ہوم << غیرمسلم کو کافر کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ محمد تہامی بشر علوی

غیرمسلم کو کافر کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ محمد تہامی بشر علوی

%d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%aa%db%81%d8%a7%d9%85%db%8c-%d8%a8%d8%b4%d8%b1-%d8%b9%d9%84%d9%88%db%8c سوال اٹھایا گیا کہ قرآن مجید میں ابتداء میں نازل ہونے والی سورہ ”المدثر“ میں اتمام حجت سے قبل ہی اسلام نہ لانے والوں کو کافر قرار دیا جا چکا تھا، تو یہ کہنا کیسے درست ہے کہ کافر کہنے کے لیے اتمام حجت ضروری ہے؟ اس سوال میں کن امور کو خلط کر دیا گیا اس کا جائزہ جواب میں لیا جاتا ہے۔
جواب:
چند بنیادی نکات کو پیش نظر رکھنا تفہیم مدعا کے لیے ضروری ہے۔
اتمام حجت:
کا مفہوم یہ ہے کہ کسی فرد پر حق پوری طرح واضح ہو جائے۔ حق کے پوری طرح واضح ہونے کے مختلف داخلی اور خارجی ذرائع ہو سکتے ہیں، جس پر کسی بھی طریقہ سے حق واضح ہوگیا اس پر اتمام حجت ہوگیا۔
مسلم، کافر:
اتمام حجت کے بعد جو حق قبول کر گیا وہ مسلم جو انکار کر گیا وہ کافر۔
جزاء و سزا:
اتمام حجت کے بعد کفر و اسلام کی سزا و جزاء اصلاً تو آخرت میں ملنی ہے، مگر اتمام حجت اگر رسول کے ذریعہ سے ہوا ہو تو ان منکرین پر اخروی سزا کی ایک جھلک دنیا میں بهی ظاہر کر دی جاتی ہے۔
سورہ المدثر:
ان آیات میں کسی گروہ کو ”کافر قراردے کر“ اس کاحکم نہیں بیان کیا جا رہا بلکہ ”کفر اختیار کرنے کی صورت میں“ یہ انذاز عام کیا جا رہا ہے کہ ایک دن آنے والا ہے جو کافروں کے لیے سخت ثابت ہو گا۔ اس عموی انذار کے وقت کہے گئے ”کافرین“ کے مصداق کا اس وقت مفقود ہونا گو کلام کی صحت کو مانع نہ تھا، مگر واقعہ یہ ہے کہ خارج میں مصداق بھی موجود تھا۔
مثال اس کی ایسے ہے جیسے کلاس میں استاد طلبہ سے یہ کہے کہ
”امتحان آنے والا ہے، نہ پڑھنے والے اس دن ناکام ہو جائیں گے.“
اس جملے کا مطلب یہ نہیں کہ کلاس کے کچھ طلبہ کو ”نہ پڑھنے والا“ ثابت کیا جا رہا ہے۔ ”نہ پڑھنے والوں“ کا مصداق مفقود ہو اور ساری کلاس ہی پڑھنے والی ہو، پھر بھی یہ جملہ اپنے مقصد کے پیش نظر برمحل اور درست قرار پائے گا۔ مگر مصداق کا موجود ہونا بھی اس طرح کلام کرنے سے مانع نہیں۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ کلاس میں ”نہ پڑھنے“ والے بھی موجود ہوں۔ یوں ایک عمومی طور پر کہی گئی بات ان ”نہ پڑھنے والوں“ کے لیے خصوصی بھی بن جائے گی۔ لیکن کلام کا محل یہ نہیں ہو گا کہ "استاذ نے ناکام ہونے والےچار لڑکوں کو ”نہ پڑھنے والا قرار دیا“، بلکہ درست محل یہ ہو گا کہ
”استاد نے نہ پڑھنے والوں کو ناکام قرار دیا، اور چار لڑکے نہ پڑھنے والے نکلے.“
پہلی صورت میں کلام کے برمحل ہونے کے لیے ”نہ پڑھنے والوں کا خارج میں موجود“ ہونا ضروری ہے۔ جبکہ دوسری صورت میں ”نہ پڑھنے والوں کا موجود ہوناضروری نہیں۔“
”المدثر“ میں کلام کا محل یہی دوسری صورت ہے کہ جو منکر ہوں گے قیامت کو ناکام ہوں گے۔ سورہ کے ترجمہ پر ہی نظر ڈالنے سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے۔ ان عمومی آیات کے بعد اس سے اگلی آیات میں بعض مفسرین بطور خاص ولید بن مغیرہ کو مراد لیتے ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ عمومی انذار کی خاطر کہے گئے جملے کا ایک خصوصی مصداق بھی میسر آگیا۔ اور اس مصداق سے باخبر ذات نے بتا دیا کہ ”کافرین“ کو جس انجام سے ڈرایا گیا اس کا مصداق ولید بھی ہے۔ جب ”ولید کا کافر ہونا“ اور ”اس کے کافر ہونے کا علم ہو جانا“ ثابت ہو گیا تو اسے ”کافر کا مصداق کہناکسی طرح غلط نہیں“۔ اب رہا ولید کا معاملہ سو وہ ”تفسیر عثمانی“ کے نقل کردہ خصائل کی روسے اس کا جانتے بوجھتے حق کا انکار کرنا پوری طرح ثابت ہو چکا تھا۔ خدا نے اسے کفر اختیار کیے بغیر ہرگز کافر قرار نہیں دیا۔ ولید کے احوال جان لینے کے بعد اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔ مدعا کی مزید تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ تکفیر، اتمام حجت اور کفر کی دنیوی سزا کے مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔
توضیح:
جس پر جب بھی کسی بھی طریقے سےحق واضح ہو گیا پھر وہ انکار کر جائے تو کافر ہو جاتا ہے۔ کافر ہو جانے کے لیے، جانتے بوجھتے حق کا انکارکر دینا کافی ہے۔ البتہ کس نے جانتے بوجھتے انکار کیا اس کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں۔ اس لیے علم کے بغیر کافر کہنے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ خدا کو چوں کہ علم ہے سو وہ جب بھی کوئی جانتے بوجھتے انکار کرے اسے کافر کہہ سکتا ہے۔ گویا ”کسی کا کافر ہوجانا“ اور بات ہے اور”کسی کے کافر ہو جانے کا علم ہو جانا“ اور بات ہے۔ جس کے کافر ہو جانے کا جسے علم ہو جائے، وہ کافر کہہ بھی سکتا ہے۔ اٹھائے گئے سوال میں ”کافر ہو جانے“ کی سطح کے ”اتمام حجت“ کو اور ”دنیا میں خدائی سزا“ کے مستحق بن جانے کے درجے کے ”اتمام حجت“ کو ایک سمجھ لیا گیا ہے۔ جبکہ اول عام اور ثانی رسولوں کے ساتھ خاص ہے۔
المختصر:
اتمام حجت کے بغیر کوئی کافر نہیں ہوتا۔
اتمام حجت کے مختلف ذرائع ہیں، کسی بھی ذریعے سے حق واضح ہو جائے تو اتمام حجت ہو جاتا ہے، اس کے بعد حق کا انکار کفر ہے۔
کافر ہونے کے لیے حق کا جانتے بوجھتے انکار کرلینا کافی ہے۔رسول کا براہ راست مخاطب ہونا ضروری نہیں۔
کافر کہنے کے لیے کافر ہو جانے کا علم ہو جانا ضروری ہے۔
اتمام حجت رسولوں کے ذریعہ ہو جائے تو خدا کفر کی اخروی سزا کی ایک جھلک دنیا میں بھی ظاہر کر دیتا ہے۔
کافر کا وجود اب بھی نایاب یا ناپید نہیں، بس اتنا ہے کہ اب پیغمبر کے بعد حتمی طور پر اس کے وجود کی خبر انسانوں کو ہو جانے کی خود اس کافر کے اقرار کے سواکوئی صورت نہیں۔ کوئی خود یہ اقرار کر دے کہ میں جانتے بوجھتے حق کا انکار کر رہا ہوں تو اسے آج بھی بلا تردد کافر کہا جا سکتا ہے۔
کافر کہنے سے اجتناب اس لیے برتا جاتا ہے کہ جسے کافر کہا جا رہا ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ جانتے بوجھتے حق کا انکار نہیں کر رہا، بلکہ جس چیز کو حق سمجھ رہا ہے، اسی سے وابستہ ہے۔ اور وہ خود کے لیے کافر کا لقب پسند بھی نہیں کرتا۔ دنیا میں کافر کا اطلاق محض دنیوی احکام میں فرق کی مصلحت کی خاطرکیا جاتا ہے۔ یہ مقصد اور موزوں تعبیر سے حاصل ہو پائے تو دین میں ممنوع نہیں۔ ہمارے نزدیک دیگر مذاہب والوں کو ان کے مذاہب کی نسبت مسیحی، ہندو وغیرہ تعبیر کرنا یا عمومی تقسیم میں مسلمانوں کے علاوہ کو ”غیر مسلم“ کا عنوان دے دینا زیادہ موزوں ہے۔