ہوم << سات لاکھ کا جانور۔ قاضی حارث

سات لاکھ کا جانور۔ قاضی حارث

خیرو چاچا سندھ کے ایک دور افتادہ گاؤں میں ایک زمیندار کے پاس مزارع کے طور پر کام کیا کرتے تھے، انکی تنخواہ بہت تھوڑی تھی اور خیر سے اللہ نے یکے بعد دیگرے پانچ سال میں انکو چار بیٹیوں سے بھی نواز دیا تھا، بیٹیوں کی فکر نے انکو وقت سے پہلے بوڑھا اور انکے بڑھاپے نے بچیوں کو وقت سے پہلے جوان کردیا۔ تنخواہ میں مشکل سے گزارا ہوتا تھا لیکن کسی نہ کسی طرح وہ تھوڑے بہت پیسے روزانہ کی دہاڑی سے نکال کر اپنے اس پیارے بچھڑے کی خوراک میں ضرور خرچ کرتے جو دو سال پہلے انہوں نے سائیں اکرم سے خریدا تھا جو سب کچھ اونے پونے داموں بیچ کر شہر چلا گیا تھا۔ دو سال میں یہ بچھڑا پورے گاؤں میں مشہور ہوگیا تھا۔ اسکی صحت قابل رشک تھی جسکا راز وہ خوراک تھی جو خیرو چاچا اور انکے گھر والے خود نہ کھا کر اسے دیتے۔

برابر والے گاؤں میں خیرو چاچا کے دو بھائی رہتے تھے۔ اچانک ہی دونوں ادھر آدھمکے۔ کہ رہے تھے عرصہ ہوا ملاقات کو، دل کیا تو چلے آئے۔ بچیوں کا بھی دل بہل گیا۔ رہے تو وہ پندرہ دن لیکن یہ دن اتنی تیزی سے گزرے کہ احساس ہی نہ ہوا۔ چاچا خیرو کی بچیوں کے سگھڑپن سے دونوں بھائی اور انکی بیویاں اتنی متاثر ہوئیں کہ جاتے سمے دونوں نے اپنے دو دو بیٹوں کیلیئے چاروں کا رشتہ مانگ لیا، بلکہ اگلے سال کے دوسرے مہینے میں بیاہ کا عندیہ بھی دے دیا۔

چاچا کے لیے یہ ایک بہت بڑی خوشی کی خبر تھی لیکن دیکھنے میں آیا کہ چاچا کی کمر مزید جھک گئی ، بیگم نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ جہیز اور شادی کے اخراجات کیلیئے دمڑی بھی پاس نہیں ہے، بات ہی ایسی تھی کہ بیگم بھی افسردہ ہوگئی۔

خیر سے عید کے کچھ روز پہلے چاچا کے دماغ میں یہی خیال آیا کہ اب انکو اپنی بچیوں کیلیئے اپنے بچھڑے کی قربانی دینی ہوگی۔ لیکن کیا یہ قربانی سودمند ہوگی بھی یا نہیں؟ یہ دھڑکا دل میں لیئے چاچا اپنا بچھڑا لیکر شہر کی منڈی آئے۔ گاہک آتے جانور دیکھتے لیکن اتنا مہنگا جانور کون خریدتا بھلا؟ منڈی خالی ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ چاند رات آگئی۔ چاچا کے چہرے پر مایوسی کے ڈیرے تھے۔ اتنے میں چند لوگ ایک قیمتی گاڑی میں منڈی کے اندر تک چلے آئے، چاچا کے جانور کے سامنے گاڑی رُکی، شیشہ اُترا۔ پوچھا گیا، کتنے کا دو گے؟
چاچا نے کہا سات لاکھ! شیشہ بند ہوگیا۔ چاچا نے سوچا کہ کاش پانچ ہی بول دیتا، اتنے میں شیشہ پھر اترا۔ ایک ہاتھ باہر آیا اس میں ایک بیگ تھا۔
"گن لو! پورے ہیں! عمران! جانور کیلیئے ٹرک کا بند و بست کرلو۔ تین دن بعد بہت مشکل سے جانور پسند آیا ہے، اور میں اللہ کی راہ میں پسندیدہ چیز قربان کرنا چاہتا ہوں۔"
پھر کیا ہوا؟؟؟
پھر اگلے مہینے چاچا کی بیٹیاں دمکتے چہروں کے ساتھ پیا دیس سدھار گئیں۔
چاچا کی محنت وصول ہوگئی
ڈاکٹر صاحب کی قربانی بھی ہوگئی
اور دیسی لبرل ہاتھ ملتے رہ گئے۔