ہوم << جنرل پیٹن، دوسری جنگ عظیم کا عظیم کردار - عمران زاہد

جنرل پیٹن، دوسری جنگ عظیم کا عظیم کردار - عمران زاہد

عمران زاہد دوسری جنگ عظیم کے موضوع پر ہالی وڈ نے بہت سی فلمیں بنائی ہیں جیسے کہ:
Guns of Navaron, The Bridge o river Kawai, Casablanca, U-571, Das Boot, The longest day وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب فلمیں ہی شاندار ہیں۔ آج بھی جب سینما میں لگتی ہیں تو اچھا خاصا بزنس کرتی ہیں۔ حال میں ہی ایک مووی جو بہت پسند آئی Patton ہے۔ یہ فلم 1970ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
جنرل پیٹن امریکہ کی طرف سے دوسری جنگ عظیم میں شریک تھا اور اپنی جارحانہ پیش قدمی اور تیز رفتاری کے لیے جانا جاتا تھا۔ غیر محتاط زبان کے استعمال کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی آنکھ میں کھٹکھتا بھی تھا۔ اس کی بدتمیزی اور بدکلامی کے سبب ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب اسے کمانڈ سے فارغ کرنے پر غور کیا جا رہا تھا۔ جنرل پیٹن کی بدکلامی ایسی مشہور تھی کہ آج کے مشہور امریکی صدارت کے امیدوار ٹرمپ کو بھی اس سے تشبیہہ دی گئی ہے۔
جنرل پیٹن نے شمالی افریقہ (تیونس وغیرہ) میں جرمنی اور اٹلی کی مشترکہ فوج، جو جرمنی کے جنرل رومیل کی کمانڈ میں تھی، کو ٹینکوں کی جنگ میں شکست دی۔۔ اس کے بعد سسلی سے یورپ کے میدانِ جنگ میں داخل ہوا۔ برٹش جنرلز امریکی جنرل کو کسی بڑے اعزاز سے محروم رکھنا چاہتے تھے، لہٰذا اس کو بڑا ثانوی قسم کا ٹاسک سونپا گیا تھا لیکن جنرل نے چالاکی سے کام لے کر ہائی کمانڈ کے احکام کی من مرضی کی تشریح کر کے سسلی کے قصبوں پالئیرمو (ُPalermo) اور مسینا (Messina) پر قبضہ کر کے برٹش جنرلوں کو پریشان کر دیا۔ ہائی کمانڈ نے جنرل کو مسینا سے دور رہنے کا کہا تھا لیکن جنرل نے بہانہ بنایا کہ وائرلیس پیغام ٹھیک طرح سے نہیں ملا، اس لیے پیغام دوبارہ بھیجا جائے۔ جب پیغام دوبارہ موصول ہوا اس وقت جنرل مسینا میں داخل ہو رہا تھا۔ جنرل کی ظریفانہ طبعیت کا اس کے اس پیغام سے پتہ چلتا ہے جو اس نے جواباً اپنی کمانڈ کو بھیجا:
Have taken Messina, Do you want me to give it back.
سن چوالیس میں جب اتحادی فوجوں نے نارمنڈی کے ساحلوں پر دھاوا بولا اس وقت جنرل پیٹن زیرِعتاب تھا اور اسے بےضرر سی پوزیشن پر تعینات کر دیا گیا تھا۔ وہ چاہنے کے باوجود اس جنگ میں کوئی اہم کردار ادا کرنے سے قاصر تھا۔ جنرل کو بہت سے مواقع پر جب وہ جرمنی میں داخل ہو سکتا تھا، ایندھن اور سپلائی سے محروم رکھا گیا اور دوسروں کو اس پر ترجیح دی گئی۔ تاہم پھر بھی جنگ کے خاتمے تک بہت سے معرکے اس کے اعزاز پر ہیں۔ اس کو قدرت کی طرف سے مواقع ملے جن میں اس نے دل کھول کر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ جنرل پیٹن کی بہت زیادہ دلچسپی عسکری تاریخ سے تھی۔ اس کی تقریباً تمام جنگی چالوں میں تاریخی عسکری واقعات کی جھلک ملتی ہے۔
سن پنتالیس کے وسط میں ہٹلر کی خودکشی اور جرمن افواج کی پسپائی کے بعد یورپ میں جنگ کو خاتمہ ہو گیا اور جنرل جرمنی میں مقیم واپس امریکہ جانے اور کرسمس اپنے خاندان کے ساتھ منانے کا منصوبہ بنا رہا تھا کہ اس کے ساتھی جنرل نے اسے کھانے پر مدعو کیا تاکہ طبعیت کا تکدر دور کیا جا سکے۔ سڑک کے کنارے تباہ شدہ گاڑیوں کو دیکھ کر جنرل نے تبصرہ کیا کہ
”How awful war is. Think of the waste.“
چند لمحے بعد ہی اس کی اپنی کار ایک امریکی ٹینک سے جا ٹکرائی۔ باقی لوگوں کو تو ہلکی پھلکی چوٹیں آئیں، لیکن اس کے سر پر شدید چوٹ آئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں اس کے سر پر فریکچر آئے، اس کا حرام مغز شدید متاثر ہوا اور گردن سے نیچے سارے جسم اپاہج ہو کر رہ گیا۔ تیرہ چودہ دن بعد وہ سوتے ہوئے ہی اللہ کے پاس پہنچ گیا۔ بسترِ مرگ پہ اس نے تبصرہ کیا کہ
”This is a hell of a way to die.“
جس جرنیل کو چار سالوں میں جنگ ہلاک نہ کر پائی وہ جنگ ختم ہونے کے صرف چار ماہ بعد ایک معمولی حادثے میں جاں بحق ہو گیا۔ اللہ کے رنگ نیارے۔
اس فلم میں جنرل پیٹن کا کردار جارج سی سکاٹ نے ادا کیا۔ بہترین اداکاری پر اسے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے چنا گیا لیکن اس نے اکیڈمی ایوارڈ کے گرد ہونے والی سیاست پر احتجاجاً یہ ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔

Comments

Click here to post a comment