ہوم << میاں صاحب کی فیکٹری اور غریب مصری- غلام نبی مدنی، مدینہ

میاں صاحب کی فیکٹری اور غریب مصری- غلام نبی مدنی، مدینہ

گاڑی کا ایک پرزہ لینے کے لیے گاڑیوں کی اسکریپ مارکیٹ میں جانا ہوا۔ مدینہ منورہ سے تھوڑا باہر ”اسکریپ گاڑیوں“ کی یہ بہت بڑی مارکیٹ ہے، جہاں ایک سے ایک گاڑی ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں چوںکہ حادثات کی شرح کچھ زیادہ ہے، اس لیے عموماً اچھی خاصی نئی گاڑیاں تک لوگ حادثے کے بعد اسکریپ میں بیچ دیتے ہیں۔
ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک گودام میں مطلوبہ پارٹ مل گیا۔ گودام کاملازم مصری تھا جو عرصہ دس سال سے یہاں مدینہ میں اسکریپ کے کام سے جڑا تھا۔ راقم نے پوچھا اتنی گاڑیوں کا اسکریپ آخر کون خریدتا ہے؟ یا یوں ہی گاڑیاں گل سڑ جاتی ہیں؟ کیوں کہ پاکستان کی طرح نہ یہاں ریڑھی بان گھر گھر جاکر پرانا لوہا، لیلون، پلاسٹک خریدتے ہیں اور نہ وافر مقدار میں اسکریپ کی دکانیں ملتی ہیں۔ بارہا پرانی اور حادثے کا شکار گاڑیوں کے گلنے سڑنے کا مشاہدہ ہوا۔
مصری ملازم نے فوراً کہا کہ وہ جو پاکستان کے وزیراعظم ہیں، ان کی فیکٹری جدہ میں ہے جو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی اسکریپ فیکٹری ہے۔ سارا سکریپ وہی خریدتے ہیں۔ مصری کو نام یاد نہیں تھا پوچھا کیا نام ہے پاکستان کے وزیر اعظم کا؟ کہا کہ میاں محمد نواز شریف۔
کہنے لگے بہت مالدار ہیں؟ عرض کیا اتنے مالدار نہیں، کیوں کہ نہ ان کے پاس ذاتی گھر ہے، نہ ذاتی گاڑی نہ ذاتی کوئی جائیداد بس وہ تو مانگی تانگی اور تحفہ میں ملنے والی چیزوں پر گزارا کرتے ہیں۔
مصری کہنے لگا: ”سب جھوٹ اور فراڈ ہے"۔
اگلے ہی لمحے خیال آیا کہ ”مالدارفقیروں“ بالخصوص جووزیر اعظم بھی ہوں ان کے فقر سے پردہ اٹھانا اچھا نہیں ہے۔ کیوں کہ دنیا ایسے ”فقیروں“کو خوب جانتی ہے۔
آج کل پانامہ لیکس اور میاں برادران کی فیکٹریوں کاخوب چرچا ہورہا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ آخر کیوں میاں برادران اپنی ذاتی فیکٹریوں اور جائیدادوں کو تسلیم نہیں کرتے اور اگر کبھی حقائق آنے کے بعد کچھ تسلیم بھی کرتے ہیں تو گفٹ شدہ کہہ کر خود کو غریب ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے لوگ یہی سمجھ رہے ہیں کہ یہ ساری فیکٹریاں اور جائیدادیں غلط طریقے سے بنائی گئی ہیں۔
بزنس کرنے میں کوئی برائی نہیں، معیوب آپ تب ٹھہرتے ہیں جب بزنس مروجہ جائز اور قانونی طریقوں سے بالا ہوکر کریں۔ حال میں طاہر القادری نے وزیراعظم پر الزام لگایا کہ ان کی شوگر ملوں میں انڈین لوگ کام کررہے ہیں، جو انجینئرنگ کی آڑ میں ملکی جاسوسی کرتے ہیں۔ کسی حدتک یہ الزام درست بھی ہے کیوں کہ انڈین جاسوس کلبھوشن کے کال ریکارڈز میاں صاحبان کی فیکٹری ہی سے برآمد ہونے کے دعوے ہیں۔ پھر بھارتی سرکار کے ساتھ میاں صاحب کی نرم گوشی بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ انگلینڈ، سعودی عرب، پاکستان اور انڈیا میں کاروباری کمپنیاں ہونے کے باوجود میاں صاحب اپنے اثاثے چند لاکھ بھی ظاہر نہیں کرتے۔ اور کہتے ہیں کہ رائیونڈ کا محل اور تمام کمپنیوں میں ان کا کچھ بھی نہیں، یاتو ان کے بیٹوں کا ہے یا پھر لوگوں نے ہدیتاً دیا ہے۔ دن کی روشنی میں اس سفید جھوٹ پر لوگ تبھی اعتماد نہیں کرتے کہ آج چھوٹے سے گھر چلانے کے لیے ایک غریب آدمی کو اتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور میاں صاحب ہیں جن کی نہ صرف دنیا میں بڑی بڑی کمپنیاں چل رہی ہیں بلکہ وہ پاکستان کی بہت بڑی پارٹی اور ملک کی گاڑی بھی، بغیر کسی جائیداد اور ذاتی پیسوں کے چلارہے ہیں۔
اس ضمن میں اپوزیشن، بالخصوص عمران خان اور طاہر القادری کا احتجاج بالکل بجا ہے۔ جو کم ازکم لوگوں کے سامنے اصل حقیقت بیان کرکے لوگوں کو آگاہی دے رہے ہیں۔ آپ عمران خان اور طاہر القادری کو جتنا چاہے برابھلا کہہ لیں لیکن یہ لوگ کم ازکم دیگر اپوزیشن یا حکومتی اتحادی جماعتوں سے بہت بہتر ہیں۔ کیوں کہ دیگر اپوزیشن جماعتیں سب کچھ جاننے کے باوجود محض مفاہمت اور ذاتی مفادات کی آڑ میں ملکی سالمیت داؤ پر لگنے کے باوجود اپنا منہ بند رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بھارتی ایجنٹوں کی دہشت گردی سے عام لوگوں کا خون بہہ رہا ہے۔
اس سارے قضیے کے سامنے آجانے کے بعد عوام کو خواب غفلت سے بیدار ہوجانا چاہیے اور اپنے نمایندوں کو منتخب کرنے کے لیے یہ عزم کرنا چاہیے کہ وہ جھوٹے اور مفاد پرست لوگوں کا بائیکاٹ کریں گے۔ چاہے ایسے لوگوں کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔ عوام کی رائے ہموار کرنے کے لیے سنجیدہ لوگوں کو بھی بغیر کسی تعصب اور لالچ کے کوششیں کرنا ہوں گی۔ علماءے کرام کو مساجد کے منبر ومحراب سے لوگوں کو سچ کا ساتھ دینے کی ترغیب دینی ہوگی۔ تاکہ کوئی مصری ملک کے وزیراعظم کو جھوٹا کہہ سکے، نہ کوئی گورا ہمارے ملک پر بددیانتی کا لیبل لگاسکے۔

Comments

Click here to post a comment