قربانی کا ایک سبق یہ بھی تو ہے ، قرآن جس کو ذبحہ عظیم کہتا ہے. یہ ذبحہ عظیم ایک انتہائی بڑی آزمائش کے بعد نصیب ہوئی ہے. قرآن نے اس کو انتہائی سخت آزمائش کہا ہے. ہم اس کو جدید تناظر میں سمجھتے ہیں کہ آخر آزمائش ہے کیا چیز؟
اہل مغرب اس کو فینو مینلوجیکل افیکٹ کہتے ہیں کہ ہر شخص کو عام زندگی میں جو دشواریاں آتی ہیں، یہ ایک نارمل بات ہے، اس کے لیے تدبیر کرنی ہے یا اس دشواری کے جانے کا انتظار کرنا ہے. دہریے بھی اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ بغیر آزمائش یا مشکل کے زندگی گزار رہے ہیں اور ان مصیبتوں سے نکلنے کے لیے مغربی دنیا میں ہم تھکن سے چور افراد کو دیکھتے ہیں جس کے نتیجے میں مینٹل ہیلتھ یعنی دماغی صحت کا مسئلہ مغربی دنیا کے نزدیک عظیم مسئلہ بنا ہوا ہے، اور جب ہم مینٹل ہیلتھ کے باب کا جائزہ لیتے ہیں تو خستہ حال دماغی صحت، مستقل ناکامی کے سبب انسانی اعصاب کا تھک کر مایوسی کا شکار ہوجانے یا جرائم اور خودکشی پر منتج ہوتی ہے. اور وہاں بھی دماغی صحت کی بقا کا راز زبردست قوت برداشت اور اعلی درجے کا صبر وتحمل ہی بتایا جاتا ہے. وہاں آزمائش پر نکلنے کا راستہ انسان کو نکال کر اپنی غلطیوں کا ذمہ دار خود کو سمجھنا ہوتا ہے کیونکہ خدا کا تصور ہی نہیں ہے.
اب ہم اپنے عقیدے کو دیکھیں کہ آزمائش کو پختہ عقیدے اور ایمان کا حصہ بنا کر، پیغمبروں کی مثال پیش کرکے، اس آزمائش پر پورا اترنے کے صلے میں اللہ نے انہیں انعام سے نوازا اور امت کو بھی انعام کی خوشخبری دی ہے. دراصل ایک تلقین مقصود ہے کہ بندے کے آزمائش سے نکلنے پر دماغی صحت کے کمزور ہونے کا نقصان نہ ہو، گویا عقیدہ اور یقین ہی میں دماغی صحت کا راز ہے.
آزمائش جس کو ہم کہتے ہیں یا جو انسان کے ایمان کی آزمائش ہے. دراصل یہ اللہ کی طرف سے بندے کو زندگی کے قابل بنانے کی تیاری ہے.
کیا یہ آزمائش صرف اپنے مخصوص بندوں کے لیے ہوتی ہے؟
کیا اس آزمائش کے بعد مخصوص بندوں کو مخصوص مقام ملتا ہے؟
ایسے سوالات ہمارے ذہن میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور بچپن سے والدین اور بڑوں نے یہی کہہ کر تسلی دی ہے کہ ہاں اللہ اپنے مخصوص بندوں کو آزماتا ہے. جوں جوں بڑے ہوتے گئے، یہ راز منکشف ہوتا گیا کہ آزمائش تو ہر ذی عقل کے لیے شرط ہے. اللہ نے کسوٹی پر پرکھنے کے لیے آزمائش رکھی یا کچھ اور وجہ ہے تو مشاہدہ نے جواب دیا، نہیں آزمائش تو زندگی کے لیے شرطِ اول ہے. ہر فرد آزمائش سے گزرتا ہے، تجربہ حاصل کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے. ہاں مشاہدے سے یہ بھی پتہ چلا کہ آزمائش پر مسکراتا وہی شخص ہے جو اللہ کی مدد کا پختہ یقین، صبر و تحمل اور قوت برداشت کی انتہاء پر ہو. اور اسی کی مثال اللہ نے انسان کی حوصلہ افزائی کی شکل میں پیش کی ہے، کبھی یاد قربانی کے ذریعے تو کبھی فتح مکہ کی نوید سنا کر کہ اللہ کی طرف سے آزمائش کی معیاد پوری ہونے کے بعد بالاخر معراج ملے گی. اور یہی وہ چیز ہے جب ہم اپنے قریبی ممالک یا اپنے ملک میں مسلمانوں کو دیکھ کر دل برداشتہ ہوتے ہیں، کسی کی پھانسی کی خبر ہو، اہل ایمان ظلم استبداد کی داستان سن کر جب آسمان کی طرف نگاہ اٹھائیں کہ اے خدا کب تک اپنے مسلمان بھائیوں کی آہ و بکاہ سنیں؟ کب تک ہم بوڑھے بچے بزرگوں کی آہیں سنیں تو یہی جواب آتا ہے
”پس تنگی کے بعد فراخی بھی ہے.“
یا یہ گونج ہوتی ہے ”عنقریب تمہارا رب تمہیں خوش کردے گا.“
یا یہ کہ ”تمہاری قربانی رائیگاں نہیں جائے گی، نسلیں یاد کریں گی.“
شرط بہرحال آزمائش کے مدت کی تکمیل تک صبر و استقامت کی ہے.
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کیا یہ کوئی معمولی آزمائش تھی؟
اپنے بیٹے، جگر کے ٹکڑے کو عطا کرکے دوبارہ انہی ہاتھوں سے طلب کرنا؟
اور اس انتہا پر آزمائش کو پہنچا دینا کہ انسان کے اعصاب عقل سب کچھ جواب دے دے. دراصل اس آزمائش میں ایک نشانی انسان کی بےبسی ہے. ربِ کریم کے سامنے کہ وقت کا پیغمبر چاہے تو ایک دعا اور التجاء سے بھی گڑگڑا کر رب سے کہہ سکتا ہے کہ اے رب! مجھ کو اس آزمائش سے بچالے. اور مورخ لکھ دیتا کہ سخت آزمائش پر ایسے گڑ گڑا لو لیکن نہیں یہاں حضرت ابراہیم کی رب کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش تھی، ایک ایسی شعوری کوشش جو ایمان کی پختگی پر انتہا درجے کی غماز ہے، ایسی شعوری کوشش کہ لازما میرا رب بہتر ہی کرے گا. اگر آپ اس بات کو شعور کی کسوٹی پر پرکھ لیں کہ کون سی غیر مرئی قوت ان سے کروانے لگی تھی، آپ اندھا دھند فرمانبرداری اور ایمان اور توکل اور صبر واستقامت کی معراج کہہ سکتے ہیں یا انتہا درجے کی قوت برداشت.
اسی قوت برداشت کا نام صبر ہے،
صبر آپ کو آزمائش کے نکلنے تک آہ و بکا سے روکتا ہے،
صبر آپ کو رب کا شکر گزار بناتا ہے کہ اس آزمائش سے نجات بخشتا ہے،
صبر آزمائش کے قد کو چھوٹا بناکر ہر مقابلہ کے لیے خود کو قد آور اپنی نگاہ میں ثابت کرتا ہے،
صبر انتہاء درجہ کی آزمائش کے بعد اس کی یادہانی کرکے خود کو کمزور کرنے پر نہیں اکساتا.،
بندہ سمجھ لیتا ہے کہ صبر احساسِ غم اور بلائے وقت کو ختم نہیں کرتا بلکہ اس کو قوت میں بدل دیتا ہے.
تو جناب یہ جو ہم ہر خوشی اور غم کے مواقع پراپنے گزرے وقت کی مصیبتوں کا رونا روتے ہیں، اداس ہوتے ہیں، دراصل ہم صبر، قوت، برداشت اور حلم جیسی صفات ہی تو، اب تک حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نہیں سیکھ پائے ہیں. اور قربانی بطور رسم کیے چلے جا رہے ہیں. اس واقعہ سے آزمائش پر استقامت اور رب ِ برتر کے آگے سر نگوں ہونا ہی کاش ہم سیکھ لیں.
کوئی بندہ آزمائش سے خالی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہر فرد مسکراتا ہے، خوش رہتا ہے، ہنستا ہے، جیتا ہے، پھر کیوں اداس ہوا جائے.
ہاں اگر کوئی چیز پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گھلاتی تھی تو وہ یہی تھی کہ وہ اسلام کی دعوت اپنی زندگی میں ہر فرد تک پہنچا دیں تاکہ لوگ جہنم سے بچ جائیں، تو اسی فکر میں گھلیں کہ ہمیں اھل وطن تک دعوت ِ اسلام پہنچانی ہے اور ہم اپنے درمیان کے تفرقے اور جھگڑے ختم کردیں اور ایسا رویہ ترک کریں جو اسلام کے منافی ہو کیونکہ یہ رویہ لوگوں کو اسلام سے متنفر بنا رہا ہے. میرے نزدیک یہ چیز اداس کردینے والی ہے. اس کے علاوہ اداسی کا پہلو ہمیں تو نظر نہیں آتا.
تبصرہ لکھیے