ہوم << شہید.... آن علی

شہید.... آن علی

کیپٹن عمر! کیا سن رہے ہیں اکیلے اکیلے؟ رافعہ نے شوخ انداز میں اپنے بھائی کو مخاطب کیا تھا.. آپ رو رہے ہیں بھائی.. وہ ایک دم سنجیدہ ہو گئی تھی بھائی کیا ہوا؟ اس نے موبائل عمر کے ہاتھ سے لے کر اس نظم کی ویڈیو کلوز کی اور پھر بھائی کو دیکھا جس کا چہرہ ہی بتا رہا تھا کہ وہ کس اذیت سے گزر رہا ہے آنکھوں کی نمی حلق میں اتارتے ہوئے جب عمر بولا تو شدت درد سے پھٹ پڑا تھا " ہر کام میں آگے رہنے والا تمہارا یہ بھائی اس بار پیچھے رہ گیا رافعہ!
وہ... جیت گیا یار ! میں ہار گیا…
ہرایا بھی تو وہاں جہاں دوبارہ اس سے جیت ہی نہیں سکتا…
وقف جن کی تھی نامِ خدا زندگی
پا گئے وہ خدا کی رضا زندگی
البدر کے مجاہد کہاں کھو گئے ہو
سب روانہ سفر پہ کہاں ہو گئے ہو
اور میں تنہا رہا یہ سزا زندگی
اور میں تنہا رہا یہ سزا زندگی
تھی شہادت کی یارو جنہیں جستجو
ہو گئے جان دے کے سبھی سرخرو
ہے انھی کے لیے یہ بقا زندگی
وقف جن کی تھی نام خدا زندگی
پا گئے وہ خدا کی رضا زندگی
میری مجبوریاں، میری ناکامیاں
ہر قدم پر یہ میری پریشانیاں
کب تھی میرے لیے خوش نما زندگی
سوچتا ہوں میں اپنی ہے کیا زندگی
وقف جن کی تھی نام خدا زندگی
پا گئے وہ خدا کی رضا زندگی
شہادت سے محرومی کا درد اسکی آنکھوں سے چھلک رہا تھا اور ساتھ ہی اپنے عزیز از جان دوست " کیپٹن ذیشان " کی شہادت اسکے غم کو دگنا کر رہی تھی ایک ساتھ ہر کورس کرنے والے یہ ساتھی بالآخر بچھڑ گئے تھے چند دن قبل ہونے والی اس شہادت نے عمر کو توڑ کے رکھ دیا تھا.
کاش وہ زی کے ساتھ ہوتا تو آج وہ دونوں ایک ساتھ ہوتے حسرت سے اس نے سوچا تھا.
اسکی سوچوں کا سلسلہ رافعہ نے توڑا جو چائے بنا کر لائی تھی اور یہ پیغام بھی کہ کچھ دیر تک "کیپٹن زی" کے گھر جانا ہے
اپنی امی اور بہن کو لے کر وہ اسکے گھر پہنچا تھا اسکے والد کے چہرے پر وہی خوشی نمایاں تھی جو ایک شہید کے والد کے چہرے پر ہوتی ہےالبتہ آنٹی کی حالت قدرے مختلف تھی ماں جو ٹھہریں… زی کی باتیں کرنے کے لیے میں اسکی امی کے پاس ہی بیٹھ گیا اور آنٹی سے اس کے بچپن سے لے کر اب تک کے واقعات شئیر کیے…
کیپٹن ذیشان... جسے پیار سے گھر والے اور اسکے دوست زی بلاتے تھے وہ ماں باپ کا اکلوتا، لاڈلا، اور بے حد فرمانبردار بیٹا اپنی تین بہنوں کی خوشیوں کا مرکز تھا پیدا ہوا تو خاندان بھر میں مٹھائیاں بانٹی گئیں شکرانے کے نوافل ادا کیے گئے… اللہ نےاسے بےحد خوبصورت بنایا تھا____شرارتی اتنا کہ الامان…. اور ذہانت ایسی کہ اساتذہ بھی مجبور ہوجاتے تعریف پر.. اپنے بابا کو آئیڈیلائز کرتے اسی لیے تو ایف ایس سی میں امتیازی نمبروں سے پاس ہونے کے بعد آرمی میں جانے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے سے سب پریشان ہوگئے تھے سوائے اس کے ابو کے… لیکن جب وہ پاس آؤٹ ہوا تب تک سب خود کو ذہنی طور پر تیار کر چکے تھے ٹریننگ کے لیے وہ ماں باپ کی دعائیں لیے رخصت ہوا اور میرے ساتھ ہی اسکا سفر شروع ہوا ایک ہی یونٹ تھی ہم دونوں کی…وقت گزرتا رہا اور وہ شہادت کی تمنا لیے سوات آپریشن کا حصہ بن گیا...
میری سوچوں کا سلسلہ آنٹی نے توڑا... دیکھو عمر بیٹا! قسمت کے کھیل..... ہر جگہ اکٹھے ہوتے تھے تم دونوں
اکٹھے والینٹیئر کیا تھا سوات آپریشن کے لیے تم دونوں نے اور عین وقت پر تمہاری بیماری نے اسے تم سے دور کر دیا...آخری سفر پر وہ اکیلا ہی روانہ ہو گیا.
آنٹی کی اس بات پر بمشکل اپنے آنسو روکے تھے… مرد کی آنکھ میں آئے آنسو اکثر عورت کو کمزور بنا دیتے ہیں اور اس وقت میں آنٹی کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا…
آنسو ایک شہید کی ماں کا چہرہ چوم رہے تھے..اور دوسری ماں اس ماں کے غم میں برابر کی شریک تھی… ان ماؤں کوروتے ہوئے چپ کروانے کتنا مشکل ہوتا ہے…
اسکی شادی کی تاریخ دو دفعہ آگے کی تھی میں نے- -
اور کہا تھا اب کی بار نہیں بڑھاؤں گی آگے اگر وقت پر نہ پہنچے تو…مجھے کیا پتا تھا کہ سوات کی مٹی کو میرے جگر کے لہو کی ضرورت تھی… آبیاری تو کرنی تھی نا!!! مایوں بیٹھی اسکی دلہن کے ہاتھوں پر خوب رنگ آیا تھا مہندی کا… سب نے کہا کہ بہت خوش نصیب ہے یہ.. اور ٹھیک ہی تو کہا تھا خوش نصیب ہی تھی جو اسکا دلہا پھولوں کے ہار پہنے مقررہ وقت پر آگیا تھا.
ازلی معصومیت اور جان لیوا مسکراہٹ کے ساتھ.. میرے بیٹے نے سوات کا امن بچا لیا اس مٹی کا حُسن بچا لیا اور قرض ادا کر دیا اس مٹی کا، اپنا لہو دےکر .. ہمیں تنہا کر گیا…
زی کی امی خاموش ہو گئی تھیں بچا ہی کیا تھا ان کے پاس… بس.. یادیں رہ گئی تھیں… ان سے اجازت لے کر میں زی کے کمرے میں گیا.. جا بجا اسکی یادیں تھیں اور…. میری شرمندگی میں اضافہ ہو رہا تھا میں کیوں پیچھے رہ گیا کیسے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ملتا مجھے " تیرا وقت ابھی نہیں آیا"... میں نے اسکا لیپ ٹاپ آن کیا تھا پہلی ویڈیو یہی تھی جو ہم دونوں کو بہت پسند تھی:
ساری دنیا سے ناطے سبھی توڑ کر
اپنا گھر چھوڑ کر اپنا در چھوڑ کر
رب کہے میری راہ میں لُٹا زندگی
وقف جن کی تھی نام خدا زندگی
پا گئے وہ خدا کی رضا زندگی
دُور اس دیس سے اب چلا جاؤں میں
اور جامِ شہادت اب پاؤں میں
اب یہ دیتی رہے گی صدا زندگی
وقف جن کی تھی نام خدا زندگی
پا گئے وہ خدا کی رضا زندگی
زی کی آواز میں یہ ریکارڈنگ سن کر میں خود پر قابو نہیں رکھ پایا تھا اور اس کی شہادت کے بعد آج پہلی بار رویا تھا بچوں کی طرح بِلکتے ہوئے مجھے اندازہ نہیں ہوا کہ کب اسکی چھوٹی بہن مریم میرے پیچھے آ کھڑی ہوئی…عمر بھائی! یہ زی بھیا کی ڈائری ہے یہ نظم ادھوری ہے یہاں اسے مکمل کر دیں پلیز.. روتے ہوئے اس نے التجا کی تھی.. مریم بیٹا آپ پریشان نہ ہوں میں اسے مکمل کر دیتا ہوں میں نے اسے تسلی دی تھی ڈائری کھولی تو اس کے آخری صفحات پر یہ نظم ادھوری لکھی تھی اس کے یہ چند اشعار باقی تھے
وہ مجاہد میرے ہم نوا ہم سفر
خوں رُلائیں گی یادیں ہمیں عمر بھر
اُن کے دم سے تھی بادِ صبا زندگی
وقف جن کی تھی نامِ خدا زندگی
پا گئے وہ خدا کی رضا زندگی
دل میں شوقِ شہادت جواں ہے ابھی
دوستو سر پہ سایہء قرآں ہے ابھی
ڈھونڈ مقصود وہی نقشِ پا زندگی
سوچتا ہوں میں اپنی ہے کیا زندگی
وقف جن کی تھی نامِ خدا زندگی
پا گئے وہ خدا کی رضا زندگی
یہ اشعار لکھتے وقت مجھے لگا جیسے یہ میرے لیے ہی چھوڑے ہوں اس نے ایک خاموش پیغام کے طور پر…
اس نظم کو مکمل کرنے کے بعد جو اگلی ویڈیو سامنے آئی وہ ہم دونوں کے لیے یادگار ترین ویڈیو تھی میری آواز میں ریکارڈ کردہ جنرل صاحب کا خطاب جو ہم وقتاً فوقتاً سنا کرتے..... میں... جنرل ایوب خان صاحب کا بہت بڑا پرستار، ان کے اس خطاب سے سب سے زیادہ متاثر تھا جو انہوں نے 1965 کی جنگ کے موقع پر قوم سے کیا تقریباً ایک منٹ تیس سیکنڈ کا یہ خطاب اٹھارہ سال کی مملکت پاکستان کے عوام میں جوش وجذبہ بیدار کرنے کے لیے کافی تھا.
میرے عزیز ہم وطنو! السلام علیکم
دس کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کا وقت آ پہنچا ہے آج صبح سویرے ہندوستانی فوج نے پاکستان کے علاقے پر لاہور کی جانب سے حملہ کیا اور بھارتی ہوائی بیڑے نے وزیر آباد سٹیشن پر ٹھہری ہوئی ایک مسافر گاڑی کو اپنے بزدلانہ حملے کا نشانہ بنایا- بھارتی حکمران شروع ہی سے پاکستان کے وجود سے نفرت کرتے رہے ہیں اور مسلمانوں کی علیحدہ آزاد مملکت کو انہوں نے کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا - پچھلے اٹھارہ برس سے وہ پاکستان کے خلاف جنگی تیاریاں کرتے رہے ہیں - پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دل کی دھڑکن میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا گونج رہی ہے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہو جائیں.
ہندوستانی حکمران ابھی شاید جانتے نہیں کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے - ہمارے دلوں میں ایمان اور یقین محکم ہے ہمیں معلوم ہے کہ ہم سچائی کی جنگ لڑ رہے ہیں ملک میں آج ہنگامی صورتحال کا اعلان کردیا گیا ہے جنگ شروع ہو چکی ہے دشمن کو فنا کرنے کے لیے ہمارے فوجی دستوں کی پیش قدمی جاری ہے اللہ تعالٰی نے پاکستان کی مسلح افواج کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع عطا کیا ہے-
میرے ہم وطنو! آگے بڑھو اور دشمن کا مقابلہ کرو خدا تمہارا حامی و ناصر ہو. آمین.
پاکستان پائیندہ باد!
کس قدر مختصر لیکن جامع انداز تھا سر کا!
یہ خطاب سن کر کیسے حوصلے بلند ہوئے ہوں گے ہماری فوج کے.. میں اس سے تائیدی لہجے میں پوچھ رہا تھا اور وہ کہ رہا تھا یار!
کتنا زبردست لگا ہو گا نا… سر ایم ایم عالم کو.. جب انہوں نے ایک منٹ سے بھی پہلے پانچ جنگی جہاز تباہ کیے ہوں گے.. مطلب تقریباً بارہ سیکنڈ فی جہاز.. اتنے میں تو ایک گلاس پانی نہیں ختم کر سکتا میں.. اس نے افسوس سے مجھے دیکھا تھا…
چھوڑ یار تیری تو ہر کام میں سپیڈ کم ہی ہوتی ہے مجھ سے.. میں نے اسے چڑایا تھا…
ان کے حوصلے بلند تھے یار.. وہ اسلحے سے نہیں ایمانی جذبے سے لڑ رہے تھے اور جو چوِنڈہ سیکٹر میں دھول چٹائی تھی انڈیا کو..
بڑے غرور سے آئے تھے جان بچا کر بیچارے ٹینک چھوڑ کے بھاگے تھے… اور وہ بڑھک سنی تھی" کل کا ناشتہ ہم لاہور میں کریں گے" اپنی فوج کی درگت بنتے دیکھ کر تو سارا ناشتہ پانی بھول گیا ہو گا انہیں…
ایک جاندار قہقہہ لگایا تھا ہم دونوں نے..
اس کے ساتھ ہی ہوش میں آیا تھا ایک خواب سا ٹوٹا ہو جیسے… ٹوٹ ہی تو گیا تھا میرا خواب… بجھے دل کے ساتھ اس کی ڈائری ساتھ لیے، اسکی یادوں کو دل میں چھپائے شکستہ قدموں سے چلتا ہوا اس کے کمرے سے باہر آ یا تھا… گھر چلیں امی؟ جی بیٹا چلتے ہیں.. اللہ آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور دعا کریں اللہ میرے عمر کو بھی اپنے لیے مخصوص کر لے ..آمین میرے دل کی گہرائیوں سے نکلا تھا….
شہادت کی آرزو لیے میں اس کے گھر سے چلا آیا تھا چھٹی ختم ہونے پر جب یونٹ گیا تو نارمل ہونے میں وقت لگا... ایک دن ایسے ہی اس کی ڈائری کھولی اور پہلی ہی نظم پڑھ کر میں خود پر قابو نہیں رکھ پایا تھا یہ ایک اور ادھوری نظم تھی ایسے لگتا تھا جیسے وہ جانتا ہو کہ ہم اکٹھے منزل تک نہیں پہنچیں گے.
میں اکثر اپنی ماں سے کہتا تھا!!!
ماں! دعا کرنا...
کہ کبھی تیرا یہ بیٹا...
خاکی وردی پہنے...
تیرے سامنے کھڑا ہو!!!
اور میری ماں؟؟؟
میری ماں یہ سن کر ہنس دیا کرتی تھی...
میں اکثر اپنی ماں سے کہتا تھا!!!
جب دھرتی تیرے بیٹے کو پکارے گی!!!
پھر اس دن کے بعد...
میرا انتظار مت کرنا!!!
آنسو ضبط کرتے ہوئے میں نے اسے مکمل کیا تھا یہ ایک پیغام تھا جو مجھے آنٹی کو دینا تھا.
کبھی جو تمہیں میری ماں ملے!!!
تو اُس سے کہنا کہ....
وہ اب بھی ہنستی رہا کرے....
کہ شہیدوں کی مائیں....
رویا نہیں کرتیں!!!
یہ پیغام میں نے آنٹی تک پہنچا دیا تھا... صبر کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی تھیں..... بس مسکرائیں اور اتنا کہا...
کتنا خیال ہے میرے بیٹے کو میرا... اسے کہنا تم اپنی ماں کا فخر ہو... ایک سکون سا تھا جو میرے دل میں اتر گیا ان کی یہ بات سن کر... جانے والوں کو بھلایا تو کبھی نہیں جاتا لیکن ان کو یاد کر کے رونے سے کیا حاصل!!! سنا ہے انہیں تکلیف ہوتی ہے کوئی اپنا اگر روئے تو... آنٹی میری بات سن کر خاموش ہو گئی تھیں .................
وقت گزرتا رہا کہ وقت بھی بھلا کبھی رکتا ہے…
اسکی دوسری برسی تھی جب آپریشن ضربِ عضب کی تیاریاں آخری مراحل میں تھیں والینٹیئر کرنے پر مجھے اس مشن میں شامل ہونے کا موقع ملا.
مجھے شہادت کی صورت میں اپنی آخری منزل نظر آ رہی تھی… گھر والوں سے کہ کر نکلا تھا میرا انتظار مت کیجیے گا دشمن کے چیتھڑے اُڑا کر ہی لوٹوں گا…
کہتے ہیں نا کہ اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے یہی معاملہ عمر کے ساتھ پیش آیا.
اللہ نے اسے بہترین کام کے لیے منتخب کر لیا تھا آپریشن ضرب غضب کا حصہ بننے پر جہاں اسکی خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی وہیں ایک انجانا سا خوف دل میں بیٹھ گیا تھا اگر اس بار بھی شہادت کی عرضی قبول نہ ہوئی تو… اس سے آگے سوچنا بھی محال تھا اس کے لیے.. حضرت خالد بن ولید کی بھی تو شہادت کی آرزو پوری نہیں ہوئی تھی ان کے تو جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں زخم نہ ہو… اور یہی سوچ اس کو کھائے جا رہی تھی.
حساس علاقے میں داخل ہونے سے پہلے مشن کے متعلق بریف کیا گیا اپنے کمانڈر کی یہ باتیں اس کا حوصلہ مزید بڑھا گئیں
" اس ملک کے دشمن چاہتے ہیں کہ یہ ملک ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے اور اس مقصد کے لیے اپنی توانائیاں ادھر استعمال کر رہے ہیں.. میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں یہ ملک اللہ کے نام پر بنا ہے ہمیشہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے کئی دشمن آئے اور خوداتنے ٹکڑوں میں بٹ گئے کہ آج تک وہ جمع نہیں ہو سکے… عبرتناک شکست ہمیشہ ہمارے دشمن کا مقدر بنی ہے... یہ ملک آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا.. دشمن طاقت ور ہے تو کیا ہوا قرآن کی یہ آیت ہی ہمارے لیے کافی ہے
" حسبنا اللہ ونعم الوکیل"
مورال کیسا ہے؟ سکائی ہائی سر!!
نعرہ تکبیر……… اللہ اکبر
پاکستان…… زندہ باد
یہ نعرے ہمارا خون گرما گئے تھے جوش و ولولہ ہر احساس پر بھاری پڑ رہا تھا.
دشمن ہمیں کمزور سمجھتا ہے ارے ہم تو وہ ہیں جو سر پہ کفن باندھ کے نکلتے ہیں… ایک ساتھی کی آواز آئی تھی…
جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتے ہیں ملک ہی نہ رہا تو جی کے کیا کریں گے… وطن کے لیے مر مٹنے کا جذبہ لیے میرا ساتھی بولا تھا..
وہ ڈرتے ہوں گے موت سے.. ہم ایسے کیا ڈریں گے جن کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید نے ہمارے لیے مثالیں قائم کی ہوں
مجھے تو ان کا یہ قول بہت پسند ہے:
" دنیا کے بزدلوں کو میرا یہ پیغام دے دو
اگر موت جنگ کے میدان میں آنی ہوتی تو یہ خالد یوں بستر پہ نہ مرتا".
میں نے بھی گفتگو میں حصہ لیا،
آٹھ گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں بالآخر فتح کیپٹن عمر اینڈ کمپنی کی ہوئی… دہشت گردوں کی کثیر تعداد کو ان کے اصل اور ابدی ٹھکانے پر پہنچانے کے دوران چھ گولیاں عمر کے جسم سے آر پار ہوئیں اور وہ مسکراتے ہوئے اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئے
اے راہ حق کے شہیدو ، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیے تم نے
بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوں کو
سہاگ کتنی بہاروں کے رخ لئے تم نے
تمہیں چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
چلے جو ہوگے شہادت کا جام پی کر تم
رسول پاک نے بانہوں میں لے لیا ہوگا
علی تمھاری شجاعت پے جھومتے ہونگے
حسین پاک نے ارشاد یہ کیا ہوگا
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں
پاکستان آرمڈ فورسز کے شہیدوں اور غازیوں کو سلام ہے جنہوں نے ہمیشہ اپنا لہو دے کر پاکستان کی حفاظت کی ہے.
پاکستان آرمڈ فورسز زندہ باد!
پاکستان پائیندہ باد!
تحریر: آن علی

Comments

Click here to post a comment