تکفیر کے جواز کے بارے میں بعض متجددین نے ایک خلطِ مبحث پیدا کر دیا ہے، اسی سلسلے کی ایک کڑی جاوید غامدی صاحب کا ”جوابی بیانیہ“ بھی ہے، جس میں تکفیر کے مسئلے میں متشددانہ نقطہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایک تو تکفیر کو سرے سے ممنوع قرار دیا ہے جس کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ قادیانیوں کی تکفیر کا فیصلہ معرض شک میں ڈال دیا جائے۔ دوسری طرف وہ تمام صوفیائے کرام کے ساتھ یہ معاملہ کرتے ہیں کہ انہیں اسلام سے مختلف، مقابل اور متوازی دین کا پیروکار قرار دیتے ہیں، جس کی کتاب بھی قرآن مجید کے مقابل کوئی اور ہے، اور شریعت بھی اسلامی شریعت سے مختلف ہے۔ یہ ان کی اور ان کی معتقد اکثر امتِ مسلمہ کی تکفیر سے بھی اشد حکم ہے۔ گزشتہ دنوں نادر عقیل انصاری صاحب نے، جاوید غامدی صاحب کے ”جوابی بیانیے“ کے ضعفِ استدلال پر ایک تنقید لکھی، جس پر کچھ اور صاحبانِ قلم نے ان کی تائید کی۔ نادر صاحب کے مضمون کے جواب میں جاوید غامدی صاحب کا ایک مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ کے عنوان سے دلیل میں شائع ہوا۔ ان کے داماد محمد حسن نے بھی اس کا جواب دیا. غامدی صاحب کے ”جوابی بیانیے“ اور ان کی تحریر ”مسلم اور غیر مسلم“ پر اپنے تحفظات کے بیان کے لیے، کچھ معروضات پیش خدمت ہیں۔
قرآن مجید فرقان حمید کی تعلیمات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات، صحابہ کرامؓ کے اجماع اور تعامل، تابعین کے فرمودات اور روایات، اور فقہاء امت کی تنقیح کے مطابق، اسلام کے ابلاغ کے بعد اتمامِ حجت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد لوگ دو گروہوں میں منقسم ہو جاتے ہیں: مسلم اور کافر۔ آخرت میں اسلام اور کفر کی جزا و سزا کے بہت سے درجات ہیں۔ لیکن دُنیا میں شریعت کے معاملات کو نمٹانے کے لیے فقط دو ہی درجے ہیں – اسلام یا کفر – تیسرا کوئی درجہ نہیں۔ استعماری فقہ تصنیف کرنے والے بعض متجددین نے اپنی طرف سے ایک تیسرا درجہ بنایا ہے – یعنی ”غیر مسلم“، جو مومن تو نہیں ہے، لیکن کافر بھی نہیں ہے! اِن لوگوں کے پاس قرآن مجید یا احادیث مقدسہ کی کوئی دلیل نہیں ہے، نہ انہوں نے پیش کی ہے۔ در حقیقت اس معنی میں یہ اصطلاح، عہد جدید ہی میں ایجاد ہوئی ہے، اور قرآن مجید میں کہیں استعمال نہیں ہوئی۔
اب سوال یہ ہے کہ چونکہ ہم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں کسی شخص معیّن کے معاملے میں کیا فیصلہ فرمائے گا، تو کیا اس وجہ سے، ہم کسی کی تکفیر ہی نہیں کر سکتے؟ بعض جدید مبتدعہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ ہم کسی کی تکفیر نہیں کر سکتے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ کافر قرار دینے کا مطلب ہے اسے دوزخی قرار دینا، اور تکفیر کا مطلب ہے کسی کو دوزخ کی وعید سنانا۔ اور چونکہ ہم یہ نہیں جان سکتے کہ کون دوزخ میں جائے گا، لہذا کسی کی تکفیر کرنا جائز نہیں۔ ان حضرات کا یہ مقدمہ فاسد ہے، اور استدلال خام ہے، بالخصوص ان لوگوں کے قلم سے، جو خود تقریباً تمام امتِ مسلمہ کے ساتھ تکفیر سے بھی اشد معاملہ کر چکے ہوں، اور انہیں ”اسلام سے مختلف اور اس کے مقابل“ ایک ”متوازی دین“ کا پیروکار بتاتے ہوں۔ اُن کے استدلال کی غلطی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں فیصلہ ظاہر کے مطابق، شہادتوں کی بنا پر ہوتا ہے، جیسے قتل و زنا کے مقدمات میں قضاۃ فیصلہ دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی رُو سے، مسلمان کو قتل کرنے کا بدلہ دوزخ ہے۔ لیکن جب ایک قاضی، کسی کو قتل کے جرم میں شہادتیں ملنے پر قصاص کے تحت سزائے موت دیتا ہے، تو سزا یافتہ شخص کی آخرت پر کوئی حکم نہیں لگاتا۔ فیصلے میں یہ نہیں لکھتا کہ یہ دوزخی ہے، بس یہ کہتا ہے کہ شہادتوں سے جرم ثابت ہو گیا، یہ قاتل ہے، اور دنیا میں اس کے لیے شریعت نے سزائے موت کا حکم دیا ہے، لہذا اسے یہ سزا دی جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، دِلوں کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ یہی معاملہ تکفیر کا بھی ہے۔ کفر کا فیصلہ بھی شہادتوں پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی ضروریاتِ دین کا انکار کر دے، تو اس کی تکفیر قضا و افتاء کا معاملہ ہے، جس میں تمام تر انحصار شہادتوں پر ہے۔ تکفیر کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ شخص ضروریاتِ دین کا انکار کرنے کی وجہ سے، کافر ہو گیا، امتِ محمد ﷺ سے خارج ہوگیا۔ اب اس پر اتداد کی وہی سزا نافذ ہوگی جو اسلام کی ابدی شریعت میں بتائی گئی ہے۔ اگر ارتداد کا قانون اس ملک میں نہ ہو، یا وہ کسی اور وجہ سے اس سزا سے بچ جائے، تو اس کی شادی بیاہ، وراثت، اور تدفین وغیرہ پر، وُہی احکام عائد ہوں گے جو کفار پر عائد ہوتے ہیں۔
رہا یہ سوال کہ یہ شخص دوزخی ہے یا نہیں، تو واضح رہے کہ تکفیر کے حکم کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں۔ جو لوگ تکفیر کے مسئلے میں یہ خلط مبحث پیدا کر رہے ہیں وہ معاملے سے واقف ہی نہیں ہیں۔ معاملہ یوں نہیں ہے کہ جب مفتی و قاضی کسی کی تکفیر کرتے ہیں تو گویا اس کے دوزخی ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کسی معین شخص کے معاملے میں یہ بات تو علم غیب کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ کسی کے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دوزخی ہے، البتہ اسے کافر قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس کے لیے اب ہم مشہور حنفی متکلم و محقق، امام ابن ابی العز حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے پیش کرتے ہیں۔ اس کا سیاق و سباق کچھ یوں ہے کہ امت کے جہانِ علم و معرفت کے دو درخشاں ستاروں، حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان بڑے عرصے تک بحث رہی کہ آیا وہ شخص جو قرآن مجید کو مخلوق کہتا ہے، کافر ہے یا نہیں؟ ابتدا میں حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اس طرف تھا کہ اسے کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بعض روایات کے مطابق چھ ماہ اور بعض روایات کے مطابق فاضل استاذ اورشاگرد کے درمیان یہ بحث ایک سال تک چلی۔ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بالآخر ہمارا اتفاق اس پر ہوا کہ قران مجید کو مخلوق کہنے والا کافر ہے۔ شرح العقیدۃ الطحاویہ، کے مصنف، علامہ صدر الدين محمد بن علاء الدين علی بن محمد ابن أبی العز الحنفی رحمۃ اللہ علیہ اس واقع کو ذکر کرنے کے بعد، مسلمان کی تکفیر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”جب کسی شخصِ معین کے بارے میں پوچھا جائے کہ کیا تم اسے اہل وعید (یعنی جہنمیوں) میں شمار کرتے ہو؟ کیا تم اسے کافر قرار دیتے ہو؟ تو ہم یہ بات نہیں کہتے، الا یہ کہ کوئی ایسی بنیاد ہو جس پر یہ حکم لگایا جا سکے (مثلاً، کسی شخص کے بارے میں کوئی نص ہی موجود ہو، جیسے ابولہب!)۔ اللہ کے مقابل سرکشی کی سب سے بری شکل یہ ہے کہ آپ ایک شخص ِمعین کے بارے میں یہ حکم لگائیں کہ اللہ اُسے نہیں بخشیں گے، اور اُس پر رحم نہیں فرمائیں گے، بلکہ اسے ابدی جہنم میں ڈال دیں گے۔ (کسی شخص معین کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے، حالانکہ ہم اصول میں جانتے ہیں کہ) کافر کے ساتھ موت کے بعد یہی تو ہو گا! [۔۔۔] ممکن ہے کہ ایسا شخص کسی اجتہادی غلطی کا مرتکب ہوا ہو، جس پر اللہ کی طرف سے معافی کا اعلان ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تمام متعلقہ نصوص اُس شخص تک نہ پہنچ سکی ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس شخص کا ایمان اتنا قوی ہو اور اس کی نیکیاں اتنی عظیم ہوں کہ وہ لازما ًاللہ تعالی کی رحمت کا حقدار قرار پائے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالی نے اس شخص کی مغفرت فرما دی جس نے خوف احتساب کی وجہ سے کہا تھا: ”جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا اور میری راکھ بکھیر دینا۔“ اللہ تعالی نے اس کے کمالِ خوف کی وجہ سے اس کی مغفرت کر دی (کیونکہ آخرت کی سزا کا خوف اس کے گہرے ایمان کو ظاہر کرتا تھا)۔ حالانکہ (اس کی بات سے یہ بھی مترشح ہو رہا تھا کہ) وہ سمجھتا تھا کہ (اگر اسے جلا کر اس کی راکھ بکھیر دی جائے تو) اللہ تعالیٰ اس کی راکھ کو جمع کر کے اس کو پھر سے جمع کرنے کی قدرت نہیں رکھتا، یا اسے اس میں کم از کم شک ضرور تھا (اور اس کا خیال تھا کہ اس طرح وہ عذاب سے بچ جائے گا، یہ بات بظاہر کفریہ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر بھی اسے معاف کر دیا)۔
(چنانچہ کسی کے ساتھ آخرت میں کیا ہوگا، اس پر ہمیں توقف کرنا چاہیے) لیکن، آخرت کے معاملے میں یہ توقف اس بات سے مانع نہیں ہے کہ ہم دنیا میں اس کا مؤاخذہ کریں، اُس کی بدعت کو پھیلنے سے روکیں، اور اس سے توبہ کا مطالبہ کریں، اگر وہ توبہ کرلے تو درست، ورنہ اسے قتل کر دیں!“ (حضرت علامہ صدر الدین محمد بن علاء الدین بن محمد ابن العز الحنفی رحمۃ اللہ علیہ، شرح العقیدہ الطحاویہ، صفحہ، ۲۹۹)۔
اس کے بعد ایک ہی مسئلہ رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جس کو اسلام کی دعوت ہی نہیں پہنچی اس کا کیا حکم ہو گا؟ اس طرح کا شخص کبھی دارالاسلام میں تو ہو نہیں سکتا، کیونکہ اگر مل بھی گیا تو اتمامِ حجت کے لیے اسے اسلام کی دعوت دی جائے گی، اور ابلاغ کے بعد اگر اس نے اسلام قبول کر لیا تو درست، ورنہ کافر ہی سمجھا جائے گا۔ اسی طرح یہ بات بھی بہت بعید از قیاس ہے کہ دنیا میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کو کسی نبی کی یا آپ ﷺ کی نبوت کی خبر ہی نہیں پہنچی۔ تاہم، بالفرض، اگر کہیں دُور کسی علاقے میں ایسا کوئی شخص موجود بھی ہو، تو مسلمان اس پر مفتیانہ، یا عدالتی حکم لگانے کے پابند نہیں ہیں۔ ایمان و کفر کا حکم تو کسی شرعی حکم کے نفاذ ہی کے لیے لگایا جاتا ہے، کیونکہ بہت سے شرائع اس پر موقوف ہیں کہ کوئی شخص مسلمان ہے یا کافر۔ چونکہ اس شخص کا کوئی معاملہ کسی مسلمان سے ہو نہیں رہا، لہذا یہ ایک فرضی سا سوال ہے۔ بس یہ معلوم ہونا چاہیے، کہ قرآن مجید کے مطابق ہر شخص پر ایمان باللہ واجب ہے، خواہ اسے کسی نبی کی دعوت نہ پہنچی ہو، کیونکہ عہد الست (سورہ اعراف: آیت ۱۷۲) کے ذریعے انسان کو بتا دیا گیا تھا کہ تمہارا رب کون ہے، اور یہ بھی کہ اب تمہارا کوئی عذر آخرت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے لیے کسی نبی کی دعوت پہنچنی ضروری نہیں۔ انسان ہر حال میں ایمان باللہ پر ماخوذ ہوگا، البتہ اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ اشراق کی نماز پڑھتا تھا یا نہیں، کیونکہ اسے اس کا ابلاغ ہی نہیں ہُوا، نہ وہ اس کا مکلّف تھا۔
اس کے برعکس دور جدید میں متجددین نے یہ متشددانہ رائے قائم کی ہے کہ لا مذہب (irreligious)، دہریوں (atheist)، اور لاادریت (agnostic) کے قائلین کے اوپر بھی اتمام حجت نہیں ہوا۔ لہذا انہیں” کافر“ کے بجائے ”غیر مسلم“ ہی کہا جائے گا۔ جاوید احمد غامدی صاحب لکھتے ہیں:
”اسلام کے سوا باقی تمام ادیان کے ماننے والوں کو غیر مسلم کہا جاتا ہے۔ یہی تعبیر اُن لوگوں کے لیے بھی ہے جو کسی دین یا مذہب کو نہیں مانتے۔ یہ کوئی تحقیر کا لفظ نہیں ہے، بلکہ محض اِس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ اسلام کے ماننے والے نہیں ہیں۔ اِنھیں بالعموم کافر بھی کہہ دیا جاتا ہے، لیکن ہم نے اپنی کتابوں میں بہ دلائل واضح کر دیا ہے کہ تکفیر کے لیے اتمام حجت ضروری ہے اور یہ صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب ہم اُس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ حق اب کسی فرد یا گروہ کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے (جاوید احمد غامدی، مسلم اور غیر مسلم)۔“
یہ تمام تقریر دینی اعتبار سے نہ صرف بےبنیاد ہے، بلکہ قرآن مجید کے صریح بیان کے بھی خلاف ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
[pullquote]وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آَدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ۔ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آَدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ (172) أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آَبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ (اعراف:۱۷۲ تا ۱۷۳)۔[/pullquote]
اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا، اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتےہوئے پوچھا تھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہ دینا کہ ہم تو اس سے باخبر تھے۔ یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا؟ (سورہ اعراف: ۱۷۲ تا ۱۷۳)۔
امت کا اجماع ہے کہ اس عہد الست کی وجہ سے منکرین خدا (لامذہب، دہریے، اور لاادریت کے قائلین) پر اتمام حجت ہو چکا ہے، انہیں اور کسی مزید دعوت و تبلیغ کی حاجت نہیں ہے۔ جاوید غامدی صاحب یہ ”روشن خیال اعتدال“ (Enlightened Moderation) پیش کرتے ہوئے یہ بھی فراموش کر بیٹھے کہ وہ اس سے قبل یہی بات لکھ چکے ہیں ، کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کے معاملے میں تمام بنی نوع انسان پر اتمام حجت ہو چکی ہے۔ لکھتے ہیں کہ جہاں تک توحید کا تعلق ہے، اس کے بارے میں ”مجرد اس اقرار کی بنا پر بنی آدم کا مواخذہ کیا جائے گا“ اور عہد الست میں کیے گئے وعدے سے ”انحراف کے لیے کسی کا یہ عذر خدا کے ہاں مسموع نہیں ہو گا کہ اسے کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی“ (البیان، جلد ۲، صفحہ ۲۴۲)۔ جاوید غامدی صاحب اب یہ لکھ رہے ہیں کہ ”صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب ہم اُس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ حق اب کسی فرد یا گروہ کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے۔“ غامدی صاحب کی یہ بات دہریوں کے بارے میں اس لیے غلط ہے، کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بات قرآن مجید میں بتا چکا ہے کہ منکرین خدا پر اتمام حجت ہو چکا ہے، اور اللہ کا یہ فرمان تمام رہتی دنیا تک تمام بنی نوع انسان کے بارے میں ہے، کہ ان میں جو اللہ کا انکار کرے وہ اتمام حجت کے بعد ایسا کرتا ہے، لہذا کافر ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی رُو سے منکرینِ خدا غیر مسلم نہیں، کافر ہیں۔ اور یہاں پر بھی غامدی صاحب کا ”جوابی بیانیہ“ قرآن مجید سے متصادم ہے۔
یہی نہیں، حجت الاسلام ابوحامد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”الاقتصاد فی الاعتقاد“ میں واضح کیا ہے کہ منکرین خدا (لامذہب، دہریے، اور لا ادریت کے قائلین) کے کفر کی شناعت مشرکین، یہود، نصاری اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے اشد ہے۔ امام صاحب دہریوں اور منکرینِ خدا (الدھریۃ المنکرین لصانع العالم) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ لوگ نصاریٰ اور یہود کے مقابل، تکفیر کے زیادہ سزاوار ہیں۔ (فکانوا بالتکفیر اولیٰ من النصاریٰ و اليھود، و الدھریة اولیٰ بالتکفیر من البراھمۃ، امام غزالی، الاقتصاد فی الاعتقاد، صفحہ ۱۳۴)۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہمارے دین میں انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ”مسلم“ اور ” کافر“۔ غامدی صاحب کی اختیار کردہ اصطلاح ”غیر مسلم“ قرآن مجید میں کہیں استعمال نہیں ہوئی۔ قرآن و حدیث اور علماء و مجتہدین و صوفیائے عظام کے مطابق دوسرے مذاہب کے لوگ، بشمول لا مذہب، دہریے اور لاادریت کے قائلین بھی، اصول میں، کافر ہی سمجھے جائیں گے، بلکہ لا مذہب لوگوں کا کفر و انکار کسی غیر اسلامی مذہب کو ماننے والوں سے اشدّ ہے۔ اس اعتبار سے، جاوید غامدی صاحب کا ”جوابی بیانیہ“ اور ان کا مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ علمی و دینی اعتبار سے انتہائی کمزور استدلال پر مبنی ہے، اور قرآن مجید کے خلاف ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔
تبصرہ لکھیے