ہمارے گائیڈ جو مولہ تحصیل کی ایک یونین کونسل کے سابق ناظم رہ چکے تھے، روانی سے اپنے علاقے کے نمایاں سنگ میلوں اور اپنے دور نظامت میں علاقے میں کیے جانے والے ترقیاتی کاموں کی تندہی سے نشان دہی کرتے رہے، راستے میں آنے والے مختلف گاؤں دیہات کے اسمائے شریف بھی انہوں نے پوری ذمہ داری سے ہمارے گوش گزار کیے، لیکن کیونکہ جیپ اچھلتی بہت زیادہ تھی اور نتیجے میں ہم بھی بہت زیادہ اچھلتے تھے تو آواز کی لہریں کان میں تو داخل ہوئیں لیکن کان توازن برقرار رکھنے میں اتنے مصروف تھے کہ صوتی پیغامات بروقت آگے ترسیل نہ کر پا رہے تھے، قصہ مختصر اس وقت ہمیں ان کے بتائے گاؤں میں سے ایک بھی نام یاد نہیں۔
ٹریک المعروف اکلوتی سڑک مصر کی انا طووول سڑکوں کی طرح سیدھی سیدھی چلی چلی جاتی تھی گو کہ اتنی سیدھی بھی نہیں پر اس کے علاوہ کوئی اور ٹریک یا پگڈنڈی نظر ہی نہ آتی تھی، تو راستہ پر ہمارے کھو جانے کا کوئی ڈر نہیں تھا، فوٹوگرافروں والی گاڑی ہم سے آگے نکل گئی تھی اور جاتے جاتے ہمارے ڈرائیور کی بےعزتی خراب کرگئی تھی۔سو اس نے باقی ساری گاڑیوں کو اللہ اور ٹریک کے حوالے کیا اور گاڑی بھگالےگیا۔ لیکن یہ کیا، گاڑی کے سامنے پہلا پانی آیا اور گاڑی اس میں اشنان کرنے بیٹھ گئی، ڈرائیور نے بہت کوشش کی کہ آگے چل، لیکن نہ صاحب، اس نے ہم سمیت آگے بڑھنے سے انکار کردیا اور جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں، کیا صرف گاڑی کو اشنان کرنے کا حق تھا اس گرمی میں، ہم بھی میدان میں مطلب پانی میں اتر آئے، پانی ہمارے گٹوں تک آتا تھا، ٹھنڈا تو نہیں پر ٹھنڈا سا تھا یعنی مکمل غیر جانبداری سے ابھی اجتناب تھا۔ منہ نہ سہی پیروں کو ہی ٹھنڈا کیا، پلٹ کر جو دیکھا تو بکریوں کا ایک سونامی چلا آرہا تھا۔
دریں اثنا ہماری جیپ کے پیچھے دوسری جیپیں بھی آکر اشنان کے لیے قطارمیں لگ گئیں۔ سارے مسافر اتر کر بکریوں کے درمیان اور پانی میں بکھر گئے، سب کے کیمرے بھی گرمی سے گھبرا کر اپنے خول سے باہر نکل آئے، کوئی اس بکری کی بوتھی کی تصویر بنا رہا ہے تو کوئی اس بکرے کے سینگوں کو فوکس کر رہا ہے۔ جب سے ڈیجیٹل کیمرے آئے ہیں تصویروں کی تعداد کا تو رولا ہی مک گیا ہے، ورنہ ایک دور وہ ہوتا تھا کہ مشکل سے36 تصویریں ایک رول میں ہوتی تھیں، اندھیرے کمرے میں اندھوں کی طرح ریل کیمرےمیں ڈالی جاتی تھی کہ ایک دو تصویریں اضافی بن سکیں، پھر رول اتنا مہنگا ہوتا تھا، پہلے رول ڈویلپ کرواؤ ، پھر تصاویر پرنٹ کرواؤ ، ایک تو تعداد کم، اوپر سے خرچہ اور خجل خواری زیادہ، تو اندھے اپنے اپنوں کو ہی ریوڑیاں بانٹا کرتے تھے اور بہت ناپ تول کر یعنی فریم بنا کر، فوکس کرکے تصویر لی جاتی تھی۔ اب تو اندھا دھند فائرنگ مطلب شوٹنگ کا دور ہے، پرنٹ کرانے کا ٹنٹا ہی مکا دیا کمپیوٹر اور موبائل فونز نے۔ پہلے دل کے آئینے میں تصویر یار ہوتی تھی اب موبائل فون میں ہوتی ہے، ایک ذرا سا ٹچ کیا، دیکھ لی۔
اشنان سے فارغ ہوکر آگے چلے تو اب ہزارہا شجر سایہ دار نہ سہی پر مسافرنواز گاؤں راہ میں آتے گئے، جن کے نام ہم بوجوہ بھول چکے ہیں۔ خطِ نامستقیم کہیں کہیں بےراہرو ہو کر خط تقسیم ہو جاتا تھا، کبھی اس بھٹکی ہوئی راہ پر کہیں سبزہ و گل سا نمایاں ہوتا تھا جو اس امر کا اعلان ہوتا تھا کہ یہاں ایک گاؤں آباد ہے، اگر آپ کی جیپ مردانہ آبادی پر مشتمل ہے تو آپ گاؤں کی خواتین کا احترام کرتے ہوئے ذرا دور دور سے گزر جائیں، لیکن اگر آپ کے ساتھ خواتین بھی ہیں تو ہر گاؤں کے دروازے آپ کے لیے ”چشم ما روشن دل ما شاد“ ہوں گے۔ گائیڈ کے بقول سن 2007ء میں آنے والے سیلاب میں متعدد گاؤں بہہ گئے تھے۔ کیونکہ یہ سارا راستہ اور وادی دراصل دریائے مولہ کی گزرگاہ ہے اور کہتے ہیں کہ دریا اپنا راستہ کبھی نہیں بھولتا۔
اور گاؤں کیا تھے، ایک یا چند مٹی سے بنے کشادہ مکان ، جن کے گرد کچھ زمین بطور کھیت استعمال کی جارہی تھی، اور آنگن میں چند آم کے درخت، کھیتوں کے اطراف کچھ کھجور کے پیڑ۔ ہر گاؤں کے گرد سیلاب سے بچائو کے لیے بچائو بند پتھروں کو فولادی جال میں قید کرکے بنایا گیا تھا۔ گاؤں سے پہلے ایک بار پھر پانی کے دھارے گاڑی کا راستہ روکے کھڑے تھے۔ یہاں کچھ بچے اور بچیاں پانی میں تیراکی کر رہے تھے، سہیلی نے بچوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا لیکن یہ بچے شمال کے بچوں کی طرح سیاح نامی مخلوق اور ان کے ساتھ حسب توقع پیش آنے کے آداب سے ناواقف ہیں، یہاں کون آتا ہے جو بچوں کو باہر کی دنیا کے طور طریقے سکھائے۔ بچے کھڑے منہ دیکھتے رہے کہ خاتون کیا کر رہی ہیں اور بچیاں شرما کر گھر کی طرف دوڑ گئیں۔
ایسے ہی ایک گاؤں میں ہم کچھ دیر ٹھہرے، حضرات باہر فوٹو گرافی کرتے رہے، جب کہ ہم اپنی سہیلی کی ہمراہی میں اندرون خانہ اسمگل ہوگئے، یہ ہمارے گائیڈ، سابق ناظم مولہ یونین کونسل کا گاؤں یا گھر تھا، جہاں ان کے والد، بھائی، بھابھی اور ان کے بچے اپنے بچوں کے ساتھ آباد تھے۔ بڑا سا آنگن، دائیں جانب چند کمرے، انہی کے ساتھ کچھ گیلری نما اونچی چھت اور متعدد دروازو ں والی بیٹھک، بڑا سا کشادہ صحن ،صحن کے درمیان میں مویشیو ں اور مرغوں کے لیے چاروں جانب سے کھلی ہوئی سایہ دار چھپرنما جھونپڑی، بائیں طرف باورچی خانہ ، سامنے کی طرف رہائشی کمرے اور گودام/اسٹور۔ پورا گھر سلیقے سے مٹی سے لیپا ہوا، صاف ستھرا۔ پورے گھر کو شمسی توانائی سے بجلی مہیا ہوتی ہے، جس کاثبوت وہ ٹھنڈا یخ پانی تھا جو ہم نے ان کے فریج کی بدولت اس توبہ شکن گرمی میں پیا تھا۔
نوعمر بچیوں کے سوا گھر کی خواتین اردو سے نا بلد تھیں لیکن ”السلام علیکم“ ایک ایسا منتر ہے جو اجنبیت کے سارے سحر توڑ دیتا ہے۔ ایک بچی جو انٹرمیڈیٹ کر چکی تھی، اب اکلوتے مقامی پرائمری اسکول میں مزید بچوں کی تعلیم کا ذریعہ بن گئی تھی۔ ایک دس یوم کی نومولود بچی روایتی بلوچی طریقے سے کاجل سے کھینچی ہوئی لمبی لمبی بھنووں تلے، گہرا گہرا کاجل آنکھوں میں ڈالے، کپڑے میں لپٹی سو رہی تھی، بلوچ خواتین اپنے نومولود بچوں کو کپڑے میں لپیٹ کر رسی سے باندھ دیتی ہیں، اس طرح بچے دیر تک سوتے ہیں اور درمیان میں چونک کر جاگتے نہیں۔ بچے کے سر کے نیچے باریک ریت کا تکیہ رکھا جاتا ہے جو بچے کے سر کو بدہئیت ہونے سے بچاتا ہے۔ بچی کا نام اس کی والدہ نے ملالہ رکھا تھا، ہم نے مبارکباد دی، فوٹو کھینچا اور دل میں دعا کی کہ یہ ملالہ ملک کا نام بدنام کرنے کے برعکس کچھ کر دکھائے، آمین
آم کے درختوں پر کیریاں رج کے لدی ہوئی تھیں، جن پر للچائی ہوئی نظریں ڈالی گئیں، کھیت میں پیاز کے پھول کھلے تھے، نانی بوئی سے ملتے جلتے، خوبصورت، ہم نے پہلی بار دیکھے تھے، اچھے لگے، جتنا ہوسکا تفصیل سے اپنے سائبر شاٹ میں قید کیے، پھر بھی جو باریکیاں رہ گئیں وہ سہیلی اور ہم سفر کے ڈیسلآروں میں سما گئیں۔ ہینڈ پمپ کے تازہ ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے ٹھنڈ پروگرام کیا گیا۔ کھیت سے تازہ کھیرے توڑ کر ہمیں پیش کیے گئے جو ہم نے جیپ میں کہیں نہ کہیں فٹ کر لیے۔ جیپ کا حال یہ تھا کہ پیچھے ڈالے میں جو چیز بھی رکھی جاتی، مائع ہوتی تو ابل جاتی، ٹھوس ہوتی تو اس کی سجی یا بروسٹ باآسانی تیار ہوجاتا، کھیرا بروسٹ واہ ، اندازہ کریں کہ ایک نئی ڈش ہماری احتیاط پسندی کے ہاتھوں ایجاد ہونے سے رہ گئی۔ ہمارے جیپ کی اقتداء میں ایک دو مزید جیپیں اور ان کے سوار بھی کھجوروں کی چھاوں تلے آن رکے تھے، ہم کافی وقت گزار کر گرمی کا اثر کم کرچکے تھے، مزید دیر کرتے تو منزل مراد پر پہنچتے اندھیرا ہوجاتا لہذہ انہیں وہیں فوٹوگرافی اور سستانے کے لیے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔
اگر خط نامستقیم کہیں بے راہ رو ہوتا نظر آتا تھا اور اس کے ارد گرد کسی گاؤں کی نشانیاں یعنی سبزہ و گل نمایاں نہ ہوتے تھے تو راہ راست چھوڑ کر آوارہ ہوجانے والا خط جیپ سمیت کچھ دور جاکر واپس راہ راست پر لوٹ آتا تھا، یہ کچھ دور چند گز سے لے کر چند یا زیادہ زیادہ کلومیٹر تک ہوسکتا تھا۔ لیکن یہ طے تھا کہ آپ اس وادی میں زبردستی گم ہونے کی کوشش کریں تو بھی گم نہیں ہوسکتے تھے۔ البتہ ڈوبنے کے بہت مواقع تھے اور ڈبانے کے بھی۔ راستے میں مزید کئی گاؤں آتے رہے، ہمارے گائیڈ ہمیں ان کے نام اور تفاصیل بتاتے رہے، اور ہم حسب ترتیب انہیں سن کر بھلاتے رہے۔
ان کے کہنے کے مطابق اس علاقے میں جتنی بھی ترقی ہوئی وہ پرویز مشرف کے دور میں ہوئی جب مقامی افراد کو اختیار دیا گیا، جیسے کہ پہلی بار علاقے میں لوگوں کو ٹیوب ویل، ٹریکٹر، شمسی توانائی کے پینلز اور چارجرز وغیرہ دیے گئے جن سے مقامی افراد کو روزمرہ امور کی ادائیگی اور زندگی گزارنے میں کافی آسانیاں ہوگئی ہیں۔ لیکن مشرف اور لوکل باڈیز کے نظام کے خاتمے کے بعد سیاسی قیادت نے علاقے کی آبادی کو بےیار و مددگار چھوڑ دیا ہے، گو کہ ڈاکٹر عبدالمالک کے بعد تازہ ترین وزیراعلیٰ بلوچستان اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان سے علاقے کے لوگوں کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔ البتہ ایک غیر سرکاری تنظیم نے کمیونٹی ڈیویلپمنٹ پروگرام کے تحت علاقے کی خواتین کو گلہ بانی کے لیے سندھ سے اعلیٰ نسل کی بکریاں سستے داموں مہیا کی تھیں جو اب تعداد میں کافی بڑھ گئی ہیں اور ان خواتین کے خاندانوں کے لیے بہتر دودھ، گوشت اور اضافی آمدنی کا ذریعہ ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس غیر سرکاری تنظیم کے علاوہ ایک [شیوا یا اشوک نامی] بھارتی این جی او بھی اس علاقے میں کمیونٹی ڈیویلپمنٹ اور ترقیاتی سیکٹر میں کام کر رہی ہے۔ اس پر ہماری حب الوطنی اور جاسوسی کی رگیں ایک ساتھ پھڑکیں، مگر ہم نے کسی قسم کا اعتراض یا تبصرہ کرنے سے گریز کیا کہ مبادہ وہ بدک جائیں اور بھارتی مداخلت کاروں کے بارے میں مزید تذکرہ کرنے سے گریزکرنے لگیں۔ ویسے بھی ہم کلی طور پر ان کے رحم و کرم پر تھے، کہ موبائل کے سگنلز عرصہ ہوا میلوں پیچھے ہی رہ گئے تھے اور مہم کے دی لیڈر جب سے ہم کراچی سے چلے تھے اپنی پرائیوٹ ٹرانسپورٹ میں گم شدہ تھے۔
لیکن اسکارف کے اندر ہمارے کان یہ سن کر ضرور کھڑے ہوگئے۔ جہاں تک ہمیں علم ہے اور ہماری عقل کام کرتی ہے پاکستان اور بھارت کے تعلقات اتنے محبانہ تو ہرگز نہیں کہ وہ ایک دوسرے کی این جی اوز کو اپنے ہاں آزادنہ یا پابندانہ عوامی سطح پر کام کرنے کی اجازت دیں۔ تاہم ہمارے رہنما نے بھی اس سلسلے میں مزید لب کشائی سے گریز کیا، شاید روانی میں یہ بات ان کے منہ سے نکل گئی تھی، جس کا انہیں فوراً ہی احساس ہوگیا۔ بہر حال اس امر کا کسی نہ کسی سطح پر نوٹس لیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں وزارت داخلہ کی کارکردگی تو حال ہی میں طالبان رہنما ملا منصور اختر کی ہلاکت، اس کے پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ سے ہی ظاہر ہے۔
تبصرہ لکھیے