ہوم << سیدنا ابراہیم کا خواب: آئیے قرآن سے رجوع کرتے ہیں - جمیل اصغر جامی

سیدنا ابراہیم کا خواب: آئیے قرآن سے رجوع کرتے ہیں - جمیل اصغر جامی

جمیل اصغر جامی مولانا حمید الدین فراہی ایک عظیم المرتبت شخصیت تھے۔ اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی بھی اپنے عہد کی ایک نامور علمی شخصیت تھے۔ ان دونوں شخصیات نے کامل ایمانداری اور نہایت علمیت کے ساتھ دین اسلام کی خدمت کی۔ کوئی بھی ذی شعور انسان ایک لمحہ کے لیے بھی ان دو بزرگوں کے اخلاص اور علمی مرتبے پر شک نہیں کر سکتا۔ ان اصحاب نے جناب ابراہیم علیہ السلام کے خواب پر جو کچھ بھی لکھا اس پر حالیہ دنوں میں بحث جاری ہے۔ لیکن آئیے ہم ایک لمجے کے لیے اپنی طالب علمانہ دانست میں قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس معاملے کو براہ راست قرآن سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمارے دلوں کو کجی سے پاک رکھے۔
ہم سورۃ الصافات کی ان آیات (101تا110) پر چلے جاتے ہیں جہاں یہ بات مذکور ہے:
(اس دعا کے جواب میں ) ہم نے اس کو ایک حلیم (بردبار) لڑکے کی بشارت دی۔ وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیم نے اس سے کہا،’’بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے؟‘‘ اس نے کہا، ’’ ابا جان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے، آپ اِنْ شاءَ اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘، آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا اور ہم نے ندا دی کہ ’’اے ابراہیم، تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی‘‘۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا۔ اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔ سلام ہے ابراہیم پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔
ان آیات سے چند چیزیں نہایت واضح انداز میں سامنے آتی ہیں۔ اول یہ کہ ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام، دونوں نے خواب کو اسی پیرائے میں لیا جس میں وہ واقع ہوا تھا اور اسی پیرائے میں اس کی تعبیر کی۔ دوسرے لفظوں میں ابراہیم اور اسماعیل کے فہم کے مطابق اس خواب کا مقصود کوئی استعاراتی حکم نہیں تھا۔ اس ضمن میں حضرت اسماعیل کا جواب بھی قابل غور ہے۔ ان کے الفاظ ’’آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے‘‘ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انھوں نے بھی اپنے باپ کی اخذ کردہ تعبیر کو درست جانا۔ یہاں عین ممکن تھا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے پیغمبرانہ فہم میں’’درست‘‘ تعبیر کو پا لیتے اور اسماعیل علیہ السلام سے کہتے کہ خدا نے اپنے گھر کے لیے تمھاری نذر مانگی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ دونوں کی اخذ کردہ تعبیر وہی تھی جس پر وہ عمل پیرا ہوئے۔ اور اگر خدا کی مراد کوئی قطعی استعاراتی تعبیر ہوتی تو پھر ہر حال میں اس کو ابراہیم علیہ السلام سمجھ جاتے کیونکہ پیغمبر کے فہم پر لازم ہے کہ وہ الہامی ہدایت کو بمطابق حرف و روح سمجھے۔ پھر اگلی آیت میں حضرت اسماعیل کو پیشانی کے بل لٹائے جانے کا ذکر ہے۔ گویا یہ سارے کا سارا فعل اس خواب کی تعبیر میں ایک رسول سرانجام دے رہا ہے۔ اس کے بعد اللہ کا ابراہیم سے مخاطب ہونا بہت اہم ہے۔ ذرا قرآن کے ان الفاظ پر غور کریں: ’’تو نے خواب سچا کر دکھایا‘‘۔ گویا اللہ اس تعبیر پر مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے اخذ کی۔ اس میں اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خواب کا مقصود سیدنا اسماعیل کو خدا کے گھر کی خدمت کے لیے اللہ کی نذر کرنا تھا، تو ایسا تو کچھ ابراہیم علیہ السلام نے ابھی نہیں کیا تھا۔ ابھی تو خدا کے گھر کی تعمیر باقی تھی۔ تو پھر اللہ نے کیسے کہہ دیا کہ تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہے؟ کیا اسمعیل علیہ السلام کو ابراہیم علیہ السلام اللہ کے معبد کی خدمت کے لیے اللہ کی نذر کرچکے تھے؟ نہیں ابھی ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا اور یہ سب ابھی مستقبل میں ہونا باقی تھا۔ اس وقت تو ابراہیم علیہ السلام نے ایسی کوئی نیت یا ارادہ بھی ظاہر نہیں کیا تھا۔ اب ان الفاظ پر غور کریں: ’’البتہ یہ صریح آزمائش تھی‘‘۔ اللہ اس سارے واقعہ کو صریح آزمائش قرار دے رہا ہے۔ گویا خدا کے نزدیک بھی تعبیر وہی ہے جس پر جناب ابراہیم علیہ السلام عمل پیرا ہوئے ہیں۔ اسی لیے اس کو صریح آزمائش سے تعبیر کیا۔
اس لحاظ سے یہی بات قرین عقل معلوم ہوتی ہے کہ سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کا عمل ہی اس خواب کی تعبیر تھا اور وہی خدا کا منشا تھا۔ یہ سر تا سر ایک ’’صریح آزمائش‘‘ تھی جس میں دو اولولعزم پیغمبروں کو ڈالا گیا۔ اور یہ عین خدا کی سنت کے مطابق ہے۔ خدا ہمیشہ اپنے انبیا اور رسل کو کڑی سے کڑی آزمائشوں سے دو چار کرتا رہا ہے۔ واللہ عالم۔
(ڈاکٹر جمیل اصغر جامی، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)

Comments

Click here to post a comment