احمد بشیر طاہر صاحب کی بہترین قوت برداشت آج کل کرچیوں کی شکل میں دستیاب ہے۔ وہ ایک دن ڈاکٹر مشتاق صاحب کو یہ درس دیتے نظر آتے ہیں کہ علمی گفتگو میں طنز نہیں ہونا چاہیے تو اگلے ہی دن ارشاد فرما دیتے ہیں ”ایک سو دس گز کی پوسٹیں لکھنا ہمارا شیوہ نہیں“ اس سطر میں لفظ ”شیوہ“ دامن کھینچ کھینچ کر خصوصی التفات چاہتا ہے لیکن آج تو احمد بھائی کی وہ حزنیہ اپیل ہماری توجہ پر قربانی کی کھال کی طرح حق جتا جتا کر اسے کھینچے چلی جا رہی ہے جس میں ان کا کل مطالبہ یہ ہے کہ ”ہمیں غامدی نہ کہا جائے“ اور اتنی سی بات کے لیے انہوں نے غامدی صاحب سے لے کر فراہی صاحب تک سب نام گنوا کر استدلال فرمایا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اپنا کوئی فرقہ نہیں بنایا۔ لگتا ہے غامدی حضرات اپنے استاذ کی کتب عیسائی مشنریوں کی طرح صرف ”گمراہوں“ میں بانٹتے ہیں، خود پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں فرماتے۔ چلیں ہم انہیں دکھاتے ہیں کہ فرقہ خود ان کے استاذ محترم 1987ء میں تشکیل دینے کی کوشش فرما چکے ہیں اور کوشش بھی ایسی کہ اس میں تاریخ کے ساتھ اپنی نوعیت کا عجیب و غریب ہی کھلواڑ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ ذکر لازم ہے کہ غامدی صاحب نے جو فرقہ تشکیل دینے کی کوشش کی، اسے کسی نے بھی قبول نہیں کیا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ غامدی صاحب کی وہ تشکیل مکمل طور پر خلاف حقیقت تھی۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں۔
”شبلی ان دونوں کے مقابلے میں ایک تیسری جماعت کے بانی ہوئے. اس جماعت کے بنیادی اصول دو تھے۔ ایک یہ کہ ہمارے لیے ترقی یہی ہے کہ ہم پیچھے ہٹتے چلے جائیں یہاں تک کہ اس دور میں پہنچ جائیں جب قرآن اتر رہا تھا اور خدا کا آخری پیغمبر خود انسانوں سے مخاطب تھا۔ اور دوسرے یہ کہ یہ خود قدیم کی ضرورت ہے کہ ہم جدید سے بھی اسی طرح آشنا رہیں جس طرح قدیم سے ہماری شناسائی ہے۔ سید سلیمان ندوی، ابوالکلام آزاد، ابوالاعلیٰ مودودی، حمید الدین فراہی، امین احسن اصلاحی، یہ سب اسی جماعت کے اکابر ہیں۔ میں اسے ”دبستانِ شبلی“ کہتا ہوں۔ اقبال بھی زیادہ تر اسی دبستان سے متعلق رہے۔“ (مقامات صفحہ 64)
اس اقتباس میں غامدی صاحب اپنا تسلسل ثابت کرنے کے لیے ایک فرقہ ہی تشکیل دیتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر کوئی اس حلقے کو ادبی پس منظر میں حلقہ کہہ کر یکجا ذکر کرتا تو مجھے تسلیم کرنے میں تردد نہ ہوتا لیکن غامدی صاحب اسی مضمون میں پیچھے خالص دینی حوالے سے بات کر رہے ہیں اور صرف بات نہیں کر رہے بلکہ باقی دو گروہوں کا بھی تعارف کراتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
”ان میں سے ایک گروہ اس بات پر مصر ہوا کہ نہ دین کو خاص اپنے مکتب فکر کے اصول و مبادی اور اپنے اکابر کی رایوں سے بالاتر ہو کر براہ راست قرآن و سنت سے سمجھنا ممکن ہے اور نہ مغربی تہذیب اور اس کے علوم اس کے مستحق ہیں کہ وہ کسی پہلو سے اہل دین کی نظروں میں ٹھہریں۔ اس گروہ کے بڑوں میں قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی، محمود الحسن دیوبندی، انور شاہ کاشمیری، حسین احمد مدنی، اشرف علی تھانوی اور شبیر احمد عثمانی کے نام بہت نمایاں ہیں۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جن کے نزدیک حق و باطل کا معیار یہی تہذیب اور اس کے علوم قرار پائے، ان کا سرخیل وہی بڈھا تھا جس کے بارے میں خود شبلی نے کہا تھا،
پیری سے کمر میں ایک ذرا خم
توقیر کی صورت مجسم“
(مقامات صفحہ 63)
یہ بات تاریخی طور پر ثابت شدہ اور مسلم ہے کہ شبلی نعمانی جس جماعت کے بانی ہوئے وہ ”ندوۃ العلماء“ کے نام سے اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ شبلی سرسید کے شاگرد اور جدیدیت میں ان کے ہم مشرب تھے۔ چنانچہ خود اہل ندوہ نے ہی انہیں ندوۃ العلماء سے مستعفی ہونے پر مجبور کردیا تھا اور وجہ اس کی یہ تھی کہ شبلی کے سوا تمام اہل ندوہ دین کی روایت کے دائرے میں کھڑے کٹر حنفی و صوفی علماء تھے، یوں شبلی اپنی ہی جماعت میں ایک ”اجنبی“ کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کے خیالات سے باقی جماعت متفق نہ تھی۔ اسی جماعت میں آگے چل کر سید سلیمان ندوی، عبدالماجد دریا آبادی اور سید ابوالحسن علی ندوی جیسے نابغے نمایاں ہوئے۔ فکر کے اعتبار سے اہل ندوہ کے حقیقی سرخیل سید سلیمان ندوی ہی ہیں اور اس جماعت سے مولانا آزاد، مولانا فراہی، مولانا مودودی یا علامہ اقبال کا کوئی تعلق نہ تھا۔ بالخصوص مولانا آزاد سے سید سلیمان ندوی اور عبدالماجد دریا آبادی کا عناد تاریخ کا حصہ ہے جو آج کے اہل ندوہ میں بھی وقتا فوقتا ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ لہذا مولانا آزاد کو ان کی جانب منسوب کرنا کسی سنگین مذاق سے کم نہیں۔ صرف یہی نہیں کہ مولانا کو اہل ندوہ سے منسوب کرنا غلط ہے بلکہ شبلی کی جانب منسوب کرنا بھی بد دیانتی ہے کیونکہ مولانا آزاد دینی روایت کے آدمی تھے۔
یہ بات غامدی صاحب بھی جانتے تھے کہ وہ ان لوگوں کو ایک جماعت قرار دے رہے ہیں جن کا ایک جماعت ہونا کسی طور بھی ثابت نہیں چنانچہ اگلے مرحلے میں وہ اس فرضی جماعت کو توڑتے ہوئے پہلے سے بھی زیادہ سنگین مذاق کر جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے خیالوں کے ”دبستان شبلی“ سے ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال اور مولانا مودودی کو خارج کر دیتے ہیں بلکہ کمال کی ٹانگیں توڑتے ہوئے سید سلیمان ندوی اور عبدالماجد دریا آبادی کو بھی نکال باہر پھینکتے ہیں جبکہ حقیقت میں تیسری جماعت نام کی کوئی چیز اگر موجود تھی تو وہ تھی ہی ندوۃ العلماء۔ شبلی اور مولانا فراہی دو تنہا افراد تھے جن کی کوئی جماعت نہ تھی۔ شبلی فراہی کے استاذ تو تھے لیکن فراہی کے خیالات سے مکمل ہم آہنگی نہ رکھتے تھے چنانچہ ان کا تعلق خاندانی ہی رہا فکری نہیں۔ شبلی 1914ء میں انتقال کر گئے جس کے بعد فراہی کی تنہائی مزید بڑھ گئی جو بہت بعد میں مولانا اصلاحی کی آمد سے ہی ختم ہوئی۔ ہر چند کہ غامدی صاحب کا یہ اخراجی عمل درحقیقت اپنے سپنوں کا دبستانِ شبلی تشکیل دینے کے لیے ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں ان کا یہ ”دبستانِ شبلی“ اپنی فائنل اور مطلوبہ شیپ میں شبلی نعمانی، حمیدالدین فراہی، امین احسن اصلاحی پر مشتمل نظر آتا ہے جس کے موصوف چوتھے امام سمجھے جاتے ہیں لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ اس دبستان کی دو باہم مضبوط جڑی ہوئی کڑیاں صرف فراہی و اصلاحی ہیں۔ فراہی کا شبلی سے اور خود غامدی صاحب کا اصلاحی صاحب سے جوڑ فقط واجبی سا ہے۔ یہ کڑیاں کسی باقاعدہ نوعیت کے ایک ہی سسٹم کا حصہ نظر نہیں آتیں۔ شبلی اور فراہی کا ہم خیال نہ ہونا معروف ہے اور اصلاحی صاحب کا خود کو غامدی صاحب کے المورد سے دور رکھنا تو ابھی کل ہی کی بات ہے۔ وہ المورد کے افتتاح میں تو آئے لیکن اس کی سرپرستی کی اور نہ ہی اس سے کوئی تعلق رکھا اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اپنا سلسلہ اور شاگرد الگ ہی رکھے اور اپنی کتب کے حقوق بھی غامدی صاحب کو نہیں بلکہ اپنے انہی دیگر شاگردوں کو دیے جو آخری وقت تک ان سے اور ان کی فکر سے وابستہ رہے. پھر خاص طور پر اصلاحی صاحب کے شاگرد رشید خالد مسعود مرحوم کا اصلاحی صاحب کے بعد المورد سے تناؤ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لھذا دبستان شبلی فقط ایک خیالی ڈھکوسلہ ہے. یہ خارج میں کسی جماعتی صورت میں وجود ہی نہیں رکھتا۔ شبلی کے آخری ایام میں خود شبلی ایک الگ جگہ کھڑے تھے اور فراہی الگ مقام پر اور اصلاحی صاحب کے آخری ایام میں اصلاحی صاحب الگ مقام پر ملتے ہیں اور غامدی صاحب الگ مقام پر۔ اس صورتحال میں اس پورے دبستان میں اگر کوئی دو لوگ فکری اعتبار سے باہم مکمل ہم آہنگی کے ساتھ ملتے ہیں تو وہ فقط فراہی صاحب اور اصلاحی صاحب ہیں. اب اگر دو لوگ جماعت ہی قرار پاتے ہیں تو پھر شیخ رشید احمد کی تانگہ پارٹی اس سے زیادہ معتبر ہونی چاہیے کیونکہ وہاں دو سے زیادہ لوگ پائے جاتے ہیں۔
اپنے اسی مضمون میں جو مولانا آزاد کے خطوط کی ناکام پیروڈی ہے، غامدی صاحب جب اپنے خیالی دبستانِ شبلی سے اخراجی لاٹھی چلاتے ہوئے مختلف لوگوں کو نکالتے ہیں تو سید سلیمان ندوی اور عبدالماجد دریا آبادی کو بھی نکال باہر کرتے ہیں۔ ذرا ملاحظہ کیجیے کہ غامدی صاحب سید سلیمان ندوی اور عبد الماجد دریا آبادی کو اس تیسری جماعت سے نکالتے ہوئے ان پر فردِ جرم کیا عائد کرتے ہیں۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں۔
”سید سلیمان ندوی اگرچہ شبلی کے جانشیں ہوئے، لیکن حق یہ ہے کہ وہ پہلے گروہ ہی سے متعلق تھے۔ چنانچہ انہوں نے عملا اس حقیقت کو اس طرح ثابت کیا کہ مولانا اشرف علی تھانوی کی بیعت کرلی۔ عبدالماجد دریا آبادی کے بارے میں بھی خیال ہوتا ہے کہ شاید اسی جماعت کے فرد تھے، لیکن ان کی داستان حیات یہی ہے کہ دانش گاہ الحاد سے نکلے اور سیدھے تھانہ بھون کی خانقاہ میں پہنچ گئے۔“ (مقامات صفحہ 65)
اب یہاں سچائی بس اتنی سی ہے کہ ندوۃ العلماء اور دارالعلوم دیوبند میں فکری اعتبار سے کوئی بڑا جوہری فرق نہ تھا۔ دونوں ہی دین کی روایت کے دائرے میں کھڑے تھے. فرق بس یہ تھا کہ ندوہ والے جدید علوم سے استفادے کے بھی قائل تھے جبکہ دیوبند والے صرف دینی علوم پر توجہ مرکوز رکھنا ضروری خیال کرتے تھے۔ چنانچہ دیوبند اور ندوۃ العلماء دونوں ہی اہلسنت ولجماعت اور حنفی فکر کے نمائندہ تھے لہذا فاصلوں کا کوئی جواز ہی نہ تھا اور سید سلیمان ندوی و عبدالماجد دریا آبادی نے حضرت تھانوی کی بیعت کرکے درحقیقت یہ فاصلے ہی سمیٹے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دیوبندی ندوۃ العلماء کو پوری طرح اون کرتے ہیں۔
اب آجائیے اس کلیدی سوال کی جانب کہ فرقے یا مکاتب فکر باقاعدہ نام کیسے حاصل کر جاتے ہیں؟ اگر ہم ہندوستان کی ماضی قریب کی ہی تاریخ کا جائزہ لیں تو صاف نظر آئے گا کہ دیوبند کے علاقے میں قائم ہونے والے دارالعلوم دیوبند سے منسوب ہو کر دیوبندی مکتب فکر وجود میں آیا۔ بریلی میں قائم ہونے والے دارلعلوم سے منسوب ہو کر بریلوی مکتب فکر وجود میں آیا۔ لکھنؤ میں قائم ہونے والے ندوۃ العلماء سے منسوب ہو کر ندوی مکتب فکر وجود میں آیا۔ یعنی اداروں سے منسوب ہو کر مکاتب فکر بنے۔ فراہی صاحب اپنی تمام تر لیاقت کے باجود نہ تو کوئی ادارہ قائم کرسکے اور نہ ہی مولانا امین احسن اصلاحی کے سوا کسی قابل ذکر علمی شخصیت کو پوری طرح متاثر کر سکے۔ ان کی وفات پر سید سلیمان ندوی اور کچھ دیگر ہم عصر شخصیات مسلمانوں کے عام رواج کے مطابق ان کی جدائی میں حزنیہ نثری مرثیے تو لکھتے نظر آتے ہیں لیکن فراہی صاحب اپنی زندگی میں انھی ہمعصروں کے بیچ ایک متنازع شخصیت نظر آتے ہیں۔ مولانا آزاد تو ان کی وفات پر شردھانجلی میں بھی یہ کہہ کر کنائے میں بہت کچھ کہہ گئے ہیں ”مجھے ان کے علم سے زیادہ عمل نے متاثر کیا.“ مرثیہ تو خود غامدی صاحب نے بھی ڈاکٹر اسرار احمد کی وفات پر دنیا ٹی وی پر ایسا پڑھ رکھا ہے کہ سن کر لگتا ہے غامدی صاحب کی دنیا ہی اجڑ گئی ہے لیکن اپنی کتابوں میں وہ ڈاکٹر صاحب کی وہ تحقیر کرتے نظر آتے ہیں کہ سبحان اللہ۔
فراہی صاحب کی طرح تنہائی کا مولانا امین احسن اصلاحی کو بھی سامنا رہا، وہ بھی کوئی قابل ذکر ادارہ نہ بنا سکے فقط ایک ہی قابل ذکر شخص یعنی جاوید احمد غامدی کو متاثر کر سکے چنانچہ وہ بھی اپنی نسبت سے کوئی مکتب فکری شناخت نہ چھوڑ سکے۔ غامدی صاحب کو جنرل مشرف کی برکت سے بہت محدود سہی لیکن گروہ میسر ہے۔ چنانچہ ان کی فکر ”غامدیت“ اور ان کا گروہ ”غامدی“ کہلاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا ادارہ ”المورد“ کے نام سے موجود ہے لیکن ان کا گروہ برصغیر کے عام رواج کے برخلاف اس ادارے کے بجائے غامدی صاحب کی ذات سے منسوب ہے جس میں غامدی صاحب کی اپنی حکمت عملی کو بڑا دخل ہے۔ المورد میں موجود ان کے شاگرد بہت سے مسائل میں ان سے اختلاف رکھتے ہیں اور بہت سے نازک مواقع پر یا تو ان کا دفاع ہی نہیں کرتے اور یا حد یہ کر دیتے ہیں کہ استاذ کی رائے کو ہی غلط کہہ دیتے ہیں۔ اب احناف جیسی وسعت تو یہاں ہے نہیں کہ استاذ کے علاوہ کسی اور کی رائے بھی ”غامدیت“ کہلا سکے چنانچہ غامدی صاحب اپنی فکر کے حوالے سے یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ میری فکر میری کتب میں دیکھی جائے، المورد کے دیگر سکالرز میرے ترجمان نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس فکر پر آپ کی مناپلی کیوں ہے؟ آپ کے کسی شاگرد کا تفرد بھی اس کا حصہ کیوں نہیں بن سکتا؟ اس ون مین شو کے سبب ہی خود غامدی گروہ کے افراد ان دیگر سکالرز کے بجائے فقط غامدی صاحب کی جانب متوجہ رہتے ہیں اور اگر کبھی سوشل میڈیا میں المورد کا کوئی دوسرا سکالر سوالات کے نرغے میں آجائے تو غامدی صاحب کے پرستار اسے ریسکیو کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہاں! اگر بات غامدی صاحب پر آجائے تو پھر یہ گروہ کیل کانٹوں سے لیس ہو کر انہیں معصوم عن الخطاء ثابت کرنے کے لیے میدان میں کود پڑتا ہے۔ جس میں ان کا پہلا دعویٰ یہ ہوتا ہے غامدی صاحب بہت ہی عام فہم زبان کے مالک ہیں اور آخری دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ ”آپ لوگ غامدی صاحب کی بات سمجھ ہی نہیں سکے“ یعنی وہ اتنے عام فہم ہیں کہ اہل علم انہیں سمجھنے میں دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ اور یہی لطیفے غامدیت کو ایک مذاق کا درجہ دے دیتے ہیں۔
اب ستم ظریفی یہ ہے کہ موجودہ ماحول میں ”فرقہ“ گالی کا درجہ اختیار کر گیا ہے تو اس گروہ کے افراد اس سے دامن بچا کر رکھنا چاہتے ہیں، یعنی قتل تو کرنا چاہتے ہیں مگر قاتل کہلانا پسند نہیں کرتے، اگر آپ ان سے پوچھیں کہ صاحب ! بتائیے پھر آپ کو کیا کہا جائے؟ تو بڑی معصومیت سے کہہ دیتے ہیں ”بس مسلمان کہہ دیجیے.“ اس معصومیت کے پیچھے ایک پوری واردات موجود ہے اور واردات یہ ہے کہ اہل سنت کی تو یہ تصوف کی آڑ میں تکفیر کرچکے ہیں، لہذا اگر کوئی مسلمان بچتا ہے تو وہ بس یہی ہیں۔ معصوم خواہشیں پالنے پر پابندی کوئی نہیں لیکن ہماری احمد بشیر طاہر صاحب سے یہی گزارش ہے کہ فرقہ تو آپ ہیں ہی اور وہ بھی تکفیری فرقہ، لہذا بہتر یہی ہے کہ ”غامدی“ کہلانے پر شرمندہ نہ ہوں ورنہ فرقے کے بجائے کوئی اور سخت لفظ مثلا ”ٹولہ“ مارکیٹ میں رائج ہوجائے گا جو زیادہ تکلیف دہ ہوجائے گا۔ سوشل میڈیا پر آنے والے علمی مضامین یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچا چکے ہیں کہ جس گروہ کی وہ نمائندگی رکھتے ہیں وہ منکرین حدیث کا ”غامدی فرقہ“ ہی ہے !
اچھا ہے