ان کے لیے یہ نہایت معمولی بات تھی لیکن میرے اندر ایک کھلبلی سی مچ گئی۔ بہت زاویوں سے دیکھا، سوچا، پرکھا لیکن ایسی کوئی وجہ نہ ملی جس کو بنیاد بنا کر یورپ کی بدخوئی کے دلدادہ نفس کو تسکین پہنچا پاتا۔ اور بالآخر اپنی ہی تاریخ نے پہلے تو جواز فراہم کرتے ہوئے مطمئن اور پھر مضطرب بھی کر دیا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ کچھ عرصہ پہلے میرے ایک دوست، جن کا تعلق مصر سے ہے اور میری ہی یونیورسٹی سے علومِ اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، کو یونیورسٹی کی طرف سے "اسلام کا عائلی نظام" کے موضوع پر ایک لیکچر دینے کا پابند کیا گیا اور یہ کوئی ایسی غیر معمولی بات نہ تھی کہ جرمنی میں پی ایچ ڈی طلبا کی یہ معمول کی ذمہ داری ہے۔ اور اپنے تخصص کے اعتبار سے تقریبا ہر کوئی اس طرح کے لیکچرز دیتا ہے۔ حیرانگی کی بات یہ تھی کہ اس لیکچر کے لئے جس جگہ کا انتخاب کیا گیا وہ شہر کا مرکزی گرجا تھا اور سامعین عیسائی تھے۔ بڑی جاندار قسم کی گفتگو ہوئی، نہایت مہذب انداز میں سوال و جواب ہوئے، اعتراضوں کے جوابات پر کافی حد تک تسلی کا اظہار کیا گیا اور انفرادی افعال اور اسلامی تشخص کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے کچھ بنیادی نکتوں پر سیر حاصل گفتگو بھی ہوئی۔
کئی ہفتے بیتنے کے باوجود میں ابھی تک یہ گتھی سلجھانے کی کوشش میں لگا ہوں کہ آخر ایک طاقتور اور بہترین سہولیات کے حامل عیسائی ملک کی ایک مشہور یونیورسٹی،(University of Leipzig) جس کا مکمل انتظام عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے، کو کیا پڑی تھی کہ اپنے ہی ہم مذہبوں کے لئے انکے اپنے عبادت خانے میں ایک ایسے مذہب پر گفتگو کا انتظام کیا جائے جس کو وہ عملی طور پر تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اور اس پر مستزاد کہ اس "حرکت" پر نہ تو کہیں کوئی اعتراض سامنے آیا۔ نہ کسی نے کوئی احتجاج کیا۔ نہ کوئی استحکامِ عیسائیت کی قرارداد منظور ہوئی۔ نہ ہی کسی نے کوئی سڑک روک کر اپنے مذہبی جذبات مجروح ہونے کا ماتم منایا اور نہ ہی کسی نے بیچ بازار "محفل" سجا کر مذہب سے وفاداری کا ثبوت دیا۔
اس واقعہ کو میں نے جتنی بار بھی اپنے ملک اور مذہب کے موجودہ تناظر میں الٹ کر دیکھا۔ جواب نفی میں آیا۔ اور صرف نفی نہیں، بلکہ مجھے خون کے دھبے، ٹائر جلنے کی بو، بکھرے ہوئے شیشے، ٹوٹی ہوئی دکانیں اورسڑک پر دور تک بکھرا ہوا وہ سامان بھی نظر آیا جو کچھ دیر پہلے تک ٹھیلوں اور آس پاس کی دوکانوں میں سجا ہوا تھا۔ عالم تصور میں ایک جگہ تو مجھے وہ کمسن بیٹا بھی نظر آیا جس کا باپ ایمبولینس میں صرف اس لیئے جان کی بازی ہار گیا کہ ہسپتال کو جانے والے راستے پر مذہبی جذبات سے سرشار عقیدت مند اپنی مذہبی وفاداری کا ثبوت دے رہے تھے۔ کہیں ایک کونے میں سیسکتا ہوا وہ مزدور بھی نظر آیا جس نے قرض اٹھا کر بیرونِ ملک کی ٹکٹ خریدی تھی لیکن راستہ نہ ملنے کی وجہ سے جہاز پر سوار نہ ہوسکا۔ اور اب بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ دوبارہ ادھار کہاں سے مل سکتا ہے؟ کہ پچھلی بار بھی چوہدری صاحب نے ناک بھوں چڑھا کر بڑی مشکل سے چند ہزار عنایت کیئے تھے۔ اور وہ محنت کش تو بیچارہ رو بھی نہیں پا رہا تھا جس نے بڑی مشکل سے سبزی کا ٹھیلا بنایا تھا کہ بچوں کا پیٹ پال سکے لیکن اب وہ "کسی" احتجاج کی نظر ہوچکا تھا۔ اور وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ آخر یہ بھیڑ کس لیے تھی اور اس نے کسی کا کیا بگاڑا تھا جو اس سے اس کی کمائی کا واحد ذریعہ بھی چھین لیا گیا۔
غیر مسلم آج کے دور کی پیداوار نہیں بلکہ اسلام کے پہلے سے ہی اپنا وجود رکھتے ہیں اور اسلام تو آیا ہی ان کی اصلاح کے لیئے تھا۔ اور اصلاح دعوت کے ذریعے کی جاتی ہے دھونس اور دھمکی سے نہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے ان سے تعلقات بھی استوار کرنے پڑتے ہیں جس کے لیئے برداشت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جو آقائے نامدار ہمارے لیئے مبعوث کیئے گئے تھے ان کا طریقہ ہمیں یہ سیکھاتا ہے کہ باہمی تفہیم کے لیئے اس طرح کی مجالس کو برداشت کیا جائے گا اور مکالمہ کی غرض سے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے گی۔ اللہ کے نبی ﷺ کے پاس جو غیر مسلم وفود آتے تھے ان کو نہ صرف یہ کہ مسجد میں ٹہرایا جاتا تھا بلکہ عبادت کی بھی کھلی اجازت دی جاتی تھی۔ اور اس سب کے باوجود نہ تو کبھی اسلام خطرے میں پڑا اور نہ ہی اس وقت کے مسلمانوں کی عزت نفس پر کوئی حرف آیا۔ جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ غیر مسلم تو دور غیر مسلک کے افراد کو بھی مسجد میں آنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اور بعض مقامات پر تو باقاعدہ تختی آویزاں ہوتی ہے کہ فلاں فلاں کا داخلہ ممنوع ہے۔ جو گھر اللہ کے نام پر تعمیر کیا جاتا ہے وہی بعد میں مسلک کا قلعہ اور مورچہ ثابت ہوتا ہے۔ جس نبی ﷺ کے اخلاق کی گواہی دشمن بھی دیا کرتے تھے آج اسی کے نام پر اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کی جاتی ہیں۔ جس عظیم پیغمبر ﷺ کی شریعت میں لغو بات کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے آج اسی کے عشق میں سرِ عام گالیاں نکالی جاتی ہیں اور طرفہ تماشہ یہ کہ سننے والے بھی اس پر تائیدی نعرہ ہی بلند کرتے ہیں۔
جو دین امن و سلامتی کا علمبردار تھا آج وہ دنیا کے لئے دہشت اور قتل و غارت کا دوسرا نام بن چکا ہے۔ جو دین انسانی جان کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا تھا آج اسی کے ماننے والے لمحوں میں لاشوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ آج شہادت اور ارتداد کے عنوان اتنے سستے ہو چکے ہیں کہ کہیں بھی کسی کو بھی ان سے بلا جھجھک نوازا جا سکتا ہے۔ یہ ساری باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم اپنے مرکز سے کٹ کر غلط سمت میں کہیں بہت دور نکلتے جا رہے ہیں۔ اور جو قوم اپنے مرکز سے بھٹک جائے وہ کچھ بھی ہو سکتی ہے مگر قوم ہرگز نہیں ہو سکتی۔
مذہب سے وفاداری نہ صرف یہ کہ ضروری ہے بلکہ اس کا عملی اظہار بھی مطلوب ہے۔ لیکن اگر یہی اظہار دوسروں کے لیئے زحمت اور تکلیف کا باعث بن جائے تو وہ نفسانی تسکین کا ذریعہ تو ہو سکتا ہے مذہبی فریضہ ہرگز نہیں۔ اپنے جذبات کے اظہار کے ساتھ ساتھ دوسروں کے حق کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔ عوامی راستے روک کر مذہبی اور سیاسی جذبات کے اظہار پر اجر تو پتہ نہیں ملے گا کہ نہیں البتہ حقوق العباد میں کوتاہی برتنے پر جوابدہی ضرور ہو گی کہ ان کی تلافی کیے بنا کسی طور چھٹکارے کی امید نہیں۔
تبصرہ لکھیے