ہوم << جاہلیت دور جدید میں - کامران امین

جاہلیت دور جدید میں - کامران امین

کامران امین بیسیویں صدی میں جبکہ انسان نے تہذیب و ترقی میں کمال حاصل کرکے سائنسی تحقیقات کے ذریعے کائنات کو مسخر کر لیا ہے۔ چاند سے آگے مریخ پر جانے کی تیاری ہو رہی ہے، ایسے میں کیا یہ عنوان عجیب نہیں لگتا ؟ جدید جاہلیت؟
لوگوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ جاہلیت اسلام کی آمد سے پہلے عرب کے کسی تاریخی دور کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جب لوگ مشرک ہوا کرتے تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے، بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے اور خاندانی عصبیتوں کے نام پر برس ہا برس خون ریز لڑائیوں میں صرف کر دیتے۔ یہ ساری صورت حال اسلام کی آمد سے پہلے جزیرہ نما عرب تک محدود تھی، اسلام کے آنے کے بعد ایسی کسی جاہلیت کا کوئی وجود ہی نہیں۔ (ویسے کیا ایسا ہی ہے؟)
جاہلیت کے بارے میں ایک دوسرا نقطہ نظر بھی ہے اور وہ یہ کہ جاہلیت مادی ترقی، تعلیم و تمدن، سائنس و ٹیکنالوجی میں پستی کا نام ہے۔ اگرچہ اسلام کی آمد سے پہلے عرب ٹیکنالوجی میں پیچھے تھے لیکن زبان دانی میں وہ کمال مہارت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ باقی دنیا بھی تعلیم و تمدن بھی کافی ترقی یافتہ حالت میں تھی، اس لیے جاہلیت نام کی کوئی چیز سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی؟ آخر یہ جاہلیت کس بلا کا نام ہے؟
درحقیقت جاہلیت معاشرے کی کسی مخصوس شکل یا تاریخ کے کسی خاص دور کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان تمام دلائل و براہین کے باوجود اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے اور اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ کر برباد ہوتا ہے۔ مکہ کا وہ عظیم دانا شخص جسے علم و حکمت اور قابلیت کی وجہ سے لوگ ابوالحکم کہا کرتے تھے جب اللہ کی بھیجی ہوئی کھلی ہدایت کو جھٹلاتا ہے تو تاریخ میں ابوجہل کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن کی نظر میں جاہلیت تعلیم و تمدن سائنس و ٹیکنالوجی میں پستی کا نام نہیں بلکہ قرآن کہتا ہے :
[pullquote]أفَحُكْمَ الْجَاھلِيَّۃ يَبْغُونَ وَمَنْ أحْسَنُ مِنَ اللَّہ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ[/pullquote] ترجمہ : کیا یہ لوگ پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کس کا ہو سکتا ہے ؟ (سورہ مائدہ آیت 50)
قرآن صاف الفاظ میں جاہلیت کو اللہ کے قانون کے متبادل قرار دیتا ہے۔ فرض کریں عرب اگر اس لیے جاہل تھے کہ طبیعات اورکیمیا سے واقف نہیں تھے یا کسی طرح کی مادی پیداوار دینے سے قاصر تھے تو اللہ انہیں علم جہالت کے بدلے طبیعات اور کیمیا کا علم عطاکرتا۔ لیکن کیا ایسا ہی ہوا؟ نہیں، قرآن نے تو اسلام کو معیار قرار دے کر وہ تمام چیزیں جو اسلام کی تعلیمات کے خلاف تھیں، انہیں جاہلیت قرار دے دیا۔ قران کی نظر میں جاہلیتاس نفسیاتی کشمکش کا نام ہے جس میں مبتلا ہو کر لوگ اللہ کی ہدایت کو قبول نہیں کرتے۔
اگر ہم جاہلیت کی اس قرآنی تعریف کو سامنے رکھیں تو کیا یہ حقیقت واضح نہیں ہوتی کہ ہر وہ تہذیب چاہے وہ کسی بھی زمانے میں ہو، جاہلی تہذیب ہے جو اللہ کی ہدایت سے منہ موڑتی ہےاور ہوائے نفس کی پیروی کرتی ہے ۔ اور یہ تہذیب عربوں کی بھی ہو سکتی ہے اور بیسویں صدی کی نام نہاد جدید تہذیب بھی۔
باقی رہے جاہلیت کے مختلف مظاہر مثلاً بت پرستی ،عصبیت، گروہ بندی ، بیٹیوں کا قتل عام وغیرہ تو کیا یہ برائیاں آج بھی معاشرے میں موجود نہیں؟ مثلاً زمانہ قبل از اسلام میں عرب بیٹی کی پیدائش کے بعد اسے زندہ درگور کرتے تھے لیکن آج جدید دور کا تہذیب یافتہ انسان بیٹی کو پیدا ہونے کا حق دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے اور ماں کے پیٹ میں ہی اس کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔
جاہلیت میں لوگ نسلی عصبیتوں میں مبتلا تھے اور اس بنا پر چلنے والی لڑائیاں نسل در نسل صدیوں تک جاری رہتی تھیں۔ کیا آج زمانہ جدید میں بھی انسان انھی نسلی عصبیتوں میں نہیں الجھا ہوا؟ مثلاً یہ پنجابی، بلوچی، پختونوں کے جھگڑے ۔ یادش بغیر کچھ دن پہلے ایک مولانا صاحب نے اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر ایک خالص نسلی اجلاس بلایا جس میں پختون قوم پرستوں کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کے جانشین نے بھی شرکت کی۔ اسلام کی آمد سے پہلے کا معاشرہ ہر قسم کی شرم و حیا سے عاری تھا۔ حیا باختہ لباس اور سر عام زنا کے قصے بیان کیے جاتے اورلوگ محرم رشتوں کے تقدس کو بھی روند دیتے۔ کیا یہ رسم آج اس سے زیادہ زور سے شور سے جاری نہیں۔ لباس مختصر ہو کر نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی تہذیب کی ابتدا میں انسان ننگا ہوا کرتا تھا پھر جب اس نے پتوں اور جانوروں کی کھال سے تن ڈھانپنے کا طریقہ دریافت کیا تو اسے انسانی تہذیب کی ترقی سمجھا گیا لیکن اب یہی تہذیب یافتہ انسان کپڑے اتار کر دوبارہ پتھر کے دور کی طرف لوٹ رہا ہے۔ اسلام کی آمد سے پہلے معیشت پر سود کا غلبہ تھا۔ کیا تہذیب جدید نے سود سے نجات حاصل کر لی؟ اسلام کی آمد سے پہلے لوگ جسموں کو غلام بناتے تھے۔ تہذیب جدید میں جسم تو بظاہر آزاد ہیں لیکن لوگ روحوں کو غلام بنا رہے ہیں۔
(اس مضمون کا زیادہ تر مواد محمد قطب شہید کی کتاب جدید جاہلیت، ترجمہ ساجد الرحمن صدیقی سے لیا گیا ہے)

Comments

Click here to post a comment