ٹیلی ویژن اسکرین ایک نیا تماشا دکھا رہی تھی۔ بااثر لوگوں کا منہ چڑھا پولیس افسر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار کو ہتھکڑیاں لگا ئے لیے جا رہا تھا اور خواجہ اظہار الحسن اس سے پوچھے جارہے تھے کہ آپ مجھے کس جرم میں گرفتار کررہے ہیں؟ وارنٹ کہاں ہے؟ وہاں ایم کیو ایم پاکستان کے قائد فاروق ستار بھی دکھائی دے رہے تھے جو راؤ انوار سے یہی کچھ کہہ رہے تھے، لیکن راؤ انوار نے پہلے کب کسی کی سنی تھی جو اب سنتا۔ اس نے ستائیس مقدمات میں ضمانتوں پر رہا ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن کو ساتھ لیا اور سپر ہائی وے کے سائیٹ تھانے کی طرف چل پڑا۔
یہ اس چھاپے کے دو گھنٹے بعد ہوا جو خواجہ اظہار الحسن کے گھر پر مارا گیا تھا۔ اس چھاپے سے ہی نیوز چینلز کو بریکنگ نیوز کا بوفے لنچ ملا۔ سیلانی اس ”وقت“ کے دفتر میں تھا جب ایک ساتھی نے کسی کا ٹیلی فون وصول کرکے کہا:
’’خواجہ اظہار کے گھر پولیس نے چھاپہ مارا ہے‘‘
’’ابے بھائی! پولیس میں یہ مجال کہاں، رینجرز والے ہوں گے۔‘‘ سیلانی نے فوراً کہا اور خبر کی تصدیق کے لیے سامنے دیوار پر آوایزاں درجن بھر ٹیلی ویژن اسکرینیں دیکھنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک نیوز چینل کی اسکرین پر ڈبا گھوما خواجہ اظہار کے گھر پولیس کا چھاپہ۔۔۔ سیلانی کے لیے یہ چھاپہ حیران کن تھا۔ ہماری پولیس ’’سیاہ سی‘‘ ہونے کے ساتھ مکمل طور پر سیاسی رنگ میں رنگی بلکہ لتھڑی ہوئی ہے۔ فی الوقت بوڑھے شاہ کی جگہ لینے والا جوان العمر شاہ اس موڈ میں نہیں تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان سے مخاصمت کا کوئی دروازہ کھولے، پھر پولیس کس کے کہنے پر سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کے گھر گئی اور کیا لینے گئی؟ سیلانی کے ذہن میں ان سوالات کا جھکڑ چلنے لگا۔ اس نے اپنے ذرائع سے رابطے کی کوشش کی، لیکن اتفاق کہ کسی سے بات نہ ہوسکی، البتہ راؤ انوار سے قریب کچھ صحافی دوستوں کے توسط سے پتا چلا کہ راؤ انوار کا کہنا ہے کہ خواجہ اظہار کے گھر میں کچھ ٹارگٹ کلرز موجود تھے۔۔۔ راؤ انوار کا یہ موقف دینے والے کو بھی اس پر ہنسی آرہی تھی اور سیلانی کو بھی۔ ایسے برے وقت میں کوئی پڑوسی کی بلی بھی گھر میں گھسنے نہ دے کجا کہ کوئی ٹارگٹ کلر کو مہمان بنائے۔ ایم کیو ایم کے حوالے سے باخبر ساتھی جانتے ہیں کہ اس کا سیاسی سیٹ اپ تنظیمی سیٹ اپ سے بالکل ہٹ کر ہے۔ مار دھاڑ والے کارکنوں سے کام لینا اور انہیں محفوظ پناہ گاہوں میں محفوظ رکھنا کے ٹی سی (کراچی رابطہ کمیٹی) کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے، سیاسی سیٹ اپ والے ان معاملات میں ’’معصوم‘‘ ہوتے ہیں۔
ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر راؤ انوار کا یہی موقف ڈبے میں گھومنے لگا۔ ادھر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس چھاپے کا فوری نوٹس لیا کہ معاملہ سپر ہائی وے پر مارے جانے والے ’’باریش دہشت گردوں‘‘ کا نہیں تھا، جو کلائیوں میں پڑی ہتھکڑیوں کے باوجود ’’مقابلہ‘‘ کرلیتے ہیں اور عدلیہ سے لے کر مقننہ تک کوئی نوٹس نہیں لیتا کہ دہشت گردی کے نام پر قتل ہونے والے نے ہتھکڑیاں کیوں پہنیں اور پھر مقابلہ کیسے کیا۔۔۔ وزیر اعلیٰ نے نہ صرف نوٹس لیا بلکہ کچھ دیر بعد یہ بھی کہہ دیا کہ راؤ انوار کے خلاف کارروائی ہوگی۔
ادھر وزیر اعلیٰ نے ایکشن لینے کا عندیہ دیا، ادھر راؤ انوار خود نفری لے کر خواجہ اظہار کو گرفتار کرنے چل پڑے اور اسے ہتھکڑیاں لگاکر سائیٹ تھانہ سپر ہائی وے پہنچ گئے۔ وزیر اعلیٰ بپھر گئے۔ انہوں نے ایس ایس پی کو فوری طور پر معطل کرکے اس زون کے ڈی آئی جی کو بھی فارغ کردیا۔ اس معطلی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ معطل ایس ایس پی نے نیوز کانفرنس بلالی اور اب تمام اسکرینوں پر سفید کنپٹیوں والا ایک معطل ایس ایس پی بتارہا تھا کہ خواجہ اظہار الحسن کو باقاعدہ گرفتار کیا گیا ہے۔ کراچی میں ان ہی کے حکم پر گزشتہ دنوں گاڑیاں جلائی گئی تھیں اور ان پر نفرت انگیز تقاریر کے لیے سہولت کار ہونے کا بھی الزام ہے۔ اب انہیں کوئی پولیس افسر رہا نہیں کراسکتا۔ اب صرف عدالت ہی میں فیصلہ ہوگا۔۔۔
سیلانی کو اس سارے ڈرامے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لیلائے اقتدار کو کنیز رکھنے والے ایسی چالیں چلتے رہتے ہیں۔ اسے یقین تھا کہ راؤ انوار کو قانون کی رکھوالی کا ہیضہ نہیں ہوا، کہیں سے اسے ہدایات دی گئی ہیں، اس پر کسی کا تو ہاتھ ہے جو وہ نیوز کانفرنس میں دھڑلے سے اپنے سینئر افسران کو کہہ رہا ہے کہ وہ اسے ہلکا نہ لیں۔ میں وہ اور وہ ڈی آئی جی نہیں ہوں۔۔۔ اس لہجے کی کوئی تو وجہ ہوگی۔ کوئی تو سبب ہوگا۔ کسی نے تو اس دھاگے کو پسے ہوئے کانچ کا لیپ دے کر مانجھا بنایا ہوگا۔ راؤ انوار پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے خاصے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اسی قربت کی بنا پر وہ کسی کو گھاس نہیں ڈالتے۔ مرضی کے علاقے ملیر میں تعینات رہتے ہیں اور مرضی پر چلتے ہیں۔ یہ تعلقات بڑے پرانے ہیں۔ کراچی کے سینئر کرائم رپورٹر ائیر پورٹ تھانے کے اس سب انسپکٹر تھانیدار کو نہیں بھولے ہوں گے، جو دو ہفتے کی چھٹی کی درخواست لے کر ایس ایس پی شرقی کے پاس جاتا ہے۔ درخواست منظور ہوجاتی ہے تو فرمائش کرتا ہے کہ اس کی غیر حاضری میں کوئی دوسرا ایس ایچ او نہ لگایا جائے۔ ایس ایس پی اسے گھور کر چلے جانے کا کہتا ہے۔ وہ یہ درخواست اور فرمائش لے کر ڈی آئی جی کے پاس جاتا ہے۔ ڈی آئی جی اسے ڈانٹ کر دفتر سے نکال دیتا ہے کہ یہ پولیس ہے، تمہارے گھر کا باورچی خانہ نہیں کہ فرمائشی پروگرام چلاؤ۔ وہ چلا جاتا ہے اور پھر ڈی آئی جی آفس کو اسلام آباد سے ہدایت دی جاتی ہے کہ راؤ انوار کی چھٹی منظور کی جائے اور وہ اپنی رخصت پر تھانے کا ایڈشنل چارج جسے دے کر جارہا ہے اسے نہ چھیڑا جائے۔۔۔
جی ہاں! اس وقت راؤ انوار سب انسپکٹر تھا اور اتنا بااثر تھا کہ سینئیرپولیس افسران بھی اس کے سامنے نہ آتے تھے، آج وہی ایس ایس پی ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر پر ہاتھ ڈال رہا تھا تو اس ہاتھ کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوسکتا تھا؟
سیلانی کو اس ڈرامے سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی، وہ دفتر سے نکل گیا، اسے ابرش یاد آرہی تھی، اس کا معصوم مسکراتا چہرہ یاد آرہا تھا، وہ جب اپنے بابا کو دیکھ کر خوشی سے چمکتی آنکھیں لیے اس کی طرف ہمکتی ہے تو اس لمحے کی لذت دنیا کی کسی چیز میں نہیں ملتی۔ سیلانی بائیک دوڑاتا ہوا گھر پہنچا۔ موٹر سائیکل کھڑی کی اور اپنے کمرے میں چلا آیا۔ وہاں ابرش مزے سے سورہی تھی۔ سیلانی نے اپنی بیٹی کی پیشانی چومی اور سیل فون ایک طرف رکھ کر کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا۔ منہ ہاتھ دھوکر لباس بدل کر سیلانی غسل خانے سے باہر نکلا تو سیل فون اسے اپنی جانب متوجہ کررہا تھا۔ سیلانی نے موبائل فون اٹھایا، واٹس اپ پر آنے والے پیغام نے اسے چونکا دیا۔ یہ ایک چھوٹا سا کلپ تھا۔ فاروق ستار کی نیوز کانفرنس کا چھوٹا سا ٹکڑا، جس میں فاروق ستار کہہ رہے تھے:
’’معاملہ لندن سے آنے والے بیانات نہیں ہیں۔۔۔ معاملہ پاکستان مخالف نعرے لگانے کا نہیں ہے۔۔۔“ فاروق ستار نے ابھی یہ دو جملے ہی کہے تھے کہ ان پاس موجود لوگ کہنے لگے:
’’دشمنی ہے، دشمنی ہے، دشمنی ہے‘‘
ایک اور آواز آئی:
’’مہاجر دشمنی ہے‘‘
اور پھر وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا، وہاں موجود لوگوں نے دل میں چھپا بغض نکالنا شروع کردیا، ایک نے آواز لگائی:
’’پاکستان ‘‘
اور بہت ساری آوازیں آئیں ’’مردہ باد‘‘
اور یہ نعرہ ایک بار نہیں لگا، دو بار پاکستان کا نام لیا گیا اور دو ہی بار کیمروں کے مائک نے مردہ باد، مردہ باد کی ناپاک اور غلیظ آوازیں ریکارڈ کیں۔
چھاپہ پڑا خواجہ اظہار کے گھر پر۔۔۔ گرفتار کیا گیا خواجہ اظہار کو۔۔۔ اس چھاپے پر فوری نوٹس بھی لیا گیا، ایس ایس پی معطل بھی ہوگیا۔ ڈی آئی جی کو بھی سندھ سے باہر کردیا گیا لیکن پھر بھی پاکستان مردہ باد!
یہ گرفتاریاں، یہ ہتھکڑیاں، جیل کی روٹیاں اور جیلر کی سوٹیاں سیاست دانوں کے لیے صرف اس وقت نئی ہوتی ہیں جب پہلی بار ان سے سامنا ہوتا ہے۔ پھر یہ سیاسی کارکنوں کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ۱۹۵۴ ء ۱۹۵۵ میں قادیانیوں کے خلاف تحریک میں جمعیت علمائے پاکستان کے مولانا عبدالستار نیازی رح اور جماعت اسلامی کے مولانا مودودی رح کو عدالت نے سزائے موت سنائی، لیکن مولانا نیازی نے پاکستان سے بیزاری کا اظہار کیا اور نہ مولانا مودودی نے کہا کہ وہ اس پاکستان کو نہیں مانتے۔ یہ وہ پاکستان نہیں جو اسلام کے لیے بنا تھا۔ کسی نے بھی کہیں بھی پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا۔۔۔ اس سے پہلے قائد ملت کو شہید کیا گیا۔ انہوں نے بھل بھل بہتے گولی کے زخم پرہاتھ رکھتے ہوئے آخری الفاظ کہے کہ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔۔۔ ان کے بعد نوابزادہ صاحب کی اولاد میں سے کس نے کہا کہ ہم نے اس لیے پاکستان کے لیے جاگیریں چھوڑی تھیں کہ ہمارے باپ کو سرعام قتل کیا جائے؟ ہم ایسے پاکستان کو نہیں مانتے، جہاں ہم محفوظ نہ ہوں۔۔۔ اب آگے چلیں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، کس جیالے نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا۔۔۔ اور آگے بڑھیں بی بی بینظیر کو قتل کیا گیا۔ بلاول، آصفہ، بختاور میں سے کس نے پاکستان مردہ باد کہا؟ دو برس پہلے جمیعت علماء اسلام کے مولانا خالد سومرو کو گولیاں ماری گئیں، جمعیت کے کس کارکن نے کہا کہ پاکستان مردہ باد؟
سیلانی انتظار کرتا رہا کہ سندھ اسمبلی کے معزز رکن کے گھر پر چھاپے اور گرفتاری کا نوٹس لینے والے وزیر اعلٰی اور برہمی کا اظہار کرنے والے وزیر اعظم پاکستان میں ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگانے کا بھی نوٹس لیں گے، وہ آئی جی سندھ اور آئی جی سندھ سے کہیں گے کہ فاروق ستار کی موجودگی میں جس جس نے پاکستان مردہ باد کہا اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، اسے فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔۔۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ ایک رکن سندھ اسمبلی کے گھر پر چھاپہ پڑا، اس کا استحقاق مجروح ہوا، اسے گرفتار کیا گیا، نوٹس لیا گیا، کارروائی کی گئی، لیکن پاکستان کے استحقاق کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ سب ٹھنڈے پیٹوں پی گئے۔ پاکستان نہ ہوا غریب کی جورو ہوگئی۔ جس کا جی چاہے کھڑا ہوکر مادر وطن کو گالی دے دے۔ جیسے کوئی کالج کی عقبی دیوار کی طرف منہ کرکے پیشاب کردیتا ہے۔۔۔ سیلانی نے اراکین سندھ اسمبلی کے واٹس اپ گروپ میں اس مکروہ فعل کا ذکر کیا۔ اس نے اپنے صحافتی حلقوں میں دوستوں کو آگاہ کیا اور صبح تک موبائل اٹھا اٹھاکر اس نوٹس کا انتظار کرتا رہا جس نے نہیں آنا تھا، وہ ریموٹ لے کر ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ گیا۔ چینل بدل بدل کر دیکھتا رہا کہ ابھی وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ترجمان کی پٹی چلے گی، ابھی وزیر اعظم ہاؤس سے نوٹس لیے جانے کی بریکنگ نیوز چلے گی، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کیوں کہ یہ معاملہ کسی پاکستانی سیاست دان کے استحقاق کا نہیں پاکستان کا تھااور پاکستان تو بس۔۔۔
سیلانی نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے ریموٹ ہاتھ میں لیے ٹی اسکرین پر نظریں جمائے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
تبصرہ لکھیے