کچھ دن پہلے میں نے دلیل پر ایک بھائی کا آرٹیکل پڑھا تھا جس کا عنوان تھا ’ چلتے رہیے ورنہ گولی مار دی جائے گی‘۔ یہ عنوان دراصل ایک انتباہ کی صورت میں ایک دیوار پر لکھا ہوا تھا اور یہ تختی کسی غیرملکی سفارت خانے کے باہر نہیں بلکہ پاکستانی فوجی تنصیبات کے دفتر کے باہر نصب تھی۔ مضمون اتنا عمدہ تھا کہ آخری سطور پڑھتے وقت واقعی آنکھیں نم تھیں۔ بات آئی گئی ہو جاتی اگر موٹروے پر ہونے والے واقعے کی خبر سماعت سے نہ ٹکراتی۔ اب یہ بات اتنا گردش کر چکی ہے کہ یہاں لکھنا ضروری نہیں مگر پھر بھی تذکرہ لازم ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ اٹک کے قریب ایک حاضر سروس کیپٹن صاحب نے اوور اسپیڈنگ کی جس پر موٹروے پولیس کے اہلکاروں نے روک کر پوچھ گچھ کی۔اطلاعات کے مطابق کیپٹن نے اپنے تعارف کو جواز بنانا چاہا مگر موٹروے اہلکار نے اس حرکت کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے چالان تھما دیا۔ اس واقعے کی تھوڑی دیر بعد مذکورہ کیپٹن آرمی کے مسلح جوانوں کے ساتھ آئے اور موٹروے پولیس کے پٹرول آفیسر عاطف خٹک، محسن طوری اور اسسٹنٹ پٹرول آفیسر جلال شاہ کو موقع پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ پھر جو اس پولیس والے کا حال ہوا تھا آپ سب نے دیکھا۔ اس پر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بجائے بعض لوگوں کی جانب سے ٹوئٹر کے ذریعے یہ تاثر عام کیا جارہا ہے کہ فوج جیسے ان ٹچ ایبل اور احتساب و انصاف کے تقاضوں سے بالاتر ادارہ ہے جس سے آپ سوال نہیں کر سکتے۔ کیا وردی پہننا کسی کو قانون سے بالاتر بنا دیتا ہے؟ یا پھر سویلین کی آپ کے آ گے واقعی کوئی اوقات نہیں ہے؟ عام انسان کیا. ایک دوسرے نیک نام ریاستی ادارے کے مقابلے میں آپ کو برتری کا شائبہ ہے اور آپ اپنے رینک کے ذریعے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ’روکیے مت ورنہ پٹائی ہو جائے گی‘۔
فوج نہایت محترم اور محافظ ادارہ ہے، اور گزشتہ عرصے میں اس کی قربانیاں بےمثل ہیں، یہ بات بھی درست ہے کہ کسی ایک فرد کے عمل کو جواز بنا کر ہم پورے ادارے پر تنقید نہیں کر سکتے. مگر اس مخصوص سوچ کی نشان دہی بہت ضروری ہے. لائن آف کنٹرول سے فاٹا و بلوچستان تک سپاہیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے قوم کو تحفظ کا احساس دلایا ہے، خود جنرل راحیل شریف نے فرنٹ لائن پر جا کر مثال قائم کی ہے. ہزاروں کی تعداد میں ہمارے فوجی بھائی ہر سال ریٹائرڈ ہو کر ملک بھر میں قائم شاپنگ مالز، بینکس اور بڑے گھروں کے باہر سیکیورٹی گارڈ بنے بارہ ہزار میں سولہ سولہ گھنٹے ڈیوٹی دیتے نظر آتے ہیں اور قابل تعریف ہیں، مگر افسران جو کچھ کریں، ان پر تنقید کرنا بعض حلقوں کو گراں گزرتا ہے۔ بدلے میں بارڈر پر شہید ہونے والے فوجیوں کی تصاویر دکھا کر یاد دلایا جاتا ہے کہ یہ ملک کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں، آپ کیا کر رہے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ ان کی قربانیوں کا کس نے انکار کیا ہے، اس کی تو پوری قوم معترف ہے، مگر سپاہیوں کی قربانی یہ جواز فراہم نہیں کرتی کہ افسران قانون سے بالاتر ہو جائیں۔
بلاشبہ آرمی ایک معتبر ادارہ ہے اور ہم نے بچپن سے اپنے بزرگوں سے ان کی بہادری کے قصے سنے ہیں۔ جب ہندوستان سے ہمارے پیاروں سے لدی ہوئی ٹرینیں آرہی تھیں تو پاکستانی فوجیوں نے دروازوں پر پہرے دے کر جانوں کو محفوظ رکھا تھا، یہی وجہ تھی کہ ہر بچہ کہتا تھا کہ میں بڑا ہو کر فوجی بنوں گا مگر اس طرح کے واقعات ان معصوم خواہشوں پر پتھر بن کر لگتے ہیں۔ اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ورنہ دیگر اہلکاروں اور ایماندار افسران کے مورال کا قتل ہوگا اور ساتھ ہی ایک عظیم ادارے کے احتسابی نظام پر بھی انگلیاں اٹھیں گی۔ قوم کی نظر اس وقت صرف اور صرف جنرل راحیل شریف پر ہے جنھوں نے اپنے فیصلوں سے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ اپنی صفوں میں سے ایسے لوگوں کو احتساب کے لیے پیش کیا جائے کیونکہ قوموں کی تباہی کو لیے یہی کافی ہے کہ کسی ایک طبقہ کو احتساب سے بالاتر سمجھ لیا جائے. ہم یہ ٹریلر خاندانی سیاست اور نسلوں سے عوام کا خون چوسنے والے حکمرانوں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں، اس لیے رخ اس طرف کرکے فوج کو نجات دہندہ سمجھنے لگے تھے. اب وہاں بھی یہی روایت دہرائی جانے لگی تو پھرمستقبل انتہائی تاریک دکھائی دیتا ہے۔
تبصرہ لکھیے