جی تو احباب ذرا نظر ڈالتے ہیں 5 ستمبر کو رونما ہونے والے لبرل ازم کے دو خود کش حملوں پر. جی جناب! ایک ہی دن میں دو مختلف جگہوں پر جارحانہ خودکش بمباروں نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا.
تو جناب پہلا حملہ عظیم بھارتی اداکار امیتابھ بچن نے کیا ایک خط لکھ کر. کہنے کو تو یہ محض ایک ذاتی نوعیت کا خط ہے جو ایک دادا اور نانا کی طرف سے اپنی پوتی اور نواسی کے نام ہے، لیکن سوشل میڈیا پر اسے پڑھ اور سنا کر وہ فرماتے ہیں کہ اس کی مخاطب پوری دنیا کی پوتیاں اور نواسیاں ہیں. فاضل اداکار صاحب فرماتے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نام، نسب، عزت، دولت، شہرت یا عہدے کے لحاظ سے ایک عورت کس مقام پر ہے؛ اس دنیا میں اس کی زندگی اس لحاظ سے بڑی مشکل ہے کہ اسے ساری عمر دوسروں، اور بالخصوص مردوں، کی خواہشات اور پسند و ناپسند کے مطابق گزارنا پڑتی ہے. دوستی، شادی، اٹھنے بیٹھنے، آنے جانے وغیرہ کی قدم قدم پر پابندیوں کا رونا روتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
”اپنے سکرٹ کے ناپ کو اپنے کردار کا ناپ قرار دینے کی سوچ کو کبھی قبول نہ کرنا اور وہی کرنا جو تم چاہو اور کسی دوسرے کے فیصلے کو اپنی ذات پہ نافذ مت ہونے دینا.“
ویسے تو یہ وہی گھسا پٹا ”فیمن ازم“ کا منجن ہے، ذرا نئی پیکنگ میں. عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس فکر کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عورت ایک مرد سے آزادی کے نام پر دوسرے مرد کے استحصال کا شکار ہو جاتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اس نے بڑا معرکہ مار لیا، یعنی جو عورت گھر کے مرد کی ”چاکری“ سے تنگ آ کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے باہر نکلے گی، تو وہ مجموعی طور پر معاشرے میں مردوں کے کرنے کے کام اپنے ذمے لے کر انکا بوجھ ہلکا کرے گی. ممکن ہے فی نفسہ اس عمل میں کوئی برائی نہ ہو، لیکن اس کو مردوں پر اپنی فتح قرار دینا اور ”لڑ کر“ اپنے حقوق کا حصول سمجھنا، نہایت مضحکہ خیز بات ہے. حقیقت تو یہ ہے کہ مرد نے نہایت چالاکی سے آپ سے اپنا کام نکلوا لیا اور آپ کو پتہ بھی نہ چلا.
چلیں آپ فرماتی ہیں کہ آپ کے سکرٹ کی لمبائی آپ کے کردار کا پیمانہ نہ سمجھی جائے. مان لیا. لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس لمبائی کے تعین سے لے کر، اس سے ”لطف اندوز ہونے“ تک پس پردہ ہاتھ مرد کا ہی ہے. جن فیشن ٹرینڈز کو آپ فالو کرتی ہیں وہ زیادہ تر کسی مرد کے تخلیق کردہ ہوتے ہیں اور اس کے مطابق ہوتے ہیں جس طرح وہ آپ کو دیکھنا چاہتا ہے. دھوکا ہے وہ آزادی جس پر فخر کر کے آپ ”اپنی مرضی کا“ لباس خریدتی ہیں.
اور سوال تو یہ بھی بنتا ہے جو ممبئی کے مفتی انور خان سرگروہ نے اٹھایا ہے کہ جب سیارہ مریخ کی ایک مخصوص پوزیشن کے دوران پیدا ہونے کی وجہ سے بگ بی کی بہو ایشوریہ رائے کو منحوس (منگالک) قرار دیا جا چکا تھا تو اس کو اس نحوست سے پاک کرنے کے لیے پہلے درخت سے شادی کروانے کا فیصلہ کس مرد نے اور کیوں کیا اور کیوں اس کو ایک ”ناکردہ گناہ کی سزا“ کے طور پر اس پہ نافذ کیا گیا؟ اور کیا یہ سارے ”دروس“ باقی دنیا کی پسی ہوئی عورتوں کے لیے ہی ہیں؟ اور گجرات، کشمیر وغیرہ میں جن مسلم خواتین پر بھارتی مردوں کی مرضیاں زبردستی نافذ کی جاتی ہیں، اس کے خلاف انہوں نے کتنے خط لکھے ہیں؟
دوسرے حملے کا ذکر دوسری قسط میں..
تبصرہ لکھیے