1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز ہندوستان پر مکمل طور پر قابض ہو چکا تھا، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی جانب سے مزاحمت کا خدشہ موجود تھا، چنانچہ برطانوی سامراج نے مرزاغلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کی پشت پناہی کے ذریعے مسلمانوں کے نظم اجتماعی میں تفریق پیدا کرنے کی سازش کی۔ مشہور و معروف فلسفی اور مفکر علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ ’’سلطان ٹیپو کے جہاد ِحریت سے انگریز وں نے اندازہ کیا کہ مسئلہ جہاد ان کی حکومت کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔ جب تک شریعت اسلام سے اس مسئلہ کو خارج نہ کیا جائے، ان کا مستقبل محفوظ نہیں۔ چنانچہ (انگریزنے) مختلف ممالک کے علماء کو آلہ کار بنانا شروع کیا۔ اسی طرح ہندوستانی علماء سے بھی فتاویٰ حاصل کیے۔ لیکن تنسیخ جہاد کے لیے ان علماء کو ناکافی سمجھ کر ایک جدید نبوت کی ضرورت محسوس ہوئی، جس کا بنیادی مؤقف ہی یہ ہو کہ ایک اقوام اسلامیہ میں تنسیخ جہاد کی تبلیغ کی جائے۔ احمدیت کا حقیقی سبب اسی ضرورت کا احساس تھا۔ قرآن کے بعد نبوت اور وحی کا دعویٰ تمام انبیائے کرام کی توہین ہے، یہ ایک ایسا جرم ہے جو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ’’ختمیت‘‘ کی دیوار میں سوراخ کرنا تمام نظام دینیات کو درہم برہم کر دینے کے مترادف ہے۔ قادیانی فرقہ کا وجود عالم اسلام، عقائد اسلام، شرافت انبیاء، خاتمیت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور کاملیت قرآن کے لیے قطعاً مضر و منافی ہے۔‘‘ (فیضان افضال صفحہ 295)
مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت اور احمد ی عقائد کی روشنی میں سب سے پہلے علمائے لدھیانہ نے کفر کا فتویٰ جاری کیا۔ اسی دوران مناظرے ہوئے، بحث و مباحثہ ہوا اور کتابیں لکھی گئیں۔ مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور علامہ محمد انور شاہ کاشمیری نے علمی میدان میں قادیانی مذہب کا مدلل انداز میں جواب دیا۔ لیکن ان سب باتوں کا تعلق علمی مباحث سے تھا۔ عوام کے اندر اس فتنے کے سدباب کی اشد ضرورت تھی، چنانچہ تحریک خلافت کے اختتام پر برصغیر کے حریت پسند رہنمائوں نے مل کر 1929ء میں آزاد خیا ل مسلمانوں کی جماعت ’’مجلس احرار‘‘ کی بنیا د رکھی ، جس نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے ساتھ ساتھ فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی۔ 1930ء میں انجمن خدام الدین لاہورکے سالانہ جلسے میں علامہ انور شاہ کاشمیری نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو’’امیرشریعت‘‘منتخب کیا اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کے تعاقب کی کمان سونپ دی، اس موقع پر پانچ سو جید علماء نے شاہ جی کی بیعت کی۔ مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے حریت پسند رہنمائوں نے فتنہ قادیانیت کے خلاف مسلمانوں میں شعوربیدار کیا۔ 23-22-21 اکتوبر 1934ء کو قادیان میں’’احرار تبلیغ کا نفرنس‘‘منعقد کی جس میں ہندوستان بھر سے علمائے کرام اور عوام نے شرکت کی۔ اس عظیم الشان کانفرنس کے ذریعے قادیانی مذہب مکمل طور پر بے نقاب ہوا۔
دراصل قادیانی مذہب کا معاملہ مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی نوعیت رکھتا ہے. یہ لوگ سیاسی طور پر مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ اور مسلمانوں کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت سے انکاری ہیں۔ چنانچہ علامہ اقبال ان کا تجزیہ کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ’’ہمیں قادیانیوں کے رویہ اور دنیائے اسلام سے متعلق ان کی حکمت عملیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ جب قادیانی مذہبی اور معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیارکرتے ہیں، تو پھر سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے کیوں مضطرب ہیں؟‘‘ اسی طرح مفکر احرار چوہدری افضل حق لکھتے ہیں کہ ’’قادیانی برٹش امپیریلزم (برطانوی استعمار) کے کھلے ایجنٹ ہیں اور مسلمانوں میں ففتھ کالم کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ ایک اور جگہ علامہ اقبال، پنڈت جواہر لال نہرو کے مضامین مطبوعہ ماڈرن ریویو کے جواب میں لکھتے ہیں کہ ’’قادیانیوں کے لیے صرف دو ہی راہیں ہیں یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں اور الگ ہوجائیں یا ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑکر اصل اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقۂ اسلا م میں ہو، تا کہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔‘‘
قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزا بشیرالدین کی ہدایت پر مذہبی و سیاسی طور پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانا شروع کردیا۔ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان قادیانی نے پاکستانی سفارت خانوں کو قادیانی تبلیغ کے اڈوں میں تبدیل کردیا۔ علماء ان حالات سے واقف تھے اور حکومت کو قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کر رہے تھے۔ 1952ء میں وزیرخارجہ ظفراللہ خاں قادیانی نے کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے احمدیت کو زندہ اور اسلام کو مردہ مذہب قرار دیا اور بلو چستان کے علاقے کو احمدی ریاست بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس سب صورتحال سے دینی طبقات واقف تھے چنانچہ قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سازشوں کو بھانپتے ہوئے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی قیادت میں مجلس احرار نے تحفظ ختم نبوت کے عنوان سے جلسے شروع کردیے اور مسلمانوں کے تمام طبقات دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کو مجلس احرار کی میزبانی میں ’’ کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘ کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور حکومت کے سامنے تین مطالبات رکھے۔
1. ظفراللہ خان کو وزارت خارجہ سے برطرف کیا جائے.
2. قادیانیوں کو اہم کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے.
3. قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
مطالبات نہ ماننے کی صورت میں پرامن احتجاجی تحریک چلائی گئی۔ تحریک کے قائد مولانا ابوالحسنات قادری تھے۔ اس تحریک کے سرکردہ رہنمائوں میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبدالستار خان نیازی، سید مظفر علی شمسی، ماسٹرتاج الدین انصاری، صاحبزادہ فیض الحسن، شیخ حسام الدین، سید ابوزر بخاری، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا محمد علی جالندھری، قاضی احسان احمد شجاع آبادی اہم ہیں۔ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ریاست نے ختم نبوت کا دفاع کرنے والے سرفروشوں پر گولی چلا دی اور دس ہزار سے زائد لوگوں کومال روڈ لاہور، کراچی، گوجرنوالہ، ساہیوال اور دیگر شہروں میں شہید کیاگیا۔ تحریک کے رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ مجلس احرار کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔ اس موقع پر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا تھا کہ’’ میں اس تحریک کے ذریعے ایک ٹائم بم فٹ کر کے جارہا ہوں جو اپنے وقت پر پھٹے گا اور فتنہ قادیانیت اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔‘‘ پھر تاریخ نے دیکھا کہ جب 29 مئی کونشتر میڈیکل کالج کے سیاحتی دورے سے واپس آنے والے طلبہ کو ربوہ ( چناب نگر) ریلوے اسٹیشن پر قادیانی غنڈوں نے ظلم و بربر یت کا نشانہ بنایا تو ایک بار پھر تحریک ختم نبوت نے زور پکڑا اور پورا ملک اس کی لپیٹ میں آگیا۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری کی قیادت میں مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، سید محمود احمدرضوی، پروفیسر غفور احمد، آغا شورش کاشمیری، مولاناسید ابوذر بخاری، چوہدری ثناء اللہ بھٹہ، نوابزادہ نصراللہ خان، سید مظفر علی شمسی، مولانا عطاء المحسن بخاری نے تحریک کو ملکی سطح پر منظم کیا، جلسے کیے، جلوس نکالے اور بالآخر بات پارلیمنٹ کے فلور تک پہنچی۔ ایک طویل بحث کہ جس میں قادیانی جماعت کے سربراہ کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کیا گیا، کے بعد 7ستمبر1974ء کو شہدائے ختم نبوت کا خون بےگناہی رنگ لایا اور لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر غیر مسلم ا قلیت قرار دیا، اس قراردادِ اقلیت کی متفقہ منظوری کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’ جناب اسپیکر ! میں آپ کو یہ بتانا مناسب نہیں سمجھتا کہ اس مسئلہ کے باعث اکثر میں پریشان رہا اور راتوں کو مجھے نیند نہیں آئی. اس مسئلہ پر جو فیصلہ ہوا ہے، میں اس کے نتائج سے بخوبی واقف ہوں. مجھے اس فیصلہ کے سیاسی اور معاشی رد عمل اور اس کی پیچیدگیوں کا علم ہے جس کا اثر مملکت کے تحفظ پر ہوسکتا ہے، یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ پاکستان وہ ملک ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی اس خواہش پر وجود میں آیا کہ وہ اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت چاہتے ہیں، اس ملک کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے، میں اس فیصلہ کو جمہوری طریقہ سے نافذ کرنے میں اپنے کسی بھی اصول کی خلاف ورزی نہیں کر رہا. پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا اصول یہ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے، اسلام کی خدمت ہماری پارٹی کے لیے اوّلین اہمیت رکھتی ہے‘‘۔ (ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی قومی اسمبلی میں 27 منٹ کی تقریر سے اقتباس)
اڈیالہ جیل میں بھٹو جب پابند سلاسل تھے تو انہوں نے اپنے ڈیوٹی آفیسر کرنل رفیع الدین سے کہا: احمدیہ مسئلہ! یہ ایک مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی بار کچھ نہ کچھ کہا. ایک دفعہ کہنے لگے :رفیع ! یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے یعنی ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے. ایک بار انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دے دیا ہے، اس میں میرا کیا قصور ہے؟ ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع الدین! کیا احمدی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بد دعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھڑی میں پڑ اہوں؟ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بھئی اگر ان کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے اپنے آپ کو غیرمسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں، پھر کہنے لگے کہ میں تو بڑا گناہگار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گناہوں کی تلافی کرجائے اور اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کردے۔ بھٹوصاحب کی باتوں سے میں اندازہ لگایا کرتا تھا کہ شاید انہیں گناہ وغیرہ کا کوئی خاص احساس نہ تھا لیکن اس دن مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔‘‘ (بھٹو کے آخری ۳۲۳دن ،از کرنل رفیع الدین )
اب صورت حال یہ ہے کہ 7ستمبر 1974ء کی قرارداد اقلیت اور 26اپریل 1984ء کے امتناع قادیانیت ایکٹ کو قادیانی جماعت تسلیم کرنے سے انکاری ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ان قوانین کے خلاف مہم چلا رہی ہے اور پاکستان کی سلامتی کے حوالہ سے قادیانی جماعت کا کردار ایک سوالیہ نشان ہے. قادیانی اپنا متعین قانونی و عدالتی اسٹیٹس تسلیم نہیں کرتے اور چناب نگر (ربوہ) کی صورت حال ریاست در ریاست کی ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تحفظ ناموس رسالتﷺ اور تحفظ ختم نبوتﷺ جیسے قوانین عالمی ایجنڈے کی زد میں ہیں، ایسے میں تمام مکاتب فکر اس مسئلہ پر پہلے کی طرح یکسو ہوجائیں خصوصاً تحریک ختم نبوتﷺ کی جماعتوں کو بدلتی صورت حال پر اندر کی آنکھ سے نظر رکھنی چاہیے. روایتی طریق کار اپنی جگہ، میڈیا، تعلیم وتربیت، ذہن سازی اور لابنگ جیسے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر دھیمی اندزمیں اقوام متحدہ اور عالمی اداروں میں بین الاقوامی سطح پر تحریک ختم نبوت کے لیے لابنگ کی اشد ضرورت ہے ورنہ فاصلہ زیادہ ہوتا جائے گا۔
تبصرہ لکھیے