ہوم << ولی خان کی پاکستان دشمنی(قسط سوم)-ضیاء شاہد

ولی خان کی پاکستان دشمنی(قسط سوم)-ضیاء شاہد

zia shahid
کچھ باتیں ولی خان کے بارے میں۔ ولی خاں11 جنوری 1917ءکو پیدا ہوئے اتمان زئی جائے پیدائش ہے۔ وفات 26 جنوری
2006ءہے۔ 89 سال کی عمر پائی 47 سے پہلے انڈین نیشنل کانگریس اور 57 سے نیشنل عوامی پارٹی میں 86 تک رہے۔ 86 سے 2006ءیعنی اپنے انتقال تک اے این پی یعنی نیشنل عوامی پارٹی میں رہے۔ خود کو ڈیموکریٹک اور سوشلسٹ کہتے تھے۔ اپنے والد غفار خاں کے ساتھ سیاست شروع ہوئی۔ ڈیرہ دَون کے سکول، کلونل براﺅن کیمبرج سکول سے تعلیم پائی۔ واضح رہے کہ کانگرس میں شمولیت کے سبب انہیں ہمیشہ پاکستان مخالف سمجھا جاتا رہا۔ 1970ءمیں وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رہے والدہ کا نام مہرقند تھا۔ 1912ءمیں غفار خان سے شادی ہوئی۔ وہ جنگ عظیم کے بعد فلو سے فوت ہوئیں۔ ولی خاں نے آزاد اسلامیہ سکول اتمان زئی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کے حامی خدائی خدمت گار کے طور پر سیاست کا آغاز کیا۔ مئی 1930ءمیں ایک برطانوی سپاہی کے ہاتھ سے قتل ہونے سے بال بال بچے‘ نظر خراب ہونے کے باعث سکول کے بعد تعلیم حاری نہ رکھ سکے۔ پہلی بیوی نے 49 میں انتقال کیا۔ 54 میں نسیم ولی خاں سے دوسری شادی کی جو ایک پرانے خدائی خدمت گار کی بیٹی تھیں۔ ولی خاں تقسیم ہند سے پہلے کانگرس صوبہ سرحد کے جائنٹ سیکرٹری بھی رہے۔ ایف سی آر کے تحت 43 میں گرفتار ہوئے۔ 47 میں تقسیم ہند کے فارمولے کی مخالفت کرتے رہے۔ غفار خاں نے ان کے بڑے بھائی غنی خاں کی سیاست سے علیحدگی کے بعد ولی خاں پر زیادہ اہمیت دینا شروع کی۔ 48ءمیں پھر گرفتار ہوئے اور 53ءمیں رہا ہوئے۔ ولی خان کے خلاف ”نیپ“ پر پابندی کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے جو ریفرنس دائر کیا اُس کے مندرجات انتہائی خوفناک تھے۔ بھٹو حکومت نے ثابت کیا تھا کہ کس طرح ”نیپ“ پاکستان کے صوبہ سرحد کی جگہ آزاد ریاست پختونستان قائم کرنا چاہتے تھے، اس سلسلے میں ولی خان کی تقریروں کے اقتباسات کے علاوہ اُن کی پارٹی کے سیکرٹری جنرل اجمل خٹک کی سرگرمیوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا تھا اور پاکستان کے دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ملک دشمن افراد سے اُن کے رابطوں کے ثبوت پیش کئے گئے تھے۔
بھارت اور افغانستان کی طرف سے کس طرح اُن کی مسلسل حمایت کی جاتی رہی اِس کے پس منظر پر تفصیل سے مواد جمع کیا گیا تھا، اِس کے علاوہ ایک سُپرپاور روس کی طرف سے اُنہیں جو بالواسطہ حمایت حاصل ہوئی تھی اُس کا بھی احاطہ کیا گیا تھا، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نواب اکبر خاں بگٹی نے اِس ضمن میں ولی خان اور عطاءاللہ مینگل کا ساتھ دینے کی بجائے بھٹو حکومت کی حمایت کی۔ 31 جنوری 1976ءکو موچی گیٹ لاہور کے جلسہ عام میں بگٹی صاحب نے اپنے خطاب میں آزاد پختونستان کے علاوہ عطاءاللہ مینگل اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر گریٹر بلوچستان کی شکل میں ایک اور آزاد ریاست کے لئے سازش کا تفصیلی ذکر کیا تھا۔ بگٹی صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ اس ضمن میں ولی خان اور عطاءاللہ مینگل اینڈ کمپنی غیر ملکی طاقتوں سے رابطے میں تھیں اور آزاد بلوچستان اور گریٹر بلوچستان کا عارضی ہیڈ کوارٹر بغداد میں قائم کیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ عراقی سفارت خانے کے ذریعے سمگل کیا جانے والا اسلحہ بھی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں حکومت کے خلاف استعمال کیا جانا تھا۔ اِس ضمن میں متعدد دستاویزات بھی پکڑی گئی تھیں، نیپ کے لیڈروں ولی خان، امیرزادہ خان، عطاءاللہ مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری، اور میرگل خان نصیر سمیت کل 52 افراد کے خلاف حیدرآباد میں مقدمے چلائے گئے۔ بھٹو حکومت نے نیپ پر پابندی کے سلسلے میں جو دستاویزات جمع کرائی تھیں اُن میں یہ رپورٹ بھی شامل تھی کہ بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کی طرف سے اُنہیں مالی امداد بھیجی جاتی تھی اور ایک بار 2 کروڑ روپے بھیجنے کی رپورٹ بھی الزامات میں شامل کی گئی تھی،
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسفند یار ولی کے والد ولی خان نے اس الزام کے بعد ایک دیوانی عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ 2 کروڑ کی جو امداد اندراگاندھی نے بھجوائی تھی وہ اُن تک نہیں پہنچ سکی، حکومت وہ رقم برآمد کروائے اور اُن کے حوالے کرے۔ اس ضمن میں جمعہ خان بگٹی کی کتاب ”فریب ناتمام“ کا ذکر بھی ضروری ہے، جمعہ خان غفار خان کے قریبی ساتھی اور ”خدائی خدمتگار“ تھے جو نیپ پر پابندی لگنے کے بعد افغانستان چلے گئے اور وہاں حکومتِ وقت کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے، جمعہ خان لکھتے ہیں کہ پاکستان میں مسلح جنگجو افراد کی تربیت کے لئے سوویت یونین اور بھارت نے مالی معاونت کی پختونستان بنانے کے علاوہ گریٹر بلوچستان پر بھی کام جاری تھا تاہم ولی خان کو اس سازش میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ جو افغانستان میں اپنے والد غفار خان عرف باچا خان کی ’گُڈوِل‘ سے فائدہ اُٹھا رہے تھے،
جمعہ خان کے بقول افغانستان کے سربراہ داﺅد خاں بھی ولی خاں کی حمایت کر رہے تھے، جمعہ خان نے بھٹو صاحب کے وزیر شیر پاﺅ کے قتل کے بارے میں بھی انکشافات کئے، نیپ کے افغانستان جانے والے سیکرٹری جنرل اجمل خٹک کا بھارتی سفارت خانے سے گہرا رابطہ تھا، اور کابل خود مختار پختونستان کی بھرپور حمایت کر رہا تھا، وہ تو اچھا ہوا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کے زیر اہتمام تربیت یافتہ مجاہدین نے روسی افواج کو جو افغانستان پر قابض ہو گئی تھی شکست دی۔ اور روس کے جانے کے بعد افغانستان میں مجاہدین کی باقیات کے مابین جنگ شروع ہوئی تو طالبان کی شکل میں مدارس کے نوجوانوں نے افغانستان پر قبضہ کر لیا، تو ولی خان کا خواب کہ سرحد اور افغانستان کے علاقوں کو ملا کر آزاد پختونستان قائم کیا جائے پورا نہ ہو سکا۔ سابقہ ”حدائی خدمت گار تحریک“ اور موجودہ ”نیپ“ کے لیڈران کے کابل کے دورے بند ہو گئے، کیونکہ اَب وہاں اُنہیں کوئی میزبان میسر نہ تھا، اِسی طرح وقتی طور پر آزاد بلوچستان کی تحریک بھی دب گئی، لیکن آج بلوچستان کے خود ساختہ جلا وطن رہنما براہمداغ بگٹی اور اُن کے ساتھی ہوں یا لندن میں قیام پذیر خان آف قلات کے صاحبزادے، ایک بار پھر آزاد بلوچستان کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں،

امریکہ جو نہیں چاہتا کہ بلوچستان کی بندرگاہ گوادر تک چین کی تجارتی راہداری کی تعمیر کا کام مکمل ہو وہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی مدد سے بلوچستان کو اسلام آباد سے الگ کرنے کی سازش پر بے اندازہ وقت، محنت اور دولت خرچ کر رہا ہے۔ اس سے پہلے ولی خان کے حامیوں کا جاری کردہ پمفلٹ ”گولی کا جواب گولی“ سابق صوبہ سرحد میں بہت بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا، اجمل خٹک کابل سے بار بار اعلان کرتے رہے کہ آزاد پختونستان کی سرحد دریائے سندھ بالخصوص اٹک تک جائے گی، اُس دور کی ایک اور کتاب ”ڈاکٹر شیر زمان تیزی“ نے لکھی جو کابل کے پاکستانی سفارت خانے سے منسلک تھے، اُنہوں نے بھی غفار خاں اور اُن کے بعد ولی خاں کی قیادت میں پاکستان کے خلاف اور صوبہ سرحد کے علاقوں پر مشتمل آزاد پختونستان کی جدوجہد کی اور آزاد پختونستان کی سازش کی۔ تفصیلات کا پردہ چاک کیا ہے۔
(جاری ہے)

حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے
حصہ دوم پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے

Comments

Click here to post a comment