اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اکہترواں اجلاس پیر کے روز نیو یارک میں شروع ہوا۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف بھی اس اجلاس سے خطاب فرمانے کے لیے نیویارک پہنچ چکے ہیں۔ پیر ہی کے روز انہوں نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے سے اہم دو طرفہ ملاقاتیں کیں۔
یوں تو وزیر اعظم ہر سال جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے تشریف لے جاتے ہیں تاہم اس سال اس دورہ اور ان کے خطاب کی اہمیت دوچند کہی جاسکتی ہے۔ سفارتی حلقوں کے مطابق کشمیر کے حوالہ سے ان کی تقریر پر بہت زیادہ فوکس ہے۔ پاکستان کی سابق وزیر خارجہ محترمہ حنا ربانی کھر نے ایک ٹی وی پروگرام میں فرمایا کہ کشمیر کا ذکر ہر سال ہی ہوتا ہے اس بار بھی ہوگا اور اس میں کچھ خاص بات نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔
کشمیر میں بھارتی قبضہ کے خلاف اٹھنے والی ہمہ گیر تحریک اور اس کی سرکوبی کے لیے بھارت کی جانب سے ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم اس سال کی تقریر کو اہم بناتے ہیں۔
یہی نہیں، کچھ اور عوامل بھی ایسے ہیں جو اس بار مختلف ہیں۔ کشمیر کی تحریک سے بوکھلاہٹ کے شکار بھارت کی جانب سے بلوچستان اور گلگت بلتستان میں مبینہ پاکستانی مظالم اور وہاں ”آزادی“ کے حوالہ سے بیانات و اقدامات، بشمول براہمدغ بگٹی کو سیاسی پناہ دینے کا معاملہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنارہے ہیں۔ اتوار کو مقبوضہ کشمیر میں اڑی کے مقام پر قائم بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈ کرارٹر پر مسلح حملہ جس میں 17 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے، خطے کے امن کو نئے خطرات سے دو چار کر رہا ہے۔
گمان ہے کہ بھارت ہر صورت پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ وہ اقوام متحدہ کے فورم پر اس مسئلہ کو مؤثر طور اٹھا نہ سکے۔ بعض مبصرین کی رائے میں اڑی کے حملہ کو اس کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں در اندازی کر رہا ہے۔ اس بات کی واضح تردید پاکستانی ڈی جی ایم او پہلے بھی کرچکے ہیں اور خود پاکستان نے اقوام متحدہ کے مبصرین کو کہا ہے کہ وہ کنٹرول لائن کی مانیٹرنگ کریں جبکہ بھارت اس سے انکار کر رہا ہے۔ اس لیے اس بابت پاکستان کا کیس مضبوط ہے۔ پاکستان کو یہ باور کروانا چاہیے کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر کشمیر میں چٹی سنگھ پورہ میں اجتماعی قتل کی لرزہ خیز واردات اور سمجھوتا ایکسپریس جیسے سانحات کا بعد میں بھارت کا ”اندرونی“ کام ثابت ہو جانے کے باوجود پاکستان کسی بھی ٹھوس انٹیلی جنس پر کاروائی کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ بھارت کے ایما پر وزیر اعظم پاکستان کے خطاب کے موقع پر نام نہاد بلوچ تنظیمیں یا پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کی لندن شاخ کے کچھ لوگ اقوام متحدہ کے سامنے احتجاج کے لیے موجود رہیں۔ اس کے مؤثر سدباب کے لیے بھی اقدامات ضروری ہیں۔ اچھا ہوتا اگر پاکستان سے بلوچ قیادت اور کراچی سے ایم کیو ایم پاکستان کے لوگ وزیر اعظم کے ہمراہ ہوتے۔
وزیر اعظم کو اپنی ملاقاتوں اور پھر جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں تین باتوں پر زور دینا چاہیے۔
اول یہ کہ پاکستان ہمیشہ سے ”حل“ کا حصہ رہا ہے، مسئلہ کا نہیں، اور اس کا کردار اسی روشنی میں دیکھا جائے۔ امریکا اور چین کے مابین روابط کے قیام میں اعانت ہو، ایران عراق جنگ ہو، اقوام متحدہ کے تحت امن خدمات ہوں پاکستان ہمیشہ ایک ذمہ دارانہ رول ادا کرتا آیا ہے۔ یہاں تک کہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے لیے سب سے بہتر کمانڈ، کنٹرول اور تحفظ کا نظام بھی پاکستان نے ترتیب دی اور اس حوالہ سے اپنی میچیورٹی سب پر واضح کردی۔
1979 اور 2001ء کے واقعات پاکستان کے تخلیق کردہ نہیں تھے۔ لیکن عالمی امن اور اقوام متحدہ کی ساکھ کے لیے پاکستان نے اپنی سر زمین کو جنگ کا میدان بنایا۔ اپنی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر عالمی اتفاق رائے کو سپورٹ کیا۔ اپنے عوام کی ضروریات پورا نہ کرسکنے کے باوجود 30 لاکھ سے زائد مہاجرین کا بوجھ اٹھایا۔ آج پاکستان کو کسی بھی طرح موجودہ عالمی حالات کے لیے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ پراکسی وار کا یہ طریقہ خود امریکا کی دین ہے۔
دوم یہ کہ پاکستان اور خطہ کے امن کے لیے کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ضروری ہے۔ یہ کشمیریوں کا وہ حق ہے جو اقوام متحدہ نے تسلیم کررکھا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اس پر مثبت اور ٹھوس پیش رفت کی جائے۔ کشمیر کا مسئلہ خطہ اور عالمی امن کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہے۔ یہ ایک ایسا ٹائم بم ہے جو کسی حادثہ کی صورت اچانک بھی پھٹ سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر، یہ ایک انسانی المیہ بننے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس کا حل بھی اسی جذبہ کا متقاضی ہے جو ہم نے دارفر اور مشرقی تیمور کے معاملہ میں دیکھا۔ کشمیر آج الفاظ کے بجائے عمل کا منتظر ہے۔ پہلے قدم کے طور پر وہاں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ فوری بند کروایا جائے اور پیلٹ گن کے استعمال جیسے بہیمانہ اقدامات کی فوری روک تھام کا بندوبست کیا جائے تاکہ مظلوم کشمیریوں تک اقوام عالم کا واضح پیغام پہنچ سکے۔ نیز اقوام متحدہ اپنی سیکورٹی کونسل کی ان قراردادوں پر عمل درآمد کروائے جن میں کشمیری عوام کو ان کے مستقبل کا آزادانہ فیصلہ کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
سوم۔ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اور افغان مہاجرین کی باعزت اپنے گھروں کو واپسی وہ بنیادی اقدامات ہیں جس کے نتیجہ میں پاکستان اپنی معیشت، سماجیات اور ملینیم ڈویلپمنٹ گولز جیسے اہداف پر فوکس کرسکے گا۔ پاکستان ایک صلح جو ملک ہے، ہم بشمول اپنے سب کے لیے امن کے خواہشمند ہیں۔ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے بجائے ہمارے ساتھ پارٹنرشپ قائم کی جائے۔ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ پاکستان کی ساجھے داری اس کی ایک روشن اور قابل تقلید مثال ہے۔
پاکستان نے عالمی امن کے لیے بہت قربانی دی، اب دنیا کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ ہماری قربانیوں کی قدر کرتی ہے اور ہمیں پرسکون اور آسودہ زندگی کا ہمارا بنیادی حق ہمیں لوٹانے کو تیار ہے۔
تبصرہ لکھیے