ہوم << جنگِ 65، مغالطے اور حقائق - فاروق اعظم

جنگِ 65، مغالطے اور حقائق - فاروق اعظم

%d9%81%d8%a7%d8%b1%d9%88%d9%82-%d8%a7%d8%b9%d8%b8%d9%85 1965ء کی جنگ کو نصف صدی بیت چکی ہے، لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی جانے والی اُس پہلی باقاعدہ جنگ پر بحث و تمحیص کا دروازہ اب بھی بند نہیں ہوا۔ پچاس سال کا عرصہ کسی ملک یا قوم کے لیے کم نہیں ہوتا۔ کامیاب وہ ہیں جو ماضی سے سیکھیں، حال کو سنواریں اور مستقبل کو روشن تر کریں۔ لیکن ہم تاریخ سے سیکھنے کی بجائے تاریخ ہی کو الجھا دیتے ہیں۔ پینسٹھ کے بعد یہ اِکاونواں ماہِ ستمبر ہے، اس کے باوجود بھی یہ بحث اپنی جگہ اب بھی برقرار ہے کہ جنگ 65ء میں جارح اور فاتح کون تھا؟ گزشتہ برس بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جنگِ پینسٹھ کے پچاس سال مکمل ہونے پر جشنِ فتح منانے کا اعلان کیا تھا، جس سے یہ بحث مزید تقویت پاگئی تھی۔ جنگِ 65ء کے تناظر میں عموماََ دو نکات زیر بحث رہتے ہیں کہ:
۱۔ جنگ شروع کس نے کی تھی یا جارحیت کا مرتکب ملک کون سا تھا؟
۲۔ جنگ میں شکست کسے ہوئی تھی یا فاتح ملک کون سا تھا؟
ممکن ہے کہ یہ کہہ دیا جائے کہ اس بحث میں اب پڑنے کی ضرورت کیا ہے؟ جنگ کو گزرے اکیاون برس ہوچکے ہیں۔ اب کسی ملک کو جارح قرار دینے سے اس کا کیا بگڑے گا؟ یا پھر فاتح کہلوانے کا فائدہ کیا ہوگا؟ جب کہ پاکستان و بھارت کی فوجیں 1966ء کے معاہدہ تاشقند کے تحت جنگ سے پہلے کی پوزیشن پر واپس جاچکی ہیں۔ بظاہر یہ ایک لایعنی بحث ہے، لیکن بعض طبقے اس کی آڑ میں حسب ذیل نکات اٹھاتے ہیں:
۱۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں حقائق مسخ کرکے غلط تاریخ شامل کی گئی ہے۔
۲۔ محمد بن قاسم کی فتح سندھ سے اب تک جنگوں میں مسلم سپہ کی بہادری کی خود ساختہ داستانیں بیان کی جاتی ہیں۔
۳۔ پاکستان نے ہمیشہ جارحیت کی ہے اور شکست اس کا مقدر بنی ہے۔
۴۔ پاک فوج بجٹ کا بڑا حصہ صرف کرنے کے باوجود کبھی ملک کا دفاع نہیں کرسکی۔
۵۔ کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں نہیں ہیں۔ 1965ء میں کشمیریوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جس میں پاکستان ناکام رہا۔
ان حالات میں اس بحث کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہوگا۔ یہ براہ راست نسلِ نو کے ناپختہ ذہنوں پر حملہ ہے۔ اگر اس پروپیگنڈے اور پھیلائی گئی الجھنوں کا سدِ باب نہ کیا گیا تو حقائق مسخ ہوکر ذہنی انتشار کی خلیج مزید وسیع ہوسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے حالات و واقعات کو درست پیرائے میں بیان کیا جائے، تاکہ مغالطے رفع ہوکر حقائق منظر عام پر آسکیں۔ لہٰذا اول اس پہلو کو زیر بحث لاتے ہیں کہ 65ء میں جنگ کا آغاز کس نے اور کیوں کیا تھا؟
پاکستان کو جنگ چھیڑنے کا ذمہ دار ٹھہرانے والے عموماََ ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ کا حوالہ دیتے ہیں۔ پاکستان کو جارح سمجھنے والوں کا مؤقف ہے کہ جنگِ پینسٹھ کا آغاز چھ ستمبر کی رات لاہور پر حملے کے بجائے اگست سے کیا جائے، جب پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج سمیت مجاہدین کو گوریلا کارروائیوں کے لیے داخل کیا تھا۔ جس کی وجہ سے کشمیر میں حالات خراب ہوئے اور بدلے میں بھارت نے لاہور پر حملہ کردیا۔ ہماری رائے میں جنگِ پینسٹھ کا آغاز اگست سے بھی قبل ماہِ اپریل میں ہی ہوگیا تھا، جب بھارت نے رن کچھ کے پاکستانی علاقے پر حملہ کرکے اپنی فوجیں داخل کردیں تھیں۔ رن کچھ صوبہ سندھ میں بھارتی ریاست گجرات کی سرحد سے متصل تھر کے ننگر پارکر سے بحیرہ عرب کی جانب متنازع پٹی سر کریک تک نمکین دلدلی علاقہ ہے۔ اس غیر آباد خطہ زمین پر پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدوں کا باقاعدہ تعین نہیں کیا گیا تھا۔ ساڑھے تین ہزار مربع میل پر مشتمل عظیم رن کچھ کا بڑا حصہ گجرات میں ہے۔ بھارت نے اس کے شمالی حصے پر بھی دعویٰ کر رکھا تھا، لیکن چھڈ بیٹ کی چوکی سے یہ پاکستان کے زیر نگرانی تھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس خطے پر پہلے بھی فروری 1956ء میں جھڑپیں ہوچکی تھیں۔ تاہم پھر دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے سے سرحدوں کے تعین کے لیے آمادہ ہوگئے تھے۔
بھارت نے اپریل 1965ء میں ایک بار پھر رن کچھ کے پاکستانی علاقے کو طاقت کے بل بوتے پر ہتھیانے کا منصوبہ بنایا۔ جس کے لیے بھارتی فوج نے 5 اپریل کی رات پاک رینجرز کی چوکیوں پر حملہ کردیا۔ اسے معمولی سرحدی چھیڑ چھاڑ سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا، کیونکہ بھارتی فوج کے ڈپٹی کمانڈر انچیف میجر جنرل کمارامنگلم خود وہاں موجود تھے، جب کہ بھارتی وزیر داخلہ بھی اگلی فوجی چوکیوں کا دورہ کر رہے تھے۔ سر پر منڈلاتے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ کو ضروری فوجی اقدامات کی اجازت دی۔ جس پر پاک آرمی کے آٹھویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل ٹکا خان کو رن کچھ کے مقبوضہ علاقوں سے بھارتی فوج کو پسپا کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ انہوں نے بریگڈیئر افتخار خان جنجوعہ کو رن کچھ بھیجا اور تیار کیے گئے فوجی دستوں کو آگے بڑھایا۔ بالآخر بھرپور فوجی کارروائی کے بعد پاک آرمی نے 27 اپریل 1965ء تک بھارت سے اپنے مقبوضہ علاقے آزاد کرالیے۔ رن کچھ میں شرمناک شکست بھارت کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ جس پر وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بھارت اب اپنی مرضی کا محاذ کھولے گا‘‘۔ معرکہ رن کچھ کی مزید تفصیل کے لیے 1965ء میں پاک بھارت جنگ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی خالد محمود کی کتاب ’’رن کچھ سے چونڈہ تک‘‘ ملاحظہ کریں۔
اب آتے ہیں ریاست جموں کشمیر کی جانب، جہاں پینسٹھ میں بننے والی صورت حال کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جموں کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رو سے متنازع خطہ ہے۔ 1948ء میں سلامتی کونسل نے پاک بھارت کے مابین جنگ کی کیفیت کے باعث فریقین کو پابند کیا تھا کہ فوری جنگ بندی کی جائے۔ کشمیر سے فوجوں کو نکالا جائے۔ کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے۔ ان میں سے پہلا نکتہ بھارت کے مفاد میں تھا، چناں چہ جنگ روک دی گئی۔ تاہم باقی دو نکات کو بھارت اُس وقت تسلیم کرنے کے باوجود ان پر عمل درآمد سے تاحال انکاری ہے اور اب کشمیر کو اٹوٹ انگ بھی قرار دے رہا ہے۔ یہ واضح رہے کہ بھارتی آئین میں ریاست جموں کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی حیثیت اب بھی حاصل ہے۔ اس کے باوجود بھی 1963ء میں بھارت نے کشمیر کو انڈین یونین میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔ بعد میں دسمبر 1964ء میں دفعہ 357-356کو کشمیر پر لاگو کرتے ہوئے قانون سازی اور انتظامی اختیارات بھی سنبھال لیے تھے، جسے کشمیری کسی صورت قبول کرنے پر تیار نہ تھے۔ دوسری جانب بھارت نے کشمیریوں کو مزید محدود کرنے کے لیے جنگ بندی لائن کے آر پار آباد لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر بھی پابندی لگادی تھی، حالاں کہ سیز فائر لائن کوئی باقاعدہ سرحد نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر بڑھتی پابندیوں اور متشدانہ رویے نے وہاں کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کو انقلابی کونسل کی تشکیل پر مجبور کیا، جس نے آگے چل کر پرزور تحریک کی شکل اختیار کی۔ کشمیریوں کی یہ جدوجہد حق خود ارادیت کے حصول کی خاطر جاری تحریک ہی کا حصہ تھی۔ لیکن بھارت نے اسے پاکستان کی جانب سے مداخلت قرار دے کر کشمیر میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں شروع کردیں۔ بھارت کے اس الزام پر صدر پاکستان ایوب خان کا کہنا تھا کہ ’’ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر رہے جس کا ہم پہلے وعدہ کرچکے ہیں اور وہ یہ کہ ہم کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد میں ان کی حمایت کریں گے‘‘۔
پاکستان اور کشمیری عوام اپنے عمل اور مؤقف میں حق بجانب تھے، لیکن بھارت کو رن کچھ کی شکست کا داغ مٹانے کے لیے کسی نئے محاذ کا انتخاب کرنا تھا، جس کی وہ پہلے ہی دھمکی دے چکا تھا۔ اس کے لیے اول کشمیر میں جنگ چھیڑ دی گئی اور آزاد کشمیر کی طرف پیش قدمی کی گئی۔ بعد میں باقاعدہ بین الاقوامی سرحد عبور کرکے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کیا گیا۔ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کیا پاکستان سے مجاہدین نے مقبوضہ کشمیر کا رخ نہیں کیا تھا، جس کی مدد پاک فوج کر رہی تھی؟ اس بات سے قطعاََ انکار نہیں کہ جذبہ جہاد سے سرشار مجاہدین مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے تھے۔ لیکن ہم اسے جارحیت کا رنگ نہیں دے سکتے۔ اول کشمیر ایک متناع ریاست ہے، جس میں سیز فائر لائن بین الاقوامی بارڈر کا درجہ نہیں رکھتی۔ دونوں اطراف کے کشمیری آمدورفت اور آزادانہ نقل و حرکت کا حق رکھتے ہیں۔ دوم پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق ہے، وہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں ان کی حمایت کا پابند ہے۔ اگر پاکستان کشمیریوں کی پشتیبانی نہ کرے تو مجرم کہلائے گا۔ سوم کشمیریوں کا اپنی آزادی کی خاطر جدوجہد کرنا دہشت گردی نہیں۔ انسانی حقوق کا عالمی منشور بھی انہیں اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کا بھرپور حق دیتا ہے۔ اگر بھارت کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے بزور قوت محروم نہ رکھتا تو یہ حالات ہرگز پیش نہ آتے۔ پینسٹھ میں بھارت کو بے گناہ ماننے کا مطلب، کشمیر کو متنازع خطہ تسلیم کرنے کے برعکس اُسے بھارت کی باقاعدہ ریاست ماننے کے مترادف ہے۔
یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی تین طرح کی سرحدیں لگتی ہیں۔ ایک کشمیر کی جنگ بندی لائن (جسے 1972ء کے معاہدہ شملہ کے تحت لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا)۔ اس کے دونوں اطراف کا علاقہ متنازع ہے، یہاں تک کہ کشمیری استصواب رائے کے ذریعے کسی ایک ساتھ الحاق کا فیصلہ نہ کرلیں۔ نمبر دو ورکنگ باؤنڈری، جیسا کہ جموں اور سیالکوٹ کے درمیان ہے۔ یعنی ایک طرف سیالکوٹ تسلیم شدہ علاقہ ہے، دوسری جانب جموں تاحال متنازع ہے۔ تیسرا انٹرنیشل بارڈر ہے، جو پنجاب سے سندھ تک پھیلا ہوا ہے۔ پاک بھارت کے درمیان ایل او سی پر محدود سطح کی جھڑپیں اب بھی جاری رہتی ہیں۔ بڑے گولے بھی داغے جاتے ہیں، لیکن اسے باقاعدہ طبلِ جنگ نہیں کہا جاتا۔ ہاں انٹرنیشنل بارڈر پر یہ کیفیت معمولی قرار نہیں دی جاسکتی۔ ستمبر 1965ء میں بین الاقومی سرحد عبور کرنے کی جسارت بھارت نے کی تھی۔ 6 ستمبر کو فیلڈ مارشل ایوب خان کا ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب میں کہنا تھا کہ ’’بھارت نے کسی رسمی اعلان جنگ کے بغیر اپنی روایتی بزدلی اور عیاری سے کام لیتے ہوئے اپنی فوج کو پاکستان کی مقدس سرزمین میں داخل ہونے کا حکم دیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دشمن کو دندان شکن جواب دیں اور بھارتی سامراجیت کو کچل کر رکھ دیں‘‘۔ جنگ پینسٹھ میں بھارت نے مرضی کے محاذ کھولتے ہوئے کس طرح لاہور سے سیالکوٹ، چونڈہ، کھیم کرن اور راجستھان سیکٹر تک جنگ کو وسعت دی تھی، اس کی تفصیل محمد الیاس عادل کی کتاب ’’تاریخ پاکستان‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
اب دوسرے نکتے کو زیر بحث لاتے ہیں، جس پر اعداد و شمار کی رو سے آج تک کوئی تسلیم شدہ نتیجہ نکالا نہیں جاسکا۔ بھارت کو فاتح قرار دینے والے ان کے نقصانات کم اور مفتوحہ رقبہ زیادہ ظاہر کرتے ہیں۔ دوسری جانب شکست خوردہ کہنے والے نقصانات زیادہ اور مفتوحہ رقبے کی کمی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق 23 ستمبر 1965ء کی صبح تین بجے جب فائر بندی ہوئی تو اس وقت دونوں ملکوں کی افواج کے زیر قبضہ علاقوں کی تفصیل کچھ اس طرح تھی۔ اکھنور سیکٹر میں 340 مربع میل بھارتی علاقہ پاکستانی فوج کے قبضے میں آیا۔ لاہورسیالکوٹ میں ایک مربع میل، کھیم کرن سیکٹر میں 36 مربع میل، سلیمانکی میں 40 مربع میل، راجستھان سیکٹر میں 1200 مربع میل بھارتی علاقے پر پاک فوج نے قبضہ کیا۔ اس طرح کل 1617 مربع میل بھارتی علاقے پر پاکستانی فوج سترہ روزہ جنگ میں قابض ہوئی۔ اس کے برعکس بھارتی فوج کارگل میں 10مربع میل، ٹٹوال میں 2 مربع میل، اوڑی پونچھ میں 170 مربع میل، سیالکوٹ 140 مربع میل، لاہور سیکٹر میں 100 مربع میل اور راجستھان سیکٹر میں 24 مربع میل پاکستانی علاقے پر قابض ہوئی۔اس طرح بھارتی فوج نے کل 446 مربع میل پاکستانی علاقے پر قبضہ کیا۔ اس کے برخلاف بھارت کو فاتح قرار دینے والے اُن کی افواج کے زیر قبضہ رقبے کو 1800 مربع کلو میٹر اور پاکستان کے زیر قبضہ رقبہ کو 550 مربع کلو میٹر بیان کرتے ہیں۔ یہی تضادات افواج کے جانی نقصان، جنگی طیاروں اور ٹینکوں کی تباہی میں بھی نظر آتے ہیں۔ اس پر ایک تحقیقی تجزیہ جان فریکر نے پیش کیا ہے۔ وہ برطانوی میگزین ’’ایروپلین‘‘ کے ملٹری ایڈیٹر تھے۔ پاک بھارت جنگ کے تین سال بعد 1968ء میں وہ دوسری بار پاکستان آئے۔ ان کے دورے کا مقصد جنگِ پینسٹھ میں بالخصوص فضائیہ کے کردار پر ایک تفصیلی جائزہ رپورٹ مرتب کرنا تھی۔ جان فریکر کی کتاب ’’جنگِ پاکستان 1965ء کا فضائی معرکہ‘‘ جامعہ کراچی میں پاکستان اسٹڈی سینٹر کی لائبریری میں موجود ہے۔ کتاب کے آخری باب ’’دعویٰ اور جوابِ دعویٰ‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 1965ء کی جنگ کی گرما گرمی میں دونوں نے دشمن کے سو سے زائد طیارے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ لیکن چونکہ یہ ایک بالکل غیر یقینی بات ہے۔ پھر بھی اس جنگ میں دونوں طرف ہونے والے نقصان کا صحیح تخمینہ اب بھی بڑی حد تک سامنے نہیں آیا۔ ہندوستان کے معاملے میں یہ بات زیادہ صحیح ہے۔ کیونکہ پاکستان نے جنگ سے متعلق اپنا ریکارڈ اور عملے کو غیر جانبدار معائنے کے لیے پیش کردیا اور اپنے نقصانات کی تفصیل شائع کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایک مختصر فضائی فوج ہونے کی حیثیت سے پاکستان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے وسیع نقصانات کو آسانی سے پوشیدہ رکھ سکے‘‘۔ آگے چل کر انہوں نے اس موضوع پر بالتفصیل بحث کی ہے اور پاکستان و بھارت کے پیش کردہ رپورٹوں کا جائزہ لیا ہے۔
اعداد و شمار کی اس بحث میں پڑنے کی بجائے ہمیں جنگ کے مقاصد اور اہداف پر غور کرنا ہوگا۔ اس تناظر میں شکست و فتح کا بہتر نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ جنگِ پینسٹھ میں بھارت کا کشمیر میں مقابلے کی بجائے انٹرنیشنل بارڈر کی طرف لپکنااور لاہور پر قبضے کی کوشش کے دو مقاصد تھے۔ اول کشمیر میں ابھرنے والی تحریک کا خاتمہ اور دوم مغربی پاکستان پر قبضہ۔ چوں کہ کشمیر پر دونوں ممالک کی افواج میں گھمسان کا رن پڑچکا تھا۔ ان حالات میں اگر بھارت دوسرے محاذِ جنگ کھول کر پاکستان کو نہ الجھاتا تو کشمیر کو قابو رکھنا بھارت کے لیے انتہائی مشکل ہوتا۔ یہی وجہ ہے تھی بھارت نے نہ صرف پنجاب بلکہ سندھ پر بھی پر حملہ کیا۔ جہاں تک کشمیر میں چھڑنے والی جنگ کی بات ہے تو وقتی طور پر اس کا رخ موڑنے میں بھارت کامیاب تو ہوا، لیکن تحریک آزادی کو کچلنے میں ناکام رہا۔ کشمیریوں کی حقِ آزادی کی خاطر ابھرنے والی تحریک اب بھی نہ صرف جاری ہے بلکہ پہلے سے بڑھ کر مضبوط بھی ہے۔ دوسری جانب لاہور جم خانہ میں جشنِ فتح منانے کا خواب دیکھنے والی فوج ہزیمت لیے واپس پلٹنے پر مجبور ہوئی۔ جنگِ پینسٹھ میں پاک فوج کی کامیابی یہی تھی کہ وہ کم وسائل اور بغیر کسی پیشگی تیاری کے باوجود اپنے سے بڑی فوج کا راستہ روکنے میں کامیاب رہی۔ اس بناء پر جنگِ پینسٹھ ہماری ملی تاریخ میں صرف دفاع ہی نہیں فتح بھی ہے۔
٭…٭…٭
مضمون نگار جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ایم فل کر رہے ہیں۔