ہوم << صنعت کے ایان علی - رضوان الرحمن رضی

صنعت کے ایان علی - رضوان الرحمن رضی

رضوان رضی کم وہ بیش چار سال کے عرصے کے بعد چین نے ایک مرتبہ پھر خام مال کی عالمی منڈیوں میں دخل اندازی فرما دی ہے اور اقتصادی خبریں دینے کے حوالے سے معتبر سمجھے جانے والے امریکی ادارے ’’بلوم برگ ‘‘ کی اس ہفتے کی رپورٹ کے مطابق، عالمی منڈی میں کوئلے کے نرخ اٹھارہ ماہ کی بلند ترین سطح پر دیکھے جا رہے ہیں اور نرخوں میں بڑھوتری کا رحجان روز افزوں ہے۔ جواز اس کا یہ فراہم کیا جا رہا ہے کہ چین اپنے کم ترقی یافتہ علاقوں کو ترقی دینے کے لیے وہاں پر ایندھن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئلے کے ’’مستقبل کے سودوں‘‘ کو اپنے نام لکھ رہا ہے اور بےتحاشا لکھ رہا ہے۔
اس سے قبل چین نے ایندھن کی عالمی منڈی کے علاوہ خام دھاتوں کی دوسری منڈیوں میں بھی جو دھماچوکڑی مچائی تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سونے اور خام تیل کی قیمتیں کہاں سے کہاں تک گئی تھی، اس کے حوالے سے بھی کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ چینیوں سے بڑا جواری ماں نے کرہ ارض پر پیدا ہی نہیں کیا۔ ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ یہ اپنی ضرورت سے تین یا چارگنا مانگ عالمی منڈی میں اُس وقت ڈالتے ہیں جب وہ اپنی ضرورت کا بیشتر حصہ خرید چکے ہوتے ہیں۔ اور جب عالمی منڈی کے نرخ ان کی قیمتِ خرید کے دگنے سے بڑھ جاتے ہیں تو یہ اس ساری مہم کے آغاز میں اپنا سستا خریدا گیا مال ان بھاری نرخوں پر فروخت کر کے منڈی سے نکل جاتے ہیں اور ہم جیسی معیشتیں رہ جاتی ہیں پسنے کے لیے۔ یوں ان کو اپنی صنعتوں کے لیے خریدا گیا خام مال تو مفت میں پڑجاتا ہے اور جب یہ دوسرے ممالک کو عالمی منڈی میں خام مال کی قیمتوں سے بھی کم قیمت پر اپنا تیار مال بیچتے ہیں تو دنیا کی کوئی معیشت ان کے مقابلے میں کھڑی نہیں ہو پاتی۔
عالمی منڈی میں گذشتہ چار سال تک سکون رہا ہے۔ ایسے وقت میں ہمارے ملک کے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کی پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں رہے ہیں اور مقامی صنعت کاروں کے منافع جات کسی قطار شمار میں نہیں آ رہے تھے۔ بین الاقوامی سطح پر خام دھاتوں اور ایندھن کے علاوہ زرعی اجناس کی قیمتیں گذشتہ چار سال کی کم ترین سطح پر رہیں۔ لیکن ہمارے انتہائی پیشہ ور اور ایماندار صنعت کاروں نے خام مال میں اس کمی کا اثر اپنی پیداوار کی قیمتوں کو کم کر کے عوام کو منتقل نہیں کیا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ہاں عام صارف کو عالمی منڈی میں خام مال کی قیمتوں میں اس کمی کا ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہوسکا۔
اب آپ پام آئل سے بننے والے گھی کی مثال ہی لے لیجیے۔ عالمی منڈی میں اس وقت بناسپتی گھی کا خام مال یعنی پام آئل اپنے چار سال پہلے کی قیمتوں کے نصف سے بھی کم پر ہے تو کیا گھی یا خوردنی تیل کی قیمتوں میں آپ کو اس قدر کمی نظر آئی؟ نہیں ناں؟ یہی حال باقی پیداواری اجناس کا ہے۔ صرف ان اشیاء کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آئی جن کا خام مال مقامی تھا اور مقصد یہ تھا کہ پاکستانی کسان کا رگڑا نکل جائے۔ کیا ربڑ سے بننے والی اشیاء کی قیمتوں میں کمی ہوئی؟ جی نہیں تو پھر تیار ہو جائیے کہ اب ملک میں مہنگائی کا ایک سونامی آنے والا ہے۔ ان گرمیوں میں ہمارے صنعت کاروں نے ساڑھے چھ سو ارب روپے کی صرف خواتین کی لان ہی فروخت کر ڈالی لیکن اس پر کوئی انکم ٹیکس یا سیلز ٹیکس اس لیے خزانے میں نہ جا سکا کیوں کہ یہ پیداواری یونٹ برآمدی مال بنانے کے حوالے سے معروف اور رجسٹر ہیں۔ ہماری مقامی تیار مال کی مقامی منڈی بھی کسی بھی یورپی ملک کے مقابلے میں بڑی ہوگئی ہے، اس کی دستاویز بندی سے ٹیکس کے حوالے سے ملکی معیشت کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
اس اثناء میں ایف بی آر بھی حماقت کر بیٹھا ہے. اس نے الیکٹرانک دستاویزبندی کا عمل برآمدات سے شروع کر دیا ہے، درآمدات کی باری ابھی آنا باقی ہے۔ یعنی ایف بی آر نے برآمدات کو کمپیوٹرائزڈ کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے صنعت کار جو ایک کنٹینر بھیج کر بینک والوں سے مل ملا جعل سازی کر کے اس ایک کنٹینر کے عوض پانچ چھ کنٹینر کی قیمتوں کے برابر زائد رقوم ملک میں لے آیا کرتے تھے، وہ سلسلہ بند ہوگیا اور یوں ہمارے ایماندار صنعت کاروں اور تاجروں نے یہ اضافی رقوم دبئی کی جائیدادوں میں جھونک دی ہے جس کے نتیجے میں وہاں پراپرٹی کی قیمتیں ایک دم بڑھنا شروع ہو گئی ہیں۔ یوں ہماری برآمدات میں سات ارب ڈالر تک کی کمی ظاہر ہو رہی ہے۔
اب درآمدات کی دستاویز بندی کا آغاز ہو گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو ٹیکس چوری کا خاتمہ ہو گا تو ایف بی آر کے لال بجھکڑوں کا خیال ہے کہ اس کے نتیجے میں ہماری درآمدات میں پندرہ ارب ڈالر تک کی کمی ہو سکتی ہے کیوں کہ آج تک ہمارے درآمد کنندگان بھی اندرونِ ملک سے سرمایہ باہر منتقل کرنے کے ’’ایان علی‘‘ بنے ہوئے ہیں۔
اس وقت ہر درد دل رکھنے اور پاکستان کے معاشی حالات سے تھوڑا بہت آگاہ شخص اس امر پرپریشان ہے کہ اگلے سال ہمیں کم از کم بارہ ارب ڈالر قرضوں کی واپسی کے مد میں بین الاقوامی مہاجنوں کو ادا کرنے ہیں، موجودہ معیشت میں یہ سکت نہیں تو یہ کیسے ادا ہوں گے ؟ کیوں کہ برآمدات رو بہ زوال ہیں اور پاکستان کو زرِ مبادلہ کے سب سے بڑے ذریعے یعنی عرب ممالک کی معیشتوں کا تودیوالیہ نکل رہا ہے ایسے میں زرمبادلہ کے یہ سوتے بھی خشک ہو جائیں گے ۔ان سے عرض ہے کہ جب ہماری درآمدات میں شفافیت آ جائے گی تو اسی معیشت میں سے یہ رقوم نکل آئیں گی۔ ویسے بھی دبئی سے تو ہم اپنا پیسہ ہی ٹیکس بچانے کے لئے ’’تین فی صد کا چکر ‘‘لگوا کر ہی واپس لاتے ہیں ناں؟ تو وہ انکم ٹیکس کے قانون میں موجود سقم کے باعث اب بھی آتا رہے گا۔
اس دوران پنجاب میں پورے زرداری دور میں بجلی اورگیس کی عدم دستیابی کے باعث بند رہنے والی ملکی صنعت کا یہ ستر فی صد حصہ بھی آخر کار پوری صلاحیت سے چلنا شروع ہو گیا ہے کیوں کہ ایل این جی کی درآمد کے ساتھ ہی پنجاب کو صنعتوں کو سات سال بعد گیس کی بندش سے استثنیٰ ملا ہے جب کہ گذشتہ سال سے صنعتوں کے لئے میاں نواز شریف کی پنجابی حکومت نے ان صنعتوں کے لیے بجلی کی بندش بھی ختم کر دی ہے۔ ایسے میں یہ صنعت بھی تو اپنا کچھ نہ کچھ کردار ادا کرے گی۔ پنجاب کے صنعت کاروں کو تو اب پتہ چلا ہے کہ سارے منافعے کس جگہ رکھے جاتے ہیں۔
ایسے میں جب کہ ملک میں ایک کروڑ کے قریب چھوٹی اور بڑی کھالیں انتہائی کم قیمت نرم اور اعلیٰ معیار کھالیں ہماری صنعت کو دستیا ب ہوں گی تو اندازہ کر لیں کہ ہمارے ایمانداری صنعت کاروں کی منافع خوری کہا جا کر ٹھہرے گی؟ سعودی عرب کے بعد (جہاں حج کرنے والے سنتیس لاکھ غیر ملکی ہوتے ہیں) یہ دنیا میں حلال کئے جانے والے جانوروں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ یاد رہے کہ حلال طریقے سے جانور ذبح کرنے ، اور اس خون آہستہ آہستہ بہانے سے اس کی کھال میں وہ نرمی اور چمک آ جاتی ہے کہ جو جھٹکا کئے گئے جانور کو نصیب نہیں ہوتی اس لئے دنیا میں جانے مانے فرانس کے فیشن ڈیزائنر پاکستانی جانوروں کی کھالیں نام لے کر طلب کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے برآمدکنندگان اس کے پورے دام وصول کرنے کی بجائے ایک فون کال پر ہی یہ سستے داموں فراہم کرنے پر راضی ہو جائیں لیکن پھر بھی اس قدر کمائی ہو ہی جاتی ہے کہ بندہ برج الخلیفہ کے عقب میں شاندار رہائش رکھ کر باقی عمر سکون سے گذاری جا سکے۔

Comments

Click here to post a comment