)‘ والد ویٹو لوپورٹو اور بھائی ڈینیل لوپورٹو کو 11 لاکھ 85 ہزار یورو بطور خون بہا ادا کیے‘ جیوانی کے والدین نے چیک وصول کیا اور امریکی صدر اور امریکی حکومت کو معافی کا سر ٹیفکیٹ دے دیا‘ امریکی حکومت اب وارن وائن سٹائن کے لواحقین کو بھی معاوضے کے لیے تیار کر رہی ہے۔
یہ تصویر کا ایک رخ تھا‘ آپ اب دوسرا رخ بھی ملاحظہ کیجیے‘ امریکا نے 18 جون 2004ء کو پاکستان پر پہلا ڈرون حملہ کیا‘ یہ حملہ طالبان کمانڈر نیک محمد پر جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں کیا گیا‘ حملے میں نیک محمد سمیت 8 لوگ جاں بحق ہو گئے‘ ان میں دو بچے بھی شامل تھے‘ یہ پاکستان میں ڈرون حملوں کا آغاز تھا‘ امریکا پاکستان میں اب تک 401 ڈرون حملے کر چکا ہے جن میں چار ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں‘ ہلاک شدگان میں ڈیڑھ ہزار لوگ سو فیصد بے گناہ تھے‘ امریکا کے 401 حملوں میں 13 جنوری 2006ء کا وہ حملہ بھی شامل ہے جس میں ڈمہ ڈولہ کے مدرسے کے 90 بچے شہید ہو گئے‘ یہ تمام بچے بھی بے گناہ تھے لیکن امریکا ان ڈیڑھ ہزار معصوم لوگوں کو بے گناہ ہونے کے باوجود گناہ گار سمجھتا تھا‘ کیوں؟
کیونکہ یہ لوگ مسلمان اور پاکستانی تھے اور یہ گناہ دنیا کا سنگین ترین گناہ ہے‘ کیا یہ گناہ نہیں یہ 1500 لوگ پاکستان میں پیدا ہو ئے اورکیا یہ حقیقت نہیں یہ لوگ اگر اطالوی‘ فرنچ‘ سپینش یا نارویجین ہوتے تو امریکا ان پر ڈرون حملے کی جرات کرتا؟ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو داعش کی مثال لے لیجیے‘ داعش نے پورا مڈل ایسٹ تباہ کر دیا لیکن امریکا داعش کے ٹھکانوںپر حملے نہیں کررہا‘ کیوں؟ کیونکہ داعش میں یورپ‘ آسٹریلیا اور روس کے باشندے شامل ہیں اور امریکا کا خیال ہے اگر ہمارے ڈرون حملے میں کوئی یورپی یا آسٹریلین شہری ہلاک ہو گیا تو ہمارے لیے جواب دینا مشکل ہو جائے گا چنانچہ امریکا اربوں ڈالر کے نقصان اور ہزاروں ہلاکتوں کے باوجود داعش کے خلاف ایکشن نہیں لے رہا جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں اب تک 401 ڈرون حملے ہو چکے ہیں۔
چار ہزار لوگ ہلاک ہوئے‘ ان میں ڈیڑھ ہزار بے گناہ تھے لیکن امریکا نے ان ڈیڑھ ہزار بے گناہوں کا خون بہا دینا تو دور آج تک لواحقین سے معافی تک نہیں مانگی‘ کیوں؟ کیونکہ یہ بے بس پاکستانی مسلمان تھے اور صدر اوباما کے دل میں کسی پاکستانی کے لیے نرم گوشہ ہے اور نہ ہی مسلمان کے لیے‘ یہ لوگ صرف فرینڈلی فائر کا نشانہ بننے اور ’’کولیٹرل ڈیمیج‘‘ ہو کر امریکی فائل میں دفن ہونے کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور ان کا خون خون نہیں ہوتا‘ پانی ہوتا ہے اور زمین میں جذب ہو جانا پانی کا مقدر ہوتا ہے۔
کاش یہ لوگ بھی اطالوی ہوتے‘ یہ لوگ بھی سسلی میں پیدا ہوئے ہوتے اور ان کی ماؤں نے انھیں اللہ اکبر کے بجائے ببتسما دیا ہوتا تو امریکا ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا اور یہ لوگ اگر جیوانی اور وارن وائن سٹائن کی طرح غلطی سے ڈرون کا نشانہ بن بھی جاتے تو امریکی صدر پریس کانفرنس میں ان کے خاندان سے معافی مانگتا‘ امریکی سفیر ان کی ماؤں کے پاؤں چھوتا اور جھک کر انھیں خون بہا کا چیک پیش کرتا لیکن افسوس یہ اطالوی نہیں تھے۔
یہ مسلمان تھے‘ یہ پاکستانی تھے اور امریکا کسی پاکستانی‘ کسی مسلمان کو انسان نہیں سمجھتا‘ ہم لوگ مچھر ہیں‘ مچھر کی طرح مار دیے جاتے ہیں اور اس وقت تک مچھر کی طرح مارے جاتے رہیں گے جب تک دنیا ہمیں انسان کا اسٹیٹس نہیں دیتی اور یہ اسٹیٹس صرف جیوانی اور وارن وائن سٹائن جیسے لوگوں کو حاصل ہے‘ باقی دنیا جنگل ہے اور ہم اس جنگل میں رہنے والے حقیر جانور ہیں‘ ایسے جانور جن کی زندگی کو بھی صدر اوباما جیسے لوگ اضافی سمجھتے ہیں۔ ’’ہم لوگ کب انسان سمجھے جائیں گے‘‘ آج 401 ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ پاکستانی صدر اوباما سے یہ معصومانہ سا سوال پوچھ رہے ہیں۔
تبصرہ لکھیے