کہتے ہیں کہ جب افغانستان پر امریکی حملے کے بعد طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو کابل میں حجاموں کی دکانوں پر داڑھیاں منڈوانے والوں کا وہ رش تھا جو دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا. کہتے ہیں کہ بڑی وجہ شریعت کا زبردستی نافذ کروانا تھا. ایک افغانی دوست کے مطابق وہ خود اس خودساختہ شریعت کا شکار ہونے ہی والے تھے کہ نکسیر نے بچا لیا. انھی دوست کے مطابق ایک قصہ اور مشہور ہے کہ سقوط امارت اسلامیہ کے بعد طالبان مخالف افراد انتقام کی آگ میں ایسے جل رہے تھے جس کی مثال نہیں ملتی.
کہتے ہیں ایک داڑھی رکھے ہوئے بندے کو کسی نے آواز دی
”امیر صاحب“!
جواب ملا: امیر ہوگا تیرا باپ
اتنا تلخ جواب نفرت یا خوف اللہ ہی جانے، لیکن دونوں صورتوں میں تشویشناک ہے
ایرانی شریعت کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے جن کو وہاں زبردستی باپردہ کیا ہوا ہے. وہ بیرونی ممالک میں پردے اور حیا کا کیا حشر کرتے ہیں، وہاں مقیم افراد زیادہ بہتر انداز میں بتا سکتے ہیں
یہ کوئی لطیفے نہیں بلکہ تلخ حقائق ہیں. آج بھی کسی قبائلی سے پوچھ لیں، وہ آپ کو بتائےگا کہ ہمارے قمیض کے کالر کاٹ کر درختوں پر باندھے جاتے تھے کہ یہ یہودیانہ لباس ہے تاکہ اور عبرت حاصل کریں.
عرض یہ ہے کہ شریعت کسی ڈنڈے کا نام نہیں جو سر پر مارو اور نافذ ہوجائے بلکہ اس کے لیے سوچ بدلنی پڑتی ہے، اذہان تبدیل کروانے پڑتے ہیں۔ شریعت ایک ٹھوس اور عملی تحریک کا لائحہ عمل ہے، یہ انسانی زندگی پر عملا حکمرانی کے لیے آیا ہے. اور اس کے لیے شدید ضروری ہے کہ ایسا معاشرہ وجود میں آئے جو عقیدہ الوہیت کا نہ صرف دل و جان سے اقرار کرتا ہو بلکہ اس عقیدے پر تن من دھن قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہو اور ایسا تبھی ممکن ہے جب معاشرے کو اس دین سے پوری طرح پوری تسلی کے ساتھ آگاہ کرکے آشنا کیا جائے.
ہمارے پاس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی جماعت کی مثال سامنے ہے. صحابہ کرام کی قرآن مجید سے ایسی تربیت ہوئی کہ ایک حبشی غلام گرم ریت پر لٹائے جانے کے بعد بھی صرف اللہ احد اللہ احد ہی کہتا رہتا ہے۔ عرب جیسے جاہل معاشرے میں اسلامی تحریک پیدا کرنا اور پھر اس کے نتیجے میں ایسی حکومت بنانا جو عدل کا نظام دے، جو دنیا کی بہترین معاشرت کی مثال بنے، جس کے معاشی نظام کا کوئی ثانی نہ ہو، جس کی سیاست کسی بھی غیر اخلاقی مفاہمتوں سے بالکل پاک ہو، ایک انتہائی مشکل ترین کام تھا لیکن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اعلی ترین اخلاق اور صحابہ کرام کی تربیت ہی تھی کہ جس کا کوئی تصور ہی نہیں کرسکتا تھا، وہ ہوا اور عرب تاریکیوں کو ایک پاکیزہ نور میں تبدیل کردیا. ایسے وقت میں جب اپنی قوم کے علاوہ دوسری قوم کے فرد کو مارنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ ایسی سوچ بنی تھی کہ اگر یہ میری قوم کا نہیں تو اس کو زندہ رہنے کا حق کیسے حاصل ہوسکتا ہے، ایسے ہی وقت میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی حالات میں بھی انسانیت کا درس دیا۔
دیکھیے شریعت کی ذمہ داری صرف عقائد و اعمال میں انقلاب برپا کرنا نہیں بلکہ لوگوں کے طرز فکر اور انداز نظر کو بدل دینا اور حالات کے بارے میں ان کے زاویہ نگاہ میں بھی بنیادی تبدیلی پیدا کرنا ہے. کسی اسلام پسند شریعت پسند تنظیم یا تحریک کی کوششوں پر شک نہیں لیکن سوال تو اٹھتے رہیں گے. جس طرح سید قطب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کچھ مخلص خادمین اسلام بعجلت دین کے تمام مراحل طے کرنا چاہتے ہیں، وہاں وہ ان کو ایک نازک سوال سے دوچار کر رہی ہے کہ جس شریعت کو آپ نافذ کروانے نکلے ہیں، اس کی تفصیلات کیا ہیں؟ اسے نافذ کرنے کی خاطر آپ نے اس پر کتنی ریسرچ کی ہے؟ کتنے مقالے اور مضامین تیار کر رکھے ہیں اور دراصل یہ سب اسلام پر ایک رکیک طنز ہے۔
سب جانتے ہیں کہ جب جاہلی معاشرہ باقاعدہ اپنی جیتی جاگتی صورت میں موجود ہو تو اس کو مٹانے اور انسانوں کو از سر نو اپنے خالق حقیقی کے آستانے پر لاکھڑا کرنے کے لیے محض دعوتی نظریہ بےسود ہے بلکہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ اس جاہلی معاشرے کے مقابلے میں ایسے معاشرے کو لا کھڑا کروانا ہے جس کے اصول حیات بہت معتبر اور اس کا پورا ڈھانچہ ایسا ہو جس میں وہ کوتاہیاں موجود ہی نہ ہوں جو پہلے سے موجود جاہلی معاشرے میں ہوتے ہیں۔
اس معاشرے کو میدان میں اتارنے والی تحریک اس عزم کے ساتھ اترے کہ اس کی نظریاتی بنیادیں، انتظامی تدابیر، اجتماعی نظم اور تحریک کے کارکنان کے باہمی تعلقات اور پھر پوری امت کے ساتھ ان کے تعلقات ہر ہر پہلو میں جاہلی معاشرے سے قوی اور محکوم تر ہوں۔
(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے