گزشتہ دنوں سندھ سیکریٹریٹ کے سامنے چند اساتذہ احتجاج کررہے تھے۔ ہم نے وہاں موجود اساتذہ سے دوران گفتگو سیکریٹریٹ کی اسپیلنگ پوچھی تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ اس پر ہماری دلچسپی بڑھی تو ہم کچھ آسان الفاظ کی اسپیلنگ اور پوچھ بیٹھے، مگر اس بار بھی جواب نفی میں ہی تھا۔ اس موقع پر ہمارا ان حضرات سے کہنا تھا کہ ا حتجاج تو آپ کے علاقے والوں کو کرنا چاہیے جہاں پر آپ تعینات ہیں۔
بالکل اسی طرح ہماری سندھ پولیس کا حال ہے ہماری پولیس کو قاعدے قانون کے بارے میں کچھ خاص معلوم نہیں، بس انہیں کاروائی سے غرض ہے اور سرخیوں میں آنے کا شوق ہے۔ گزشتہ روز ہونے والی دبنگ ڈرامائی گرفتاری، کراچی پولیس آفس منتقلی اور پھر رہائی نے سندھ پولیس کی قلعی کھول دی ہے۔ جس وقت سند ھ کے قائد حزب اختلاف وزیراعلیٰ سندھ سے ان کے ہائوس میں ملاقات کر رہے تھے، اس وقت جس طرح پولیس نے ان کے گھر پر دھاوا بولا۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا، جبکہ اس وقت ان کے گھر پر کوئی مرد موجود نہیں تھا اور ہماری دبنگ پولیس بغیر کسی سرچ وارنٹ اوربغیر لیڈی سرچر کے ان کے گھر میں گھس گئی اور تلاشی لیتی رہی۔
ایک عام آدمی اور اسمبلی میںقائد حزب اختلاف میں فرق ہوتا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے قائد حزب اختلاف کو گرفتار کرنے سے پہلے اسپیکر اسمبلی کے علم میںلانا ضروری ہوتا ہے اور کہیں بھی تلاشی کے لیے تو سرچ وارنٹ اور لیڈی سرچر کوساتھ لے جا ئے بغیر کاروائی مکمل نہیںکی جاسکتی، مگر ہماری سندھ پولیس کے معطل دبنگ آفیسر ایس ایس پی رائو انوار تو ان سب باتوں سے انکاری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک آفیسر کو کسی مجرم کو گرفتار کرنے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں اور اس طرح کے بہانے ان کو کام کرنے سے روکنے کے لیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”مجھے معطل کرنے کا فیصلہ جلد بازی کا نتیجہ ہے۔ میرے معطل ہو نے کے بعد شہر کی صورتحال سے خود ہی نمٹ لینا۔“ بقول ان کے وہ واحد آفیسر ہے جو دہشت گردوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنا کھڑا ہے۔ انہیں کسی کی ناراضی کا کوئی خوف نہیں، اس طرح کے بیانات ایک سرکاری آفیسر کی طرف سے سمجھ سے بالاتر ہے۔
رائو انوار ہمیشہ سے ہی سرخیوں میں رہنے کے شوقین ہیں۔ میئر کراچی کی گرفتاری ہو یا فیصل واڈا کی گرفتاری وہ ہمیشہ ہی پیش پیش رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ تین سال میں تین بار معطل ہوچکے ہیں۔ پہلی بار وہ مارچ 2013ء میں معطل ہوئے اور جلد ہی بحال کردئیے گئے۔ دوسری بار اپریل 2105ء میں پھر تین ماہ بعد دوبارہ بحال کردیا گیا اور ایس ایس پی ملیر تعینات کیا گیا اور اس بار وزیراعلیٰ سندھ نے اختیارات سے تجاوز کرنے پر ان کو معطل کیا، حالانکہ وہ پی پی پی کے چند نوازے جانے والے آفیسرز میں سے ہیں۔ پھر بھی چیف سیکریٹری سندھ نے ان کی معطلی کا حکم نامہ جاری کیا اور انہیں آفس استعمال کرنے سے بھی منع کیا، جبکہ دوسری طرف IGسندھ نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر رائو انوار کے خلاف کاروائی بھی شروع کردی جبکہ سندھ حکومت کو IG سندھ کو معطل کرنا چاہیے تھا کیونکہ ان کے زیر سایہ کام کرنے والے افسر نے یہ کاروائی کی تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ لگتا ہے کہ اس بار رائو انوارکو قائد حزب اختلاف سندھ کی گرفتاری مہنگی پڑگئی۔ ایک دم سیکیورٹی اداروں میں ہلچل مچ گئی اور یہ گرفتاری سندھ حکومت پر بھاری پڑی اور سندھ کے سیاسی منظرنامے پر گرماگرمی نظر آئی، کیونکہ وزیراعظم نے وڈے سائیں کو فون کرکے پوچھا اور کہا کہ اسپیکر کی اجازت کے بغیر قائد حزب اختلاف کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔ پولیس آفیسر کے خلاف کاروائی کریں اور یہ طریقہ کار غلط ہے۔ اگر ایسے ہی صرف FIRپر گرفتاریاں ہوں تو میاں صاحبان پر بھی سانحہ ماڈل ٹائون پر مقدمہ درج ہے تو ایسے میں وڈے سائیں کی سبکی نہیں تو کیا ہوگی؟
رائو انوار جلد بحال نہیں ہوپائیں گے، مگر ان تمام حالات کو سامنے رکھیں تو ایک بات سامنے آتی ہے۔ کیا ایک پولیس آفیسر سندھ حکومت سے زیادہ طاقت ور ہوگیا کہ اے ڈی خواجہ کو خود گڈاپ تھانے جانا پڑا اور قائد حزب اختلاف کو گڈاپ تھانے سے نکال کرکراچی پولیس آفس لانے میں تقریباً 5گھنٹے لگے۔ اس تمام صورتِ حال سے تو یہ لگتا ہے کہ سندھ حکومت بے بس اور کوئی ان دیکھا ہاتھ زیادہ طاقت ور ہے۔ کہیں وڈے سائیں کو یہ باور کرانے کی کوشش تو نہیں کی جارہی کہ حکومت سندھ سے نہیں دبئی سے چلتی ہے۔ آپ اپنے آپ کو زیادہ ہیرو نہ سمجھیں۔
قائد حزب اختلاف کی ڈرامائی گرفتاری اور پھر رہائی۔۔۔ آخر کیوں؟ چلیں مان لیتے ہیں ان پر دہشت گردی کے مقدمات ہیں اور وہ مطلوب ہیں مگر عوام کے منتخب نمایندے کو بغیر کچھ بتائے اتنی بے عزتی سے گرفتار کرنا دراصل یہ عوام کی تذلیل ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال میں شہر کراچی میں کیسے امن قائم ہوسکتا ہے؟ یہ تو سراسر امن کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے جہاں صوبے کا وزیراعلیٰ ہی پولیس کی کاروائیوں سے لاعلم ہو اورسندھ پولیس اپنی من مانیاں کرتی پھرے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اب پولیس کو روایتی پولیس کے دور سے نکال کر ایک جدید پولیس بنایا جائے۔ اسے جدید تربیت کے ساتھ اخلاقی تربیت کی اشد ضرورت ہے، تاکہ پولیس غیر جانبدار ہوکر اپنا کام کرے اور معاشرے میں پھیلتی ہوئی برائیوں کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرے ورنہ پڑھے لکھے لوگ اور ہماری خواتین اسی طرح سر راہ رسوا ہوتے رہیں گی۔ پولیس ان دیکھے ہاتھوں کی لونڈی بنی رہے گی اور یوں بغاوت کے راستے پر لوگ مجبور ہوں گے۔ ظاہر ہے اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پر ہی عائد ہوتی ہے۔
تبصرہ لکھیے